میری ڈائری کا ایک ورق۔۔۔ ہائے ری دیا کہاں ہیں وہ لوگ


اپنی ڈائری کا ایک ورق پلٹتا ہوں تو یادوں کے کئی دریچے کھل جاتے ہیں اور میرا رہوار تخیل بیس سال قبل کی ایک محفل سے بڑی بڑی ادبی شخصیات کو سوار کر لاتا ہے۔ انتظار حسین، جمیل الدین عالی، رحمان مذنب، سائرہ ہاشمی اور بہت سے دوسرے۔ یہ حلقہ ارباب ذوق کا ایک تاریخی اجلاس ہے جو میرا جی کی پچاسویں برسی پر ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے انعقاد پذیر ہوا ہے۔ آغاز زمستاں ہوا ہی چاہتا ہے۔ عجائب گھر لاہور کا آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ میں بھی ایک کونے میں دبکا بیٹھا ہوں۔

سرفراز سید نے میرا جی پہ لکھا گیا عصمت چغتائی کا خاکہ ”سوکھے پتے“ پیش کیا ہے۔ جمیل الدین عالی کہاں چپ رہنے والے ہیں، خاکہ اختتام پذیر ہوتے ہی بول پڑے ہیں”اس خاکے میں کئی چیزیں حقائق کے خلاف ہیں“۔ سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں میرا جی کے بارے میں بہت سی بے سروپا باتیں پھیلائی گئی ہیں اور عصمت چغتائی تو تھیں ہی چٹخارے کی عادی۔ میرا جی کے حلیے اور جنسی زندگی کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کی جاتی ہیں۔

 وہ ہرگز کمزور مرد نہیں تھے۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا، ان کی صحت اچھی تھی۔ میں اخترالایمان کے ساتھ تین ماہ تک پونا میں ان کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے ان میں ایسی کوئی جنسی کج روی نہیں دیکھی۔ ایک واقعہ بھی عالی صاحب نے سنایا کہ ایک دفعہ عصمت چغتائی کا خاوند ان سے ناراض ہو کر کسی اور شہر دوست کے پاس چلا گیا اور کافی دن گھر نہ آیا۔ عصمت چغتائی نے اس کا ذکر میرا جی سے کیا تو انھوں نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ان کا شوہر ایک ہی روزمیں واپس آ سکتا ہے۔

 عصمت نے پوچھا ”وہ کیسے؟ “۔ تو میرا جی نے عصمت کی طرف سے ایک جملہ کاغذ پہ لکھا ”تمھاری بیٹی (جس کی عمر چار سال تھی) جب بھی کوئی گاڑی گھر کے باہر سے گزرتی ہے تو چلا چلا کے کہتی ہے کہ ابا کی گاڑی آ گئی۔ عصمت نے یہ خط ڈاک کے ذریعے اپنے شوہر کو بھجوایا تو وہ خط پڑھتے ہی گھر چلا آیا۔ یوں میرا جی کی معاملہ فہمی نے یہ مسئلہ حل کیا۔ عالی صاحب کہتے ہیں کہ عصمت کو یہ واقعہ بھی اپنے خاکے میں بیان کرنا چاہیے تھا۔

اور عصمت جو یہ کہتی ہیں کہ میرا جی کے ہاتھوں میں لوہے کے گولے ہوا کرتے تھے تو یہ بھی غلط ہے۔ یہ گولے لوہے کے نہیں بلکہ اس کاغذ کے ہوا کرتے تھے جس کو وہ اپنے ہاتھوں سے مسل کر بالکل گول کر دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس طرح وہ قافیہ اور ردیف ملاتے ہیں۔ عالی صاحب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا جی نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور مجھے دوہے لکھنے کی ترغیب انھوں نے ہی دی۔ وہ کہتے تھے عالی تم اگر پچاس دوہے لکھ لاؤ تو میں ادبی دنیا میں متعارف کرا دوں گا۔

 انھوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد میرا جی کا بمبئی میں رہنا ایک المیہ تھا۔ یہاں قدرت اللہ شہاب جیسے ان کے قدر دان موجود تھے انھوں نے ان کو لانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں فی البدیہہ میرا جی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا جی آزاد نظم کے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ اس وقت جب ان کی وسیع و وقیع کلیات وجود پذیر ہوئی اس وقت فیض کی صرف نقش فریادی اور ن۔ م راشد کی ماورا ہی منظر عام پہ آئی تھیں۔

 سمی تعلیم بہت کم ہونے کے باوجود میرا جی کا مغربی ادب کا مطالعہ نہایت وسیع تھا اور انھوں نے ایسے ایسے مغربی ادبا و شعرا کو متعارف کرایا جنہیں یہاں کوئی جانتا نہیں تھا۔ ڈاکٹر سعادت سعید بھی میرا جی پہ ایک عمدہ مقالہ اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہیں۔ پھر ایک بانسری نواز اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پھر ایک ابھرتا ہوا گلوکار رؤف میرا جی کے پسندیدہ راگ جے جے ونتی اور میرا جی کا ایک گیت“ کس نے کھولا رین جھروکا کس نے کنڈی کھولی” گا کر خوب داد وصول کی۔

(28 نومبر 1999)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).