ہمارے نوجوان سی ایس ایس کے امتحان میں ناکام کیوں ہوتے ہیں؟


اور بلا شبہ ملک کی بھاگ دوڑ نوکر شاہی کے ہاتھوں میں ہے۔ گلگت بلتستان تو پوری طرح سے بیوروکریٹس کے نرغے میں ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سی ایس ایس کرتے ہوئے آپ علاقے اور ملک و قوم کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سی ایس ایس کر کیوں نہیں پاتے؟ یہاں ہم پہلے محض تحریری امتحان کے زمرے میں بات کرتے ہیں۔

پہلا نکتہ: انگریزی

یہ تو سب کو معلوم ہے کہ انگریزی سی ایس ایس کی چابی ہے۔ وہی امیدوار اس آزمائش پر پورے اتر سکتے ہیں جن کی انگریزی زبان، گرائمر و قواعد پر گرفت بہت اچھی ہو۔

دوم: نالج/ معلومات

ایک امیدوار 14 یا 16 سالہ ڈگری لینے کے بعد جب سی ایس ایس کی کی ٹھان لیتا ہے تو یقینا کم یا زیادہ اس کے پاس علم کا ایک ذخیرہ تو ہوتا ہی ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آج کل انٹرنیٹ اور کتب تک رسائی ایک کلک کی دوری پر ہے۔ سو بہترین کتابیں، نوٹس اور لیکچرز سمیت متعلق مواد کا حصول سہل ترین کام ہے۔ یعنی نالج بھی ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ مثلا 200 نمبرز کے مضمون پولیٹکل سائنس کی چند ہفتوں میں بیٹھ کر بآسانی تیاری کی جا سکتی ہے۔

تیسرا اور اہم مسئلہ قوت بیان

گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہے ابلاغی مہارت کا نہ ہونا یعنی کمیونیکیشن اسکل کا فقدان۔ اپنی پوری ذہانت، متعلقہ مضمون سے متعلق مناسب معلومات اور اپنے خیالات و نظریات کو بہترین اور جامع پیرایہ اظہار میں دوسروں تک پہنچاتے ہوئے ہی آپ اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں۔ یہ وہ کمزوری ہے جو ہمارے نوجوانوں کو میسر سنہرے مواقع کا قتل عام کرتی ہے۔

مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان کتابی قابلیت ضرور رکھتے ہیں لیکن نصاب سے ہٹ کے ان کا نالج ناقص ہوتا ہے۔ کامن سینس نہایت کمزور، تنقیدی شعور تو بالکل نہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے خطے کے لوگوں کو کسی بھی بات (سوال) کو سمجھنے میں دقت ہوتی ہے اور اس کی صراحت (جواب) تو جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ کسی بھی سوال سے متعلق اپنی معلومات، مطالعہ اور آوٹ پٹ کو خوب صورت تحریری پہناوا پہنا کر پیش کرنا سب سے بڑا فن ہوتا ہے جو ہمارے سی ایس ایس امیدواروں میں ناپید ہے۔ کریٹیویٹی (تخلیق) سے بھی ہمیں کم ہی علاقہ ہے۔

لھذا سی ایس ایس میں کامیابی کے لئے امیدواروں کو چاہیے کہ۔

اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھاریں۔

کامن سینس پہ کام کیجیے۔

قوت بیان کو مزید قوی بنائیں، کمیونیکیشن اسکل بہتر سے بہتر کیجیے۔

اپنے پیرایہ اظہار یعنی رائٹنگ اسکل کو دل کشن بنائیں۔

اپنے اندر کریٹکل تھنکنگ پیدا کیجیے۔ رٹی رٹائی چیزیں لکھنے کی بجائے تنقیدی شعور کی روشنائی استعمال کیجیے۔

اس طرح ممکن ہے آپ اکبر الہ آبادی کے اس شعر کی عملی تمثیل بننے سے بچ جائیں۔

شوقِ لیلائے سول سروس نے مجھ مجنون کو

اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen