شام میں عسکری کارروائی کرنے پر ترکی پر کڑی پابندیا لگانے کا منصوبہ


امریکہ

امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت رپبلکن پارٹی کے ارکان نے شام میں عسکری کارروائی پر ترکی کے خلاف پابندیوں کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کانگریس کی خاتون رکن لز چینی نے کہا کہ ترکی کو خطے میں ’ہمارے کرد اتحادیوں پر بےرحمی سے حملہ کرنے کے سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس تنازعے میں ثالثی کے خواہاں ہیں۔

ادھر ترک افواج کی جانب سے حملوں میں تیزی آنے کے بعد شمالی شام میں ہزاروں افراد نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہے۔

ترک فوج نے فی الوقت سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض کو گھیرے میں لیا ہے اور امدادی اداروں کو خدشہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ ترکی کی شام میں کردوں کے خلاف عسکری کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے شمال مشرقی شام سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی اور اس اقدام کو دراصل حملے کی اجازت کے حربے کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی کے شام میں داخلے کے بعد دسیوں ہزار افراد بے گھر ہو گئے

ترک آپریشن: کیا دولتِ اسلامیہ پھر سر اٹھا سکتی ہے؟

شام میں ترکی کی اتحادی ’نیشنل آرمی‘ کون ہے؟

ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو ‘دہشت گرد’ قرار دیتا ہے جو اس کے بقول ترک مخالف شورش کی حمایت کرتی ہے۔ ایس ڈی ایف دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کلیدی حریف رہی ہے اور اس نے امریکہ کی جانب سے ترکی کو کارروائی سے نہ روکنے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا نے ترکی کو سرحد پار سے حملہ کرنے کی موثر طور پر گرین لائٹ دی جس کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد شام کی سرحد کے ساتھ 480 کلومیٹر ایک ’محفوظ زون‘ بنانا ہے۔

تاہم یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ کارروائی نہ صرف کردوں کی نسل کشی کا موجب ہو سکتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی سر اٹھا سکتی ہے۔

https://twitter.com/RepLizCheney/status/1182435986590056450

پابندیوں کا منصوبہ کیا ہے؟

امریکہ میں اپوزیشن جماعت یعنی ڈیموکریٹس کی اکثریت والے ایوانِ نمائندگان میں حکمران رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے 29 ارکان کے ایک گروپ نے قانون سازی کا اعلان کیا ہے جس سے انقرہ پر پابندیاں عائد ہوں گی۔

خاتون رکن لز چینی نے ایک بیان میں لکھا ’اگر ترکی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ اتحادیوں جیسا سلوک کیا جائے تو اسے بھی ایک اتحادی کی طرح برتاؤ کرنا ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’کانگریس کو طویل عرصے سے (اردوغان) حکومت کی طرف سے امریکی مخالفین جیسا کہ روس کے ساتھ تعاون پر خدشات ہیں۔‘

تاہم انھوں نے اپنے بیان میں امریکی فوجیوں کے شام سے انخلا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

کانگریس کی رکن جوڈی ارنگٹن نے کہا ہے کہ ’امریکی صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اگر ترکی شام میں حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اسے معاشی طور پر تباہ کر دیں گے اور اس قانون سازی سے امریکہ کو اپنا وہ وعدہ پورا کرنے کے لیے درکار چیز ملتی ہے۔‘

ترکی بمقابلہ شامی کرد: ماضی، حال اور مستقبل

ترکی کی شام میں زمینی کارروائی کا آغاز

یہ منصوبہ رپبلکن پارٹی کی ہی سینیٹر لنڈزے گراہم کی جانب سے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس ہولن کے ساتھ مل کر جمعرات کو پیش کیے گئے اس مسودۂ قانون کے بعد سامنے آیا جس میں ترکی پر ’کڑی پابندیاں‘ لگانے کی بات کی گئی تھی۔

لنڈزے گراہم صدر ٹرمپ کی بڑی حامی ہیں لیکن انھوں نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کی کھل کر مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نے کردوں کو شرمناک انداز میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

تلہ آباد

صدر ٹرمپ نے کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟

صدر نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا، یہاں تک کہ ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ کردوں نے ’دوسری عالمی جنگ میں ہماری مدد نہیں کی۔‘

لیکن اس کے بعد سے انھوں نے ترکی کی شام میں کارروائی پر سخت لہجہ اختیار کر لیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا اگر ترکی کی کارروائی ’انسان دوست‘ نہیں ہے تو پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔

ایک اہلکار نے صحافیوں کو بتایا حد عبور کرنے کا مطلب ’نسل کشی، توپخانے کا بلاتفریق استعمال اور شہری آبادی کو فضائی اور دیگر طریقوں سے نشانہ بنایا جانا ہے۔‘

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’ ہم نے ابھی تک اس کی نمایاں مثالیں نہیں دیکھی ہیں لیکن ابھی تو آغاز ہوا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ صدر نے سفارتی عملے کو یہ جانچنے کی ذمہ داری دی تھی کہ ’اگر دونوں فریقوں کے مابین کوئی بیچ کی بات بن سکے تو ہم جنگ بندی کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ نے جمعرات کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ کے پاس تین راستے ہیں۔ ’ہزاروں فوجی بھیج کر عسکری فتح، ترکی پر کڑی مالیاتی پابندیاں اور ترکی اور کردوں کے درمیان معاہدے کے لیے ثالثی۔‘

بعدازاں امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پرامید ہوں کہ اس میں سے آخری راستہ استعمال ہو گا۔‘

شام میں ترک آپریشن میں کیا ہو رہا ہے؟

جمعرات کی شب ملنے والی اطلاعات کے مطابق ترک فوج نے شام میں سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض کو گھیرے میں لے لیا ہے

ترکی کی اناطولو نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک کارروائی میں 228 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اس سے قبل جمعرات کو دن میں ترک صدر نے یہ تعداد 109 بتائی تھی۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے صدر اردوغان کی جانب سے دیے گئے اعدادوشمار کو مبالغہ آرائی قرار دیا ہے تاہم خود کردوں کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

سیریئن آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ کم از کم 29 کرد جنگجو ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ترک حمایت یافتہ فری سیریئن آرمی کے ہلاک شدگان کی تعداد 17 ہے۔

ادارے کے مطابق پیش قدمی کرنے والی افواج نے راس العین اور تل ابیض کے درمیان واقع 10 دیہات پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور یہاں کرد پسپائی کا شکار ہیں۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے ٹوئٹر پر بتایا ہے کہ دریائے جلب کے مشرق میں ترک فوج کا حملہ پسپا کیا گیا ہے جس میں تین فوجی گاڑیاں تباہ اور 22 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

کرد ہلالِ احمر کا کہنا ہے کہ اب تک ان کے پاس 11 افراد کی ہلاکت اور 28 کے شدید زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق راس العین اور سرحدی قصبے قامشلی سے ہے۔

ادھر کردوں کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری سے ترکی کے سرحدی علاقے میں ایک شامی بچے سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

نقشہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp