بریسٹ کینسر قابلِ علاج ہے مگر


یہ کوئی مہینا پہلے کی بات ہے، میں سرجیکل وارڈ ایک کی او پی ڈی میں بیٹھا ہوا تھا، دو عورتیں کمرے میں داخل ہوئیں، ہاتھ میں پرچی اور فائل تھامے ہوئے۔ سرجن صاحب سے کچھ باتیں کرنے کے بعد ایک نے فائل ان کی طرف بڑھائی، انہوں نے رپورٹ پڑھی اور کہا ”رپورٹ نیگیٹو آئی ہے“، یہ سننا تھا کہ دونوں عورتوں کی جان میں جان آئی، جو مریض تھی، اس کی عمر کوئی 35 سال ہو گی، اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، جب کہ ساتھ آئی دوسری، سرجن کو دعائیں دیے جا رہی تھی۔ سر نے ہمیں وہ رپورٹ پڑھنے کو دی، وہ اس کی بریسٹ biopsy report تھی، جس میں تمام فائنڈنگ کے بعد، آخر میں نیگیٹو لکھا ہوا تھا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے، ہر سال اکتوبر کے مہینے کو ”بریسٹ کینسر اویرنیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر سے منسوب کرنے کا مقصد خواتین کے اندر اس بیماری کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہیں۔ پوری دنیا میں خواتین سب سے زیادہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں۔

بریسٹ کینسر کیوں ہوتا ہے، اس کے متعلق واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کینسر کے پیچھے، hereditary، environmental، genetically فیکٹرز ہوتے ہیں۔ ہمارے جسم میں کچھ ایسی جینز ہوتی ہیں، جو کہ کینسر کو روکتی ہیں، ان جینز میں تبدیلی (mutations) کی وجہ سے کینسر ہو سکتا ہے۔ لیکن خاص وجوہ جو کہ چھاتی کے کینسر کا باعث بنتی ہیں، ان کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جن خاندانوں میں بریسٹ کینسر کی ہسٹری ہوتی ہے، اس خاندان کی عورتیں باقیوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

وطن عزیز میں خواتین کے چھاتی کے کینسر میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو رہا ہے (گوگل اور ریسرچ جریدوں کے اعداد و شمار مختلف ہیں)۔ اس اضافے کے پیچھے بنیادی وجہ خواتین کے اندر اس کینسر کی آگاہی نہ ہونا ہے۔ جن کو یہ کینسر ہوتا ہے، وہ شرمندگی کے مارے بتانا گوارا نہیں کرتیں اور جان سے ہاتھ دو بیٹھتی ہیں۔ کچھ بے چاری فیملی سپورٹ کو کھونے کے ڈر کی وجہ سے اس کا ذکر کسی سے نہیں کرتیں تو کوئی اپنے شوہر کے چھوڑ جانے کے خوف سے چپ رہتی ہیں۔

ہمارے ملک کی بیشتر عورتوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ چھاتی کی ہر بیماری ہی کینسر ہوتی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ وہ اپنی اس غلط فہمی کی وجہ سے ڈاکٹر سے لیٹ رجوع کرتی ہیں، جب بیماری خاصی بڑھ چکی ہوتی ہے۔

چھاتی کے کینسر کو ہم آسان لفظوں میں دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک benign اور دوسری malignant۔

اس benign بیماری کو ہم سادہ ایسے کہہ سکتے ہیں جو لوکل جگہ ہی کو متاثر کرے، یعنی چھاتیوں ہی کو متاثر کرے، جب کہ malignant بیماری وہ ہے جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرے، بیماری کا اثر ہر اس جگہ پر ہو جہاں کینسر پھیل سکتا ہے۔ بریسٹ کا کینسر بھی جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرتا ہے اور یہ پیھلنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ یہ کینسر چھوٹی چھوٹی نالیوں lymphatics کے ذریعے پھیلتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لئے مختلف طریقے ہیں۔ اگر تشخیص benign breast cancer کی ہے تو اس کا علاج دوا سے ہو سکتا ہے، لیکن اگر تشخیص malignant بیماری کی ہے، تو اس کا علاج بیماری کی اسٹیج پر منحصر ہوتا ہے، اس کے لئے سرجری، کیموتھراپی، ریڈیو تھراپی استعمال کی جاتی ہے۔

دو سوالات ایسے ہیں جن کا جواب ہر عورت جاننا چاہتی ہے۔ کیا چھاتی کی ہر بیماری (گلٹی) کینسر ہوتی ہے؟ کیا چھاتی کا کینسر قابل علاج ہے؟ ان کے جواب یہ ہیں، ضروری نہیں، ہر گلٹی کینسر ہو، اور دوسرے کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! یہ بیماری قابل علاج ہے۔ بریسٹ کینسر، بلکہ ہر کینسر کے متعلق ایک فقرہ رائج ہے ”جلدی تشخیص اور جلدی علاج“۔

ترقی یافتہ ممالک میں جلدی تشخیص کے لیے screening tests ہوتے ہیں، جس میں ایک خاص عمر کی خواتین کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، خاص طور پر ان خواتین کے جن میں اس کینسر کے ہونے کے چانسز زیادہ ہوں، تا کہ ان کو بہترین طبعی سہولیات فراہم کی جا سکیں، پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے زیادہ ہونے کی وجہ ان screening tests نہ ہونا ہیں۔

ڈاکٹرز بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لئے self assessment پر زور دیتے ہیں۔ self assessment میں خواتین اپنی چھاتیوں کا معائنہ خود کرتی ہے۔ اگر انہیں اپنی دونوں چھاتیوں کے سائز، شکل، میں کوئی فرق محسوس ہو تو انہیں ڈاکٹر سے فوراً رجوع کرنا چاہیے۔ اگر کبھی گلٹی محسوس ہو تو اپنے ڈاکٹر سے جلدی رابطہ کرنا چاہیے۔ اسی self assessment کی وجہ سے کئی خواتین میں یہ کینسر جلدی تشخیص ہو جاتا ہے اور ان کا علاج بھی باقیوں کی نسبت جلدی ہو جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر ایک قابل علاج بیماری ہے۔ لیکن اس کے علاج کے ساتھ ساتھ جس چیز کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہ ہے ”family & social support“ متاثرہ َخواتین کو ان کے گھر والوں اور بالخصوص ان کے شوہروں کی مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ عورتیں اپنے شوہروں کی ناراضی کی وجہ سے اپنی بیماری بیان نہیں کر پاتی، لیکن جب پتا چلتا تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے، خواتین میں جیسے ہی بریسٹ کینسر تشخیص ہوتا، ان کے شوہر ان کا ساتھ چھوڑ جاتے۔ ہمیں اس منفی رحجان کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی، انہیں اس نازک موڑ پر آپ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، سو ان کا ساتھ دیجیے، ان کا حوصلہ بڑھائیے۔

اگر آپ اس موذی بیماری کا شکار ہیں، لیکن کسی وجہ بتانے سے ڈر رہی ہیں، اگر ایسا ہے تو آپ اس بیماری کو بڑھنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔ جلد از جلد اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں تا کہ آپ کا بر وقت علاج ہو سکے۔

آخر میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ خواتین میں بریسٹ کینسر کی آگاہی کے لئے تحصیل اور یونین کونسل لیول پر سیمینار کروائے، ہر اسپتال میں breast clinics ہونے چاہیے، جلدی تشخیص کے لئے screening tests کا باقاعدگی سے انعقاد کرے، اس کام کے لئے پرنٹ اورسوشل میڈیا کی خدمات بھی لینی چاہیے۔ اس بیماری کے لئے حکومت کو تمام وسائل بروئے کار لانے چاہیے۔ سول سوسائٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اس بیماری کے علاج کے لئے حکومت کی کوششوں کا ساتھ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).