آستانہ بنی گالہ شریف


ہم ایک ماڈرن ملنگ کی قیادت میں ”ماڈل لنگر“ کی طرف بڑھ چکے ہیں، چند دِنوں تک ہم ”ماڈل دھمال پارک“ میں گھنگرو باندھے ناچتے نظر آئیں گے، اس تبدیلی کے لئے ہم نے بہت ”پاپڑ بیلے“ ہیں، بہت چلہ کشی کی ہے، بہت سے وظائف پڑھے ہیں، بہت سے تعویزات گھول گھول کے پئے ہیں، بہت سے درباروں پر جھاڑو پھیری ہے، پھر کہیں جا کے فیوض و برکات سمیٹنے کے قابل ہوئے ہیں اور اب الحمد اللہ اس قابل ہوئے ہیں کہ لنگر خانہ کھول سکیں۔

ترقی کے بہت سے مزید نمونے ابھی سامنے آنے ہیں، چند دِنوں تک آستانہ بنی گالہ سے تعویزات عمرانیہ بھی جگہ جگہ ملتے نظر آئیں گے، ہم دیکھیں گے کہ ہر وزیر سرکاری سطح پر مختلف تعویزات اس تمہید کے ساتھ بانٹتے نظر آئیں گے کہ یہ تعویز گلے میں باندھنا ہے اور کچھ دن صبر کی تلقین کے ساتھ ”اللہ کریسی چنگیاں“ کی دُعا بھی دیتے نظر آئیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ چند دِنوں تک عطاء اللہ عیسیٰ خیلو ی ایک قوالی

”دلدار نئی مندا میرا، پیر کوئی تعویز لکھ دے“

سناتے نظر آئیں گے، کیونکہ ان کے گائے ہوئے گیت ”جب آئے گا عمران“ کے مقابلے میں اب لوگ ”کب جائے گا عمران“ گانے لگے ہیں اور پورے زور سے گانے لگے ہیں۔ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والی حکومت اب اپنے اس عمل کے ذریعے عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے تیاری پکڑ رہی ہے، یعنی مختلف مزارات سے وابستہ سجادگان اور متولی حضرات کے اب برے دن آنے والے ہیں وہ لوگ جو صدیوں سے مختلف مزارات کی کمائی کھانے اور دھمالیں ڈلوانے میں مست تھے، اب آستانہ بنی گالہ ان کے راستے کی رکاوٹ بن کے سامنے آنے والا ہے، اس نئے سلسلے کے پیرو کار اپنے جدگانہ انداز فکر اور ظاہری حلیے سے بہت جلد اپنا مقام بناتے نظر آئیں گے۔ ذرا تصور کیجئے، نیلی شلوار قمیض، پشاوری چپل، لنڈے کی عینک، کلین شیو پیر مرید جب سڑکوں پر نکلیں گے تو کیا کیا نہ گُل کھلائیں گے۔

”فرقہ عمرانیہ“ کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ مولانا فضل الرحمن سے ہے، جو انگلیوں پرگنے چند دِنوں تک اسلام آباد پہنچنے والے ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لئے سلسلہ عمرانیہ کے لوگ بھی تیاریاں پکڑ رہے ہیں۔ کیلوں لگے ڈنڈے اور مارکٹائی کے دیگر لوازمات فیس بُک پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں نیلے سوٹ اور پگڑیاں باندھے نوجوانوں کے درمیان جو ”مناظرہ“ سنائی اور دکھائی دینے والا ہے، اس کے لئے تمام نیوز چینل پوری تیاریاں کر کے بیٹھے ہیں۔

بعض کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے نکلے ہیں، جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں، وہ وہی سمجھتے ہیں، جو انہیں ”سمجھانے“ والے سمجھاتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا ہوں یا عمران خان دونوں اسلام کے نام پرآگے بڑھ رہے ہیں، دونوں ہی اسلام کے نام پر اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب عمران خان ”ریاست ِ مدینہ“ کے قیام کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے وہ اسلام کی بات ہی کرتے ہیں اگر مولانا اسلام کا نام لیں تو اس میں کیا خرابی ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو مولانا اور عمران میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں اندر سے ایک ہیں، اور دونوں میں مقابلہ ”اسلام“ کے نام کو ہتھیانے پر ہے، یعنی عمران خان نہیں چاہتے کہ اسلام کا پرچم مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہو۔ اور نہ مولانا چاہتے ہیں کہ یہ پرچم عمران خان بلند کرے، مگر عمران خان کو مولانا کے دھرنے پر اعتراض ہے اور شاید ان کی گفتگو پر بھی اعتراض ہے، تو پھر چاہیے تو یہ کہ مولانا فضل الرحمن کوئی نیا مطالبہ نہ کریں اور کوشش کریں کہ عمران خان نے طویل دھرنے کے دوران جو جو کہا تھا اُسے دہرائیں۔

مثال کے طور پر وہ عمران خان کی سب تقریریں ایک آڈیو ویڈیو کی شکل میں تیار کریں۔ ”دھرنا گاہ“ میں ایک بہت بڑی سکرین لگوائیں اور اس میں عمران خان کی تقریریں نمایاں انداز میں چلائیں۔ عمران خان کے وہ سب مطالبے اپنے جلسے میں پیش کریں اور یہ سب کچھ سنانے اور دکھانے کے بعد لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ یہ وہ مطالبے ہیں، جو خود عمران خان کرتے رہے ہیں، میں انہی مطالبات کو عمران خان کے سامنے رکھتے ہوئے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ میرے مطالبات پورے کریں، مولانا اگر چاہیں تو وہ ان ویڈیوز اور آڈیوز میں مولانا طاہر القادری کے کچھ کلپ سنوائیں، جس میں وہ اُس وقت کے حکمرانوں کے لئے سنہرے سنہرے الفاظ بولا کرتے تھے۔ طاہر القادری کے پہ چھوٹے چھوٹے کلپ جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کے لئے ایک اضافی چیز ہوں گے۔

بہرحال یہ تو اب مولانا پر ہے کہ وہ دھرنے اور جلسے میں موجود حکومت کے لئے کس انداز کا خطاب سوچ رہے ہیں، کس طرح کے الزامات لگائیں گے کیا وہ اپنی تقریروں میں ”شلواریں گیلی“ کرنے جیسے ادبی الفاظ استعمال کریں گے یا بذریعہ ”ہنڈی“ باہر سے پیسے بھجوانے یا پھر بجلی کے بل جلانے، جیسے قانونی مشورے دیں گے، مگر مجھے، یعنی افضل عاجز کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اب مزید وزارتِ عظمیٰ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور نہ اٹھانے والے ان کا ”بوجھ“ مزید برداشت کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں وزیراعظم ہر معاملے میں ایک ”بندھے“ اور مجبور وزیراعظم نظر آئے ہیں۔ وہ اس قدر دبے ہوئے اور کمزور ثابت ہوئے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کسی یونین کونسل کا چیئرمین بھی زیادہ باوقار اور با اختیار نظر آتا ہے، ابھی چین کے دورے کے دوران انہوں نے ایک تو وہاں کے سرمایہ داروں کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ پاکستان میں آپ لوگ سرمایہ کاری ضرور کریں مگر، وہاں کرپشن بہت ہے۔ میرا ملک ایک کرپٹ ملک ہے۔ پورے ملک میں سب سے نمایاں کرپشن ہے، ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، سو ان حالات میں اگر آپ لوگ وہاں کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں، بعد میں مَیں جوابدہ نہیں ہوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں ڈالنا چاہتے ہیں، مگر قانون ان کی مدد نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اس بیان کے بعد چینی یقینا سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسا وزیراعظم ہے جس کی اپنے ملک میں کوئی نہیں سنتا تو ہماری کیوں سنے گا۔

ان لوگوں سے خطاب کے دوران عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ چین کی طرح اپنے ملک کے پانچ چھ سو لوگوں کو بھی جیل میں قید یا گولی سے اڑا دینا چاہتے ہیں، مگر ایسا نہیں کر سکتے۔ مجھے نہیں معلوم وزیراعظم کو ایسی گفتگو کون سکھاتا ہے، جو بھی سکھاتا ہے، اللہ اس کا بھلا کرے۔ وہ وزیراعظم کو یہ کیوں نہیں سمجھاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پاکستان میں اگر پانچ سو کے قریب کرپٹ ہیں تو ان میں سے ڈھائی سو کے قریب تو خود عمران خان کی بغل میں کھڑے نظر آتے ہیں، اور ان میں سے بعض وہ ہیں، جنہیں عدالت نے باقاعدہ کرپٹ قرار دے رکھا ہے اور بعض وہ ہیں جو عدالت سے سرخروئی کے بعد حکومت کے ماتھے پر داغ کی طرح چمک رہے ہیں۔

عمران خان اگر واقعی کرپٹ لوگوں کو جیل یا گولی کا اراستہ دکھانے کے خواہش مند ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنی ”بغل“ میں کھڑے کرپٹوں پر ہاتھ ڈالیں۔ وہ جتنی جلدی ہو سکے بنی گالہ میں ایک اجلاس طلب کریں اور ساتھ ہی اسلام آباد پولیس کے آئی جی کو طلب کرتے ہوئے ان سب کو گرفتار کرا دیں جو زیادہ چوں چاں کرے اُسے گولی کا راستہ دکھا دیں۔ ان کے اس عمل سے جہاں ڈھائی سو کے قریب کرپٹ لوگ ایک جھٹکے میں فارغ ہو جائیں گے وہاں ملک میں موجود باقی ڈھائی سو کے قریب مارے خوف کے اپنے گلے از خود پھانسی چڑھا دیں گے، مگر مجھے معلوم ہے کہ جو شخص خوداری کے درس دیتے ہوئے لوگوں کو لنگر کی دال کھلانے کا راستہ دکھا رہا ہو وہ اس طرح کا ”صاحب ِ کردار“ کبھی نہیں ہو سکتا، سو ہم لوگوں کو چاہیے کہ ہم ملک بھر میں مزید ”لنگر خانے“ اور تعویذات کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے موجود قیادت سے ہی رابطے میں رہیں تو یہی اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).