خفیہ اداروں کی مداخلت: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنانا شروع کر دیا


اسلام آباد

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ان کے وکیل منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا مقصد اعلیٰ عدلیہ کو دباؤ میں لانا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مستقبل میں پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر عدلیہ اس معاملے پر ’کمپرومائز‘ ہو گئی تو عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔

پیر کی دوپہر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی جن میں اس ریفرنس کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مخالف قرارداد مسترد

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون اور ان کے فیصلوں پر تنازعے کیا؟

’فوج حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے‘

ابھی سماعت کو شروع ہوئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ لاہور سے آئے ہوئے ایک وکیل اکمل محمود روسٹرم پر آئے اور بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کو اونچی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے بولے اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا تھا لہذا جب تک اس ریفرنس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ اس لارجر بینچ کی سربراہی نہیں کرسکتے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بینچ کے سربراہ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو طلب کیا۔

بعد ازاں کچھ دیر کے بعد متعقلہ برانچ سے اس ریفرنس کے بارے میں ریکارڈ طلب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس2017 میں ختم ہوچکا ہے۔

لاہور سے آئے وکیل نے عدالت کے باہر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے ساتھ میڈیا سے بات بھی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طرف سے جسٹس عمر عطا بندیل اور جسٹس اعجازالحسن کے خلاف دائر ریفرنس پر پیش رفت سے متعلق انھیں کچھ نہیں بتایا گیا۔

دوران سماعت بینچ کے دیگر ارکان اس وکیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنا چاہتے تھے تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے ایسا نہیں کیا۔ بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ روسٹرم کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے فیض آباد دھرنے سے متعلق جو فیصلہ دیا تو اس میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نہ تو سیاسی معاملات میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرسکتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اس فیصلے کی روشنی میں آئی ایس آئی کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جانا چاہیے تھے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا جبکہ نظرثانی کی درخواست میں صرف ان کے موکل یعنی جسٹس قاضی فائز عسیی کو نشانہ بنایا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس دو رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں اس میں بڑی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس وزیر قانون کی نظر سے ہوکر گزرا ہے جو نہ صرف ڈاکٹر ہیں بلکہ بیرسٹر بھی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ صدر کو رائے دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں ابھی زیر التوا ہیں لہٰذا وہ اس پر سوچ سمجھ کر رائے دیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سات ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی تک نظرثانی کی یہ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں۔

بینچ کے سربراہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے کوئی سپریم کورٹ پر دباو نہیں ڈال سکتا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وہ صرف نظرثانی کی اپیلوں میں استعمال کی گئی زبان پر بات کریں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ نظرثانی کی اپیلوں میں اس دو رکنی بینچ کے عدالتی فیصلے کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جنھوں نے اس فیصلے کو تحریر کیا تھا مبینہ طور پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور یہ کہا گیا کہ اُنھیں فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم نے اپنی نظرثانی کی اپیلوں میں جسٹس قاضی فائز عیسی پر جو الزامات عائد کیے ہیں ان کے سیریل نمبر بھی ایک جیسے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’ویل کوارڈینیٹڈ‘۔

بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ’لگتا ہے کہ ان دونوں اپیلوں کا فونٹ ایک ہی ہے۔‘

ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس کب دائر کیا گا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں7 مارچ کو دائر کی گئیں جبکہ 10 اپریل کو ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

عدالتی وقت ختم ہونے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32193 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp