شام میں ترکی کی فوجی کارروائی: ’دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی ابھی ترجیح نہیں‘


شام

اقوامِ متحدہ کے مطابق کردوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں

شمالی شام میں ترکی کے حملوں کا سامنا کرنے والے کردوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے خلاف حملے جاری رہے تو وہ دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی کو ترجیح نہیں دیں گے۔

شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس وقت کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیمو کریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے قبضے میں ہیں۔

بدھ کے روز حملے شروع کیے جانے کے بعد سے شمال مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے زیرِ اثر علاقوں میں انھیں ترکی کی جانب سے شدید زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سرحد کے دونوں اطراف کم از کم 50 عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے اور ان کے مطابق اس حملے کا مقصد کردوں کو ’محفوظ زون‘ سے 30 کلومیٹر دور بھگانا ہے۔ جس کا مطلب شام میں 30 کلومیٹر تک کارروائیاں کرنا ہے۔

ترکی، 30 لاکھ شامی مہاجرین کو اس محفوظ زون میں بسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فی الحال یہ مہاجرین ترکی میں قیام پذیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’کردوں کا پہاڑوں کے سوا کوئی دوست نہیں‘

’ہماری مدد کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے‘

شام میں ترکی کی اتحادی ’نیشنل آرمی‘ کون ہے؟

سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مانیٹرنگ گروپ کے مطابق سنیچر کے روز شمالی شام میں ایک سڑک پر کیے گئے ایک حملے میں نو شہری ہلاک ہو گئے جن میں ایک خاتون کرد سیاستدان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن بھی شامل ہیں۔

فیوچر سیریا پارٹی کے مطابق ان کی جنرل سکیرٹری، ہروین خلف کو اس وقت گولیوں سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا جب وہ اپنے ڈرائیور اور ایک معاون کے ساتھ ہاساکا میں ہونے والے ایک اجلاس سے واپس جا رہی تھیں۔

https://twitter.com/HassounMazen/status/1183074609677119488?s=20

ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے خلف کو ان کی کار سے نکال کر گولیاں ماریں۔ سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کہ مطابق ان نو افراد کو سڑک کے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں ہلاک کیا گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ باغی گروپ شامی نیشنل آرمی کے ترجمان نے ان ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اب تک شام میں اتنا آگے تک پیش قدمی نہیں کی۔

شام

اقوامِ متحدہ کے مطابق کردوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ شمال مشرقی شام میں کرد انتظامیہ اس تعداد کو کئی گنا زیادہ بتاتی ہے۔

کرد انتظامیہ کے مطابق بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 191000 سے بھی زیادہ ہے۔

خیال رہے کہ ترکی کی شام میں کردوں کے خلاف عسکری کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے شمال مشرقی شام سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے نے ترکی کو سرحد پار سے حملہ کرنے کی موثر طور پر گرین لائٹ دی تھی۔

کردوں کی زیرقیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اس خطے میں امریکہ کی اہم اتحادی ہیں۔

کرد کیا کہتے ہیں؟

سنیچر کے روز ایک ٹیلی وژن بیان میں سینئیر عہدیدار ریدور جلیل کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ شام کی سرحد پر لڑائی کے باعث ایس ڈی ایف اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے حراستی مراکز کی نگرانی نہیں کر سکتی۔

’شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی کرنا اب ہماری ترجیح نہیں ہے۔ جو بھی ان قیدیوں کی حراست کی پرواہ کرتا ہے وہ آکر حل نکالیں، ہم انھیں خوش آمدید کہیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے بجائے ایس ڈی ایف کی افواج ’ہمارے شہروں اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے پیش قدمی کریں گی۔‘

انھوں نے متنبہ کیا کہ ترک آپریشن دولتِ اسلامیہ کے دوبارہ منظم ہونے کے لیے راہیں کھول رہا ہے۔.

ان کا کہنا تھا وہ پھر سے سر اٹھا رہے ہیں اور کمیشلی اور حساکا میں اپنے سیلز کو فعال بنا رہے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ شام میں کیا کر رہی ہے؟

ریدور جلیل کا یہ تبصرہ ایک روز پہلے ان دونوں شہروں میں ہونے والے کار بم دھماکوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ایس ڈی ایف کے مطابق جمعے کے روز ترکی کی گولہ باری کے دوران دولتِ اسلامیہ کے پانچ اراکین قمیشلی کی ایک جیل سے فرار ہوگئے۔

شام

دولتِ اسلامیہ نے کرد اکثریتی شہر قمیشلی میں ایک کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے

سنیچر کے روز دولتِ اسلامیہ نے شام میں ایک نئی مہم کا اعلان کیا ، جس کا مقصد کردوں کی زیر انتظام جیلوں میں اپنے ممبران کی حراست کا بدلہ لینا ہے۔

ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی سات جیلوں میں دولتِ اسلامیہ کے 12000 سے زیادہ ممبران قید ہیں، جن میں کم از کم 4000 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔

یہ قیدی جن مقامات پر قید ہیں اگرچہ ان کا انکشاف نہیں کیا گیا لیکن اطلاعات کے مطابق ان میں سے چند ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔

روج اور عین ایسیہ کے کیمپ جن میں دولتِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ ارکین کے خاندان قید ہیں، یہ دونوں ’محفوظ زون‘ کے اندر واقع ہیں۔

جمعے کے روز کردوں کی زیرقیادت حکام کا کہنا تھا کہ عین عیسیٰ کیمپ کو منتقل کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کیمپ کو گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ترکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کارروائی کے دوران ملنے والے دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی ذمہ داری قبول کرے گا۔

ترکی کی عسکری کارروائیوں کی تازہ صورتِ حال کیا ہے؟

سنیچر کے روز راس الاعین کے آس پاس ہونی والی جھڑپوں میں شدت پیدا ہوگئی۔ دونوں فریقین کی جانب سے سب سے اہم سرحدی شہر پر قبضے کے متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔

فوجی ٹینک

ترکی کا کہنا ہے کہ وہ راس العین پر قبضہ کر چکا ہے لیکن ایس ڈی ایف نے اس کی تردید کی ہے۔

راس العین اور قصبہ طل آبادی ترکی کہ دو اہم اہداف میں شامل ہیں۔

دوسری جانب ترکی کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے سرحد سے 30 کلومیٹر دور اسٹریٹجک لحاظ سے اہم سڑکوں اور درجن سے زیادہ دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

شام

ایس ڈی ایف کو ترکی اور شام کی سرحد کے قریب 75 میل (120 کلو میٹر) لمبی سرحد پر ترکی کے زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا ہے۔

سنیچر کے روز ایک بیان میں ایس ڈی ایف کے عہدیدار ریدور جلیل نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ترک طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کرکے کرد جنگجوؤں کی حفاظت یقینی بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری مدد کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد کیا ہے؟

سرحد کی دونوں جانب عام شہریوں کی ہلاکت کی تعداد بڑھ رہی ہے:

  • برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق کم از کم 38 شہری اور 80 سے زیادہ کرد جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔
  • ترکی کے مطابق، جنوبی ترکی میں سترہ شہری ہلاک ہو گئے ہیں جن میں ایک شامی بچہ بھی شامل ہے۔
  • ایک ترک فوجی کے علاوہ ترکی کے اتحادی باغیوں کے ساتھ لڑنے والے 50 ترک جنگجو جنھیں شامی قومی فوج کے نام سے جانا جاتا ہے، کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

ترک کارروائی پر کیسا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے؟

ترکی پر عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ حملے جاری رہیں گے۔

سنیچر کے روز فرانس کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ترکی کو ہتھیاروں کی تمام برآمدات معطل کردے گا۔

اس سے قبل جرمنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ نیٹو اتحادی کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لا رہے ہیں۔

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے بھی صدر اردغان کو ٹیلیفون پر متنبہ کیا تھا کہ ان کا آپریشن شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف ہونے والی پیشرفت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

کردوں نے صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے انخلا کو وہ اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہت ترکی اور کردوں کے دومیان ثالثی کی خواہش رکھتا ہے۔

برلن

برلن میں بھی سنیچر کے روز ترکی کے آپریشن کے خلاف مظاہرے دیکھے گئے

صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو ترکی کے خلاف پابندیوں کا استعمال کرنے کے لیے بھی تیار ہوں گے۔

دوسری جانب پیرس، برلن سمیت متعدد یورپی شہروں میں ہزاروں افراد نے ترک حملہ کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp