برطانوی شاہی خاندان کا دورہ پاکستان: جب فیشن آئیکون شہزادی ڈیانا نے ایک ’معمولی‘ سے پاکستانی ڈیزائنر کا لباس پہنا


ڈیانا

برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ ڈچز آف کیمبرج کیٹ مڈلٹن برطانوی شاہی خاندان کے پہلے افراد نہیں جو پاکستان آ رہے ہیں۔ ملکہ برطانیہ خود دو مرتبہ پاکستان آ چکی ہیں۔

مگر اس دورے کے پسِ منظر میں پاکستان کے لوگ جس طرح ویلز کی سابق شہزادی اور شہزادہ ولیمز کی والدہ لیڈی ڈیانا کے سنہ 1996 کے دورے کو یاد کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا اس مقام کو چھو پائے۔

برطانوی شاہی جوڑے کے حالیہ دورے سے قبل بھی بازگشت ڈیانا کے نام ہی کی ہے کیونکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ‘لیڈی ڈیانا کا بیٹا اپنی اہلیہ کے ساتھ آ رہا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

برطانوی شاہی خاندان کے پاکستانی دورے

’دنیا کی سب سے شرارتی ماؤں میں سے ایک‘

برطانوی شاہی خاندان کے افراد کب کب پاکستان آئے؟

اپنی خوبصورتی اور متاثر کن شخصیت کی بدولت ڈیانا اپنے عہد کی مقبول ترین شخصیات میں شمار ہوتی تھیں۔

وہ دنیا کے جس کونے میں بھی جاتیں وہ جگہ دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لیتی۔ پاکستان میں جن لوگوں کو بھی لیڈی ڈیانا سے ملنے کا اتفاق ہوا وہ ان کی ‘منفرد شخصیت’ کے معترف بنے۔

معروف پاکستانی فیشن ڈیزائنر رضوان بیگ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔

انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے لیڈی ڈیانا کے لیے لباس بھی ڈیزائن کیا۔

بی بی سی سے ایک حالیہ گفتگو میں رضوان بیگ نے بتایا کہ ‘یہ وہی لباس ہے جو ڈیانا نے اس روز بھی پہن رکھا تھا جس دن انھوں نے اپنی طلاق کے کاغذات پر دستخط کیے تھے۔’

ڈیانا

چار جولائی سنہ 1996۔ لیڈی ڈیانا نے برطانیہ میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں شرکت کے لیے لندن کے ایک مقامی ہوٹل میں آمد کے موقع پر رضوان بیگ کا ڈیزائن کردہ لباس زیب تن کیا ہوا ہے

ان دنوں وزیرِ اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ اور ڈیانا کی دوست جمائما گولڈ سمتھ نے رضوان سے رابطہ کیا۔ وہ لیڈی ڈیانا کو روایتی پاکستانی لباس کا تحفہ دینا چاہتی تھیں۔

‘لباس مکمل پاکستانی ہو۔۔۔جسے ڈیانا پہنیں بھی’

جمائما نے رضوان بیگ کو صرف یہ بتایا کہ وہ ایک دوست کے لیے لباس بنوانا چاہتی ہیں۔ ‘مگر جوں ہی انھوں نے بولنا شروع کیا، میں جان گیا وہ لیڈی ڈیانا ہی تھیں۔’

رضوان نے ڈیانا کی فیشن کی سمجھ بوجھ، پسندیدہ سٹائل اور شخصیت سے متعلق تحقیق شروع کی۔ انھیں معلوم ہوا کہ ڈیانا لباس کے چناؤ میں نئے سٹائل آزمانے سے نہیں گبھراتی تھیں۔

وہ بین الاقوامی ڈیزائنرز کی تیارکردہ ملبوسات بھی پہنتی تھیں اور جس ملک میں جاتی تھیں ان کے لباس کا چناؤ بھی مقامی تہذیب کے مطابق ہوتا تھا۔ ان کا جھکاؤ آئیوری اور موتیوں کی طرف بھی تھا۔

رضوان بیگ نے بتایا کہ ‘میں نے فیصلہ کیا کہ کیونکہ وہ پاکستان آ رہی تھیں تو یہ لباس پوری طرح پاکستانی ہونا چاہیے۔ مگر ایسا بھی ہو کہ وہ پہنیں بھی سہی۔ جمائما نے صرف انھیں پیش کرنا تھا، ضروری نہیں تھا کہ وہ پہنتیں بھی۔ انھیں پسند آتا نہ آتا۔‘

رضوان بیگ کے مطابق انھوں نے اپنے تئیں بہترین کوشش کی۔

انھوں نے جو لباس ڈیزائن کیا اس کا آئیوری رنگ تھا اور اس میں موتی بھی تھے۔ وہ پاکستان میں پہنے جانے والے لباس اچکن کی طرح کا انتہائی نرم و گداز نسوانی پہناوا تھا۔ وہ ایک لمبی شیروانی نما چیز تھی اور اس کے ساتھ ماڈرن شلوار تھی۔

‘فیشن آئیکون ایک معمولی سے پاکستانی ڈیزائنر کا لباس پہنیں گی؟’

رضوان بیگ کا خیال تھا کہ انھیں صرف لباس تیار کر کے بھجوا دینا ہو گا۔ انھیں اس وقت کام شروع کیے محض دو برس ہوئے تھے اور ڈیانا ڈیئور، شینیل اور ارمانی جیسے بڑے بڑے ڈیزائنز کے ملبوسات پہننے والی خاتون تھیں۔

لیڈی ڈیانا

سنہ 1991 میں دورہ پاکستان کے موقع پر شہزادی ڈیانا اسلام آباد میں دامنِ کوہ پر موجود ہیں

تاہم انھیں اس وقت حیرت ہوئی جب جمائما نے کہا کہ ‘آپ کیوں نہ آ جائیں، ڈیانا سے مل بھی لیجیے گا۔’

‘میرے لیے یہ ناقابلِ یقین تھا۔ کیا ان جیسی ایک فیشن آئیکون ایک بے نام سے پاکستانی ڈیزائنر کا لباس پہنیں گیں۔’

وہ لباس لے کر لاہور میں جمائما کے گھر پہنچے۔

ڈیانا اسی روز ایک نجی طیارے سے ایک لمبی پرواز کے بعد پاکستان پہنچی تھیں۔ رضوان کو لاؤنج میں نشست ملی۔ پہلے جمائما اور ان کے خاندان کے لوگ داخل ہوئے۔ پھر کچھ دیر میں لیڈی ڈیانا داخل ہوئیں۔

‘اور میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ان کا قد پانچ فٹ گیارہ انچ سے کچھ نکلتا ہوا تھا اور شخصیت بہت ہی کمال تھی۔’

اس سے قبل وہ ڈیانا کے بڑے مداحوں میں سے نہیں تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ بس وہ ایک خوبصورت خاتون ہیں۔

رضوان کے مطابق ‘اور پھر وہ آ کر بیٹھیں۔ اور میں مکمل طور پر مسحور ہو گیا۔ ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ جس طرح وہ نظریں ہلکی سی نیچے جھکا کر اور انتہائی دھیمے لہجے میں بات کرتی تھیں، میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ انتہائی نازک مزاج خاتون تھیں۔’

تعارف کے بعد رضوان نے لباس ڈیانا کو پیش کیا۔ انھوں نے اسے کافی سراہا۔

‘ڈیانا نے کہا تم کیمرہ بھول آئے ہو نا’

رضوان بیگ نے ڈیانا سے درخواست کی کہ اگر وہ لباس پہن کر دیکھ لیں کہ اس میں کسی رد و بدل کی ضرورت تو نہیں۔ ڈیانا نے معذرت کی کہ وہ تھکی ہوئی ہیں اور سونا چاہتی ہیں۔ رضوان بیگ جانے کی لیے اٹھ کھڑے ہوئے مگر ساتھ ہی ایک درخواست اور بھی کی۔

ڈیانا

‘میں نے کہا میں اگر ایک دفعہ یہاں سے چلا گیا تو کون یقین کرے گا کہ میں آپ سے ملا تھا، مجھے خود یقین نہیں آئے گا۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کے ساتھ ایک تصویر بنوا سکتا ہوں۔’

ڈیانا نے کہا جلدی سے کیمرہ لے آؤ کیونکہ پھر انھوں نے سونے جانا تھا۔ لیکن رضوان بیگ جوش میں اپنا کیمرہ بھول آئے تھے۔

‘تو جیسے ہی میں واپس کمرے داخل ہوا انھوں نے میری شکل دیکھی، ہلکا سا ہنسیں اور بولیں کہ ‘تم کیمرہ بھول آئے ہو نا۔’ رضوان بیگ کہتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ان سے ملاقات کے جوش میں کیمرہ ناشتے کی میز پر ہی رہ گیا تھا۔

ڈیانا نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ زیادہ دور رہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ نہیں انھیں لگ بھگ 25 منٹ لگیں گے۔

‘ڈیانا نے کہا چلو پھر جلدی سے جاؤ اور لے آؤ۔ اب میں مکمل طور پر متاثر ہو چکا تھا۔’

وہ دوڑے دوڑے گئے اور جب واپس لوٹے تو دیکھا کہ ڈیانا نے نہا کر ان کا ڈیزائن کردہ لباس بھی پہن رکھا تھا۔

‘وہ بولیں یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ تصویر میں میرے برابر کھڑے ہوں اور میں نے آپ کا ڈیزائن کردہ لباس نہ پہنا ہو۔’

رضوان بیگ کے مطابق ‘وہ سمجھتی تھیں کہ یہ میرے جیسے ترقی پذیر دنیا کے ایک چھوٹے سے ڈیزائنر کے لیے کس قدر اہم تھا۔’

‘ڈیانا نے وہ لباس تین ماہ بعد پھر پہننا’

ایک روز بعد شوکت خانم ہسپتال لاہور کے دورے پر وہ اسی لباس میں نظر آئیں۔ ‘لوگ سمجھے کے کیتھرین واکر نے یہ لباس ڈیزائن کیا تھا۔’

کیتھرین واکر وہ ڈیزائنر ہیں جنھوں نے ڈیانا کے لیے ایک ہزار کے قریب لباس بنائے۔ ان میں کالے رنگ کا وہ لباس بھی شامل ہے جس میں ڈیانا کو دفن کیا گیا تھا۔

‘اس پر ڈیانا نے جمائما کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ رضوان بیگ سے کہو کہ وہ اس کا سہرا ضرور حاصل کرے۔’ رضوان نے اس کے بعد اپنے چند صحافی دوستوں سے رابطے کیے اور یوں بات باہر نکلی۔

شہزادی ڈیانا

رضوان بیگ کے مطابق لیڈی ڈیانا نے تین ماہ کے بعد ایک مرتبہ پھر وہی لباس لندن میں اس دن پہنا جس روز انھوں نے شہزادہ چارلس سے طلاق کے کاغذات پر دستخط کیے۔

‘اس وقت وہ لباس مکمل وائرل ہوا۔ ہر مشہور بین الاقوامی جریدے کے سرورق پر ان کی اس لباس میں ملبوس تصویریں تھیں۔’

‘وہ خوابوں کی کسی شہزادی کی طرح تھیں’

لیڈی ڈیانا اس سے قبل سنہ 1991 میں پاکستان کے دورے پر آئیں تھیں۔ وہ لاہور کے علاوہ اسلام آباد اور شمالی علاقہ جات اور چترال بھی گئیں۔

سابق وفاقی وزیر اور سیاستدان سیدہ عابدہ حسین کو ان کی مہمانداری کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ وہ پاکستان کی سیر پر لیڈی ڈیانا کے ہمراہ رہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ لیڈی ڈیانا کا پاکستان میں انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا۔ لوگوں کے ہجوم سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہوتے تھے۔

‘لوگ انھیں دیکھنے کے لیے آئے تھے کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھیں۔ وہ خوابوں کی کسی شہزادی کی طرح تھیں اور لاہور میں خواتین خاص طور پر اس شہزادی کو دیکھنے کی لیے آئیں تھیں۔’

سیدہ عابدہ حسین کو یاد ہے کہ جب ڈیانا چترال گئیں تو وہاں ان کی ملاقات برطانوی سکول ٹیچر سر جیفری لینگلینڈز سے ہوئی۔ انھیں ڈیانا کے برابر والی نشست دی گئی۔

وہ کہتی ہیں ڈیانا سے گفتگو کے بعد لینگلینڈز نے کہا کہ ‘اب مجھے موت بھی آ جائے تو میں تیار ہوں۔’

سیدہ عابدہ حسین کہتی ہیں انھوں نے ڈیانا کو انتہائی شفیق اور نرم مزاج خاتون پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیانا نے انھیں بتایا تھا کہ ‘ان کا سسرال بہت مشکل ہے اور یہ کہ شہزادہ چارلس ان سے محبت نہیں کرتے تھے مگر وہ اپنے دونوں بیٹوں سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ولیم اپنے باپ پر گیا ہے اور ہیری میری طرح ہے۔’

‘ڈیانا سے کہیں اپنی ساس کو ہمارے پاس بھیج دیں’

عابدہ حسین سمجھتی ہیں کہ برطانوی شاہی خاندان کے افراد کے پاکستان کے دورے سے مقامی لوگوں میں برطانوی راج کے دور کی تلخ یادیں تازہ نہیں ہوتیں جبکہ پاکستانی عوام برطانوی شاہی خاندان کے افراد کو پسند کرتے ہیں۔

اس کی حمایت میں ڈیانا ہی کے دورے کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ سناتی ہیں۔

عابدہ حسین کے مطابق چترال کی سیر کی دوران ان کی گاڑی کے شیشے پر پگڑی پہنے ایک پشتون بزرگ نے دستک دی۔ ڈیانا نے ان سے کہا کہ ان سے پوچھیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

‘اس بزرگ نے کہا ڈیانا سے کہیں کہ ہم نے سنا ہے وہ آج کل اپنی ساس کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ انھیں کہیں کہ میں ان کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں، میرے گھر میں بھی ایک بہو ہے اور اس کی میری بیوی سے نہیں بنتی۔’

اس کے آگے ان صاحب نے مشورہ دیا کہ ‘ڈیانا سے کہیں اپنی ساس کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر ہماری ملکہ بن جائے۔ ہمیں خوشی ہو گی اور ڈیانا کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp