پہنو وہی جو جگ بھائے


یہ ڈریس کہاں سے لیا ہے؟ کتنے کا لیا ہے؟ کب لیا تھا؟ عید پر یا پھر کسی شادی پر؟ میرا بھی بالکل تمہارے جیسا ڈریس ہے لیکن اس کا کپڑا زیادہ اچھا ہے۔ ہمیشہ کوشش کی، کہ ایسے سوال کر کے وقت برباد کرنے والے لوگوں سے دور رہا جائے، جن سے نہ کچھ اچھا سیکھنے کو ملتا ہے نہ برا۔ البتہ معمولی سی معمولی بات میں بھی، اپنا بڑاپن کیسے جتایا جاتا ہے، یہ ضرور سیکھا۔ کچھ لوگوں کو اپنے لباس کی قیمت اور ڈیزائن کو سب کے سامنے بڑھا چڑھا کر عادت ہوتی ہے اور دوسروں کے لباس میں کیڑے نکالنے کی۔

جب شارٹ شرٹ کا نیا نیا ٹرینڈ آیا تو اماں نے بہت شوق سے ہمارے کپڑے بنوائے۔ وہ خواتین جو بچپن سے ہمارے فراک کی بیری تھیں، عید یا کسی شادی پر ملتے یہ ضرور یاد دہانی کرواتیں، اب اس کے فراک نہ لیا کرو بڑی ہو گئی ہے۔ بس گھر والوں کو نظر نہیں آتا تھا، ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ جب بہت قریبی عزیز کی جانب سے یہ گلہ کیا گیا تو فراک پر پابندی لگ گئی۔ یونہی شارٹ شرٹ جس نے بھی پہنی ہوتی سب کو اس طرح طرح کی باتیں سننی پڑتیں۔

کالج میں کچھ اساتذہ کی جانب سے کہا جاتا، آپ فیشن شو میں نہیں آئیں مہذب لباس میں کالج آیا کریں۔ تقریبا سارا کالج ہی غیر مہذب لباس میں ہوتا۔ سب ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے۔ یہی بات آس پاس کے لوگوں سے سننا پڑتی، شرٹ کی لمبائی کم ہے اچھی نہیں لگتی۔ ہمارے جیسے کمزور اعصاب کے مالک جلدی سے لمبائی زیادہ کرنے کی ضد کرتے اور اماں کبھی کوئی لیس یا جوڑ لگا کر ٹھیک کر دیتیں۔ شارٹ سے لانگ شرٹ کا ٹرینڈ آیا تو شکر ادا کیا اب لوگ خوش ہوں گے اور کوئی اعتراض کا پہلو نہیں نکلے گا لیکن ہماری بھول تھی۔

گھر میں میلاد تھا سب مہمان آئے تھے۔ ایک دوسرے سے مل کر تعریفیں ہو رہی تھیں کہ ایک آنٹی پاس بلا کر کہنے لگیں۔ ”کپڑا کیا زیادہ آ گیا تھا“؟ اتنی لمبی شرٹ اچھی نہیں لگ رہی اس کی لمبائی کم کروا لو، پھر جچے گی۔ ایک محاورہ بول کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگیں ”کھاؤ من پوندا، پاؤ جگ پوندا“۔

ہم حیرت سے ان کو تکنے لگے۔ تب مجھے یہ بات حقیقی معنوں میں سمجھ آئی، کہ لوگوں کو خوش کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آہستہ آہستہ لوگ اس شارٹ لانگ شرٹ کے عادی ہونے لگے یا پھر ہم نے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ سکون سے گزرا کہ ایک ویب سائٹ پر بلاگ لکھا، ساتھ تصویر بھی لگوائی۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر تھے ان کے میسجز کے جواب دے کر اور یقین دہانی کرواتے کرواتے تھک گئے کہ جی یہ میں ہی ہوں۔ میری ہی تصویر ہے۔

آپ اتنی چھوٹی ہیں، تصویر فیک تو نہیں؟ شاید آپ نے پرانی تصویر لگوائی ہے۔ جو لوگ جانتے تھے وہ بھی پیچھے نہ رہے۔ تصویر بلیک اینڈ وائٹ کیوں لگوائی؟ مسکرا کیوں نہیں رہی؟ یہ کیوں لگوائی دوسری کوئی دیکھتی۔ اس سب کا آسان حل یہی تھا کہ پھر ہر جگہ تصویر لگوانے سے گریز کیا، جہاں ضرورت ہوتی وہاں لگوا لیتے۔ اس طرح کی صورت احوال کا سامنا کچھ دوستوں کو بھی کرنا پڑا اور کرتے رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک دوست نے اپنی تصویر لگائی، سادہ شلوار قمیص کے ساتھ شوز تھے۔

تعریف کرنے والے کم اور نقص نکالنے والے زیادہ تھے۔ آپ نے شلوار قمیص کے ساتھ یہ شوز کیوں لیے؟ پینڈو ٹچ آ رہا ہے۔ اب وہ جوگرز لیتے یا واش روم سلیپر؟ یوں ہی ایک اور دوست شاپنگ پر گئے اور فیس بک پر اپنی تصویر شیئر کر دی۔ اعتراض کرنے والے وہاں بھی دوڑتے دوڑتے آئے۔ یہ اس حلیے میں شاپنگ کرنے گئے؟ اچھا سا ڈریس اپ ہو کر جاتے، جینز اچھی لگنی تھی، بھلا شاپنگ کرنے بھی کوئی شلوار قمیص پہن کر جاتا ہے؟ پینڈو لگ رہے ہو۔ یہ سب اعتراضات اور مین میخ مہذب اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے لباس پر ہوئے۔ اور ہماری ذہنی کوفت کا سبب بنے۔ اب ”پاؤ جگ پوندا“ کی تعریف کیا ہے اور اس سے مراد کیسا لباس ہے ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اگر لوگ یہ بات سمجھ لیں کہ لباس ہر انسان کی ذاتی پسند ناپسند ہے ہم جس لباس میں comfortable محسوس کرتے ہیں یا پھر جہاں تک ہماری جیب اجازت دے، اسی کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ کی منفیت سے بھرپور باتوں سے وقتی طور افسوس ضرور ہوتا ہے، لیکن اگنور لسٹ میں نام درج کر کے ایک اچھے تعلق کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اب لگتا ہے جو لوگ ہمارے باطن سے زیادہ ظاہر پر توجہ دیں وہ خود غیر مہذب اور پینڈو ہوتے ہیں۔

نوٹ: (ہم اپنے ان دوستوں کے جذبات سمجھ سکتے ہیں جو شارٹ ڈریس کی وجہ سے مذہبی لوگوں سے جہنم کی ٹکٹیں لیتے ہیں اور برقع والے بھی ہماری طرف سے تنقید کا سامنا کرتے ہیں) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).