بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے نکالی جانے والی طلبہ کی کہانی: ’آپ کو تو وظیفہ ملتا ہے، آپ یہاں نہیں رہ سکتیں‘


ڈاکٹر صبیحہ

ہاؤس جاب کرنے والی ڈاکٹر صبیحہ کے مطابق انھیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ اور ان کی ساتھی ڈاکٹر ہاسٹل میں قیام کر سکتی ہیں

ڈاکٹر صبیحہ یہ سمجھتی تھیں کہ جب وہ میڈیکل یونیورسٹی سے ہاﺅس جاب کر کے فارغ ہوں گی تو انھیں عزت کے ساتھ یونیورسٹی سے الوداع کیا جائے گا۔

لیکن یونیورسٹی کے ہاسٹل سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہیں جس انداز سے نکلنا پڑا وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی خواتین کلاس فیلوز کو پولیس کے ذریعے ہاسٹل سے نہ صرف نکالا گیا بلکہ ان کے سامان کو بھی کمروں سے باہر پھینکا گیا۔

ڈاکٹر صبیحہ ان خواتین میں سے ہیں جنھوں نے اس ہفتے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بےدخل کیے جانے کے بعد کوئٹہ میں گورنر ہاﺅس کے باہر دھرنا دیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ماضی میں ہاﺅس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو ہاسٹل سے نہیں نکالا جاتا تھا لیکن چونکہ بولان میڈیکل کالج اب یونیورسٹی بن چکا ہے اس لیے یہ محکمہ صحت کے ماتحت نہیں رہا بلکہ گورنر بلوچستان کے ماتحت ہوگیا ہے۔‘

ڈاکٹر صبیحہ اور ان کی ساتھیوں کا احتجاج اس وقت وائرل ہوا جب بدھ کو رات گئے گورنر ہاؤس کے باہر بیٹھے احتجاج کرتے ہوئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگیں۔

ڈاکٹر بننے کا سفر

ڈاکٹر صبیحہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ ان کے والد مقامی محکمہ زراعت میں فیلڈ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ایک متوسط طبقے کے خاندان سے تعلق رکھنے والی صبیحہ نے انٹر تک تمام تعلیم خضدار کے سرکاری تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔

2013 میں ایف ایس سی پری میڈیکل کرنے کے بعد انھوں نے بولان میڈیکل یونیورسٹی کا انٹری ٹیسٹ دیا۔ چار سال کی ایم بی بی ایس کی تعلیم کے دوران لاکھوں روپے بھی خرچ ہوئے۔

’اس دوران پیش آنے والی چھوٹی چھوٹی مشکلات کو تو بھلایا جا سکتا ہے لیکن ہاﺅس جاب کے دوران جو تلخ واقعہ پیش آیا اس کی یادیں شاید زندگی بھر نہ بھول پاؤں۔‘

ہاسٹل میں کیا ہوا؟

ڈاکٹر صبیحہ نے بتایا کہ پڑھائی ختم کرنے کے بعد ان کے پاس رہائش کا کوئی انتظام نہیں تھا، جس پر انھوں نے وزیرِ صحت اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے ایم ایس سے رابطہ کیا۔

ان کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ وہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی اپنی رہائش جاری رکھیں اور ہاسٹل کے کمرے خالی نہیں کیے۔ تاہم پیر کی رات پولیس کی بھاری نفری نے آ کر ان کا سامان باہر پھینک دیا۔

اسی کارروائی کے دوران اسسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی اور ہاﺅس جاب کرنے والی ڈاکٹروں کے درمیان تلخ کلامی کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔

اس ریکارڈنگ میں خاتون اہلکار کو ڈاکٹروں پر باہر نکلنے کے لیے چِلاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ

اس موقع پر خواتین ڈاکٹروں میں سے بعض کی رونے کی آوازیں آتی ہیں جبکہ ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو چلنے کے لیے کہہ رہی ہے۔

اس واقعے کے حوالے سے ڈاکٹر صبحیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں کسی نے اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ بد تمیزی نہیں کی تھی۔

ان کے مطابق ان کے کمرے سے سامان نکالنے کے بعد جب انتظامیہ کے اہلکار ہاسٹل کی بالائی منزل پر گئے تو وہاں قیام پذیر ایک خاتون طالبہ نے اسسٹنٹ کمشنر سے درخواست کی کہ ان کو نہ نکالا جائے کیونکہ ان کا ایک مضمون کا ضمنی امتحان باقی ہے۔

اس کے باوجود ڈاکٹر صبیحہ کے مطابق اس لڑکی کا سامان بھی باہر پھینک دیا گیا۔ جب طالبہ نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر کا ہاتھ پکڑ کر منت سماجت کی تو اسسٹنٹ کمشنر نے الالزام لگایا کہ ان کے ساتھ بدتمیزی ہوئی ہے۔

’سامان کو پھینکنے کے علاوہ ہمارے ساتھ ناشائستہ زبان بھی استعمال کی گئی۔ پھر ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا اور ہم نے اپنا احتجاجی دھرنا شروع کر دیا۔‘

ڈاکٹر صبیحہ

’آپ کو تو وظیفہ ملتا ہے‘

ڈاکٹر صبیحہ نے بتایا کہ اسمبلی باہر کے احتجاج کے دوران انھیں یقین دہانی کرائی گئی کہ جب تک ان کے لیے باقاعدہ انتظام نہیں ہوتا ان کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے گا تاہم جب وہ اور ان کی ساتھی ڈاکٹر ہاسٹل گئیں تو انھیں ان کے پرانے کمروں میں جانے نہیں دیا گیا اور سب کو ایک کمرے میں رکھا گیا۔

’ہمیں کہا گیا کہ آپ کو وظیفہ ملتا ہے اس لیے آپ کا ہاسٹل پر کوئی قانونی حق نہیں۔ لیکن جو وظیفہ ہمیں دیا جا رہا ہے وہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور وہ بھی 8 ماہ کے بعد ملتا ہے۔ سندھ میں ہاﺅس آفیسر کو 45 ہزار،پنجاب میں 50ہزار جبکہ خیبر پختونخواہ میں 80 ہزار روپے ملتے ہیں۔‘

خاتون اسسٹنٹ کمشنر کا موقف

اسسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے نزدیک اس تمام صورتحال کی ذمہ دار خواتین ہاؤس آفیسر ہی ہیں۔

ان کے مطابق چونکہ ان ڈاکٹروں کو وظیفہ مل رہا ہے اس لیے انھیں ہاسٹل کے کمرے خالی کر دینے چاہیں، لیکن جب انھوں نے ایسا نہ کیا تو مجسٹریٹ کی حیثیت سے وہ ان سے کمرے خالی کروانے کی مجاز تھیں۔

ندا کاظمی نے بتایا کہ انھوں نے خواتین ڈاکٹر کو چھ سے سات گھنٹے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے کمرے رضاکارانہ طور پر خالی کر دیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے خواتین ڈاکٹروں نے ان کے ساتھ بہت بدتمیزی کی اور دھکے مارنے کے علاوہ ان کی ہاتھ کو مروڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس پر تو ان خواتین کے خلاف مقدمہ بنتا ہے۔‘

یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر شکیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ ہاﺅس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو حکومت وظیفہ دیتی ہے، اس لحاظ سے وہ حکومت کے ملازم بن جاتے ہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ

ان کا کہنا تھا کہ ہاﺅس جاب کرنے والوں کا ہاسٹل پر ایک طرح سے قبضہ تھا جس پر عدالت اور متعلقہ حکام کی جانب سے انھیں یہ کہا گیا کہ ہاسٹل پر غیر قانونی قبضہ ختم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام ہاﺅس جاب کرنے والوں کو اس سال اپریل میں کمرے خالی کرنے کا نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔ ’باقی تمام لوگ چلے گئے تھے اور صرف سات سے آٹھ خواتین ہاؤس آفیسروں نے کمرے خالی نہیں کیے تھے۔

ڈاکٹر شکیل احمد نے بتایا کہ جب ہاسٹل سے نکالی گئی خواتین نے اسمبلی کے باہر احتجاج کیا تو انھیں کہا گیا کہ جب تک اِن ڈاکٹروں کی رہائش کا انتظام نہیں ہوتا، ان کو ہاسٹل میں ہی رہنے دیا جائے۔

لیکن جب تک وہ ہاسٹل واپس آئیں تو ان کے پرانے کمرے دیگر طلبا کو الاٹ ہو چکے تھے۔

خواتین ڈاکٹروں کے احتجاج کے بعد انھیں فی الحال یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں ہی عارضی طور پر رہائش فراہم کی گئی ہے اور بعد میں انھیں ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں شفٹ کیا جائے گا۔

یہ پرائیویٹ ہاسٹل پہلے بھی یونیورسٹی کے استعمال میں تھا، لیکن چند روز پہلے اسے بند کر دیا گیا تھا۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے مطابق اس ہاسٹل کو واپس کرائے پر حاصل کیا گیا ہے جسے رنگ و روغن کے بعد ہاؤس جاب کرنے والی خواتین ڈاکٹروں کو اس میں منتقل کیا جائے گا۔

ڈاکٹر صبیحہ کہتی ہیں کہ جب ان کی یونیورسٹی بولان میڈیکل کالج ہوتی تھی تو ہاﺅس جاب کرنے والے تمام ڈاکٹر کالج کے اپنے ہوسٹلوں یا کرائے پر لی گئی عمارتوں میں قائم ہوسٹلوں میں رہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ پہلے کالج محکمہ صحت کے ماتحت تھا اس لیے ہاﺅس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کا انتظام بھی محکمہ صحت کے حکام کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp