استاد کی حالت زار


ٰآج کل جب کہ ہر طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کا ذکر ہو رہا ہے، وہاں کئی دوسرے عالمی رہنماؤں کی تقاریر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ ہم یہاں عمران خان کی تقریر کے مندرجات سے اختلاف نہیں کر رہے بلکہ ہمارے خیال میں انھوں نے کشمیری عوام کا مقدمہ بڑے اچھے انداز سے پیش کیا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے جنرل اسمبلی میں کئی دوسری تقریروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

یوں تو کئی تقریریں اہم تھیں اور ان میں کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ ہمیں سب سے زیادہ متاثر بھوٹان کے وزیر اعظم کے خطاب نے کیا، لیکن ہمارے ہاں کسی نے اس کو توجہ کے قابل نہ سمجھا۔ حالانکہ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز ایک انتہائی اہم اعلان سے کیا جو ہمار ے ملک کے لیے بھی اہم ہے بلکہ میں تو اس حد تک کہوں گا کہ اس مسئلے کی حد تک ہمارا اور بھوٹان کا دکھ سانجھا ہے۔ بھوٹان کے وزیر اعظم نے نا صرف مسئلے کا حل پیش کیا بلکہ انھوں نے اپنے ملک میں اس پہ عمل در آمد بھی شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بھوٹان میں استاد کی تنخواہ تمام ملاز مین کی تنخواہ سے زیادہ مقرر کر دی گئی ہے۔ اگرچہ ہم ان کے نافذ کردہ قانون سے صد فی صد متفق نہیں ہیں تاہم قارئین سچی بات کہوں تو ان کی اس بات کو سن کے علامہ اقبال کا فقرہ ذہن میں آیا جو انھوں نے غازی علم دین کی شھادت کے موقع پہ بولا تھا

’’ہم باتیں ہی کرتے رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا‘‘۔

تو یہاں بھی بھوٹان جیسا رقبے اور آبادی کے حساب سے چھوٹا ملک پاکستان سے اس معاملے میں آگے نکل گیا۔ اس وقت ذہن میں یہ بات آئی کہ کبھی ہمارے ملک میں بھی استاد کو جائز مقام اور احترام ملے گا۔ کبھی اس کی تنخواہ اور دیگر مراعات بھی قابل ذکر ہوں گی۔ یہاں ہم اسکول خاص طور پہ سرکاری اور نجی اسکولوں کے اساتذہ کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرا نا چاہ رہے ہیں۔ کیونکہ ثانوی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی حالت قدرے بہتر ہے لیکن اسکولوں کے اساتذہ کی (سرکاری استاد پہ بے جا پابندیاں اور نجی کی تنحواہ) حالت دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے۔

ہماری اس بات کے جواب میں کئی دوست گھوسٹ اسکولوں کا ذکر کریں گے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے گھر بیٹھے تنخوائیں وصول کرنے کو بھی زیر بحث لایا جائے گا اور اس ضمن میں شہباز شریف صاحب کے وزارعت اعلیٰ کے دور میں کی گئی انتظامی اصلاحات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ یقینا ان تمام باتوں میں کسی حد تک وزن ہے لیکن کیا ان خامیوں کودورکرنے کے لئے کی گئی اصلاحات کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے؟

بحثیت استاد ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بہت سے استاد اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتے اور ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ لیکن استاد کی کارکردگی جانچنے سے پہلے ان عوامل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچے۔ مانا کہ سرکاری اسکولوں کی نتا ئج کے اعتبارسے خراب تھی اور سخت اقدامات کی ضر ورت تھی، لیکن ضرورت سے زیادہ سختی بھی معاملات کو خراب کرتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کو ڈی سی او کے ماتحت کرنا، مہینے میں استا د کو دو سے زیادہ چھٹیاں نہ کرنے کی اجازت نہ ہونا، خواتین کے اسکولوں میں مرد حضرات کا مانیٹرنگ کے نام پہ چھاپے مارنا۔ اس ضمن میں چند مثالیں ہیں، کیونکہ ان اقدامات کے باوجود سرکاری اسکولوں کی حالت زار بہتر نہیں ہوئی۔

دراصل بحثیت قوم ہر مسئلے کے فوری حل کے لیے اس معاملے میں بھی شارٹ کٹ کے قائل ہیں۔ ہم چیزوں کو درست تناظر میں نہیں دیکھتے۔ ہم معاملات کو کلی طور پہ دیکھنے کی بجائے انھیں جزوی طور پہ دیکھتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کی گئی اصلاحات نے سرکاری استاد کی مالی حالت تو بہتر کی ہے لیکن ان اصلاحات کے ساتھ جڑی پابندیوں نے اس کی عزت نفس بھی مجروح کی ہے۔ رہ گئی بات نجی اسکولوں کے استاد کی تو چند ایک اسکولوں کو چھوڑ کے اکثریت کی تنخواہ اور مزدور کی تنخواہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ یہ کہنا تو بڑا آسان ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے لیکن ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہو گا، کہ ہم استاد کو کیا مقام، عزت اور معاوضہ دیتے ہیں؟

اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اس شعبے میں اپنی مرضی سے آتے ہیں؟ اسکول ٹیچنگ کتنے لوگوں کی پہلی ترجیح ہے؟ یہاں تو عام طور پہ جسے کہیں نوکری نہیں ملتی وہ اس شعبے میں آ جاتا ہے دراصل کسی شعبے کی معاشرے میں اہمیت، اس پیشے کا ما حول، تنخواہ اور اس شعبے میں ترقی کے مواقع اس کی مقبولیت کا راز ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہم ان تمام میں پیحچھے ہیں۔ ہم باتیں تو ترقی یافتہ ممالک کی کرتے ہیں، ان کی مثالیں دینے سے تھکتے نہیں لیکن استاد کی بھرتی کا جو طریقہ کار وہاں اپنایا جاتا ہے، وہاں ان سے جو کام لیا جاتا ہے پھر ان کی استعداد کار بڑھانے کا جو نظام وضع کیا جاتا ہے، اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔

رہی سہی کثر اس ضمن میں لوگوں کی بدلتی سوچ نے پوری کر دی۔ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا۔ یقینا والدین کا حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جہاں چاہے پڑھائیں مگر ہمارے خیال میں یہاں بھی سرکاری اسکولوں کے ضمن میں بد سے زیادہ بد نام والی کہاوت سچ ثابت ہو رہی ہے۔

صادق ہوں اپنے قول میں غالب، خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).