کیا روزنامہ ڈان کو یہ خبر لگانی چاہیے تھی؟


\"omair

چھے اکتوبر 2016ء کو انگریزی روزنامہ ڈان نے ایک خبر کیا دی، تردیدوں کا سیلاب سا آ گیا۔ خبر کے مطابق ایک بند کمرے کا اجلاس ہوا۔ جس میں وزیراعظم نوازشریف، سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر اور دیگر سول اور عسکری افسران موجود تھے۔ خبر کی تفصیل میں‌ کیا جانا، کہ ایک تو اس کی تردید آ چکی، دوسرا ان معاملات میں محتاط رویہ ہی تحفظ کی ضمانت ہے۔ بس سمجھانے کو اتنا کہے دیتے ہیں کہ خبر کے مطابق سول قیادت نے عسکریت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا خواہش نما مطالبہ کیا۔ وہ عسکریت پسند جن کے بارے میں امریکا اور بھارت اکثر کارروائی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ عسکری قیادت نے کہا، بھئی آپ جسے چاہیں پکڑ لیجیے۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شکایت کی، ”ہم کچھ مخصوص افراد کو پکڑتے ہیں، تو انہیں چھڑا لیا جاتا ہے۔“

خبر کے مطابق سول قیادت نے اس قسم کا پیغام بھی دیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ خبر انتہائی حساس نوعیت کی تھی۔ اخبار نے واضح الفاظ میں یہ بھی لکھا کہ خبر ملاقات میں موجود افراد کی گفتگو کی بنیاد پر دی جا رہی ہے۔ جنہوں نے بات کی ہے وہ اپنا نام نہیں دینا چاہتے۔ اور جن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے وہ اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ انگریزی کے اس جملے سے ہم نے تو یہی اخذ کیا۔

All declined to speak on the record and none of the attributed statements were confirmed by the individuals mentioned.

خبر کا چھپنا تھا، کہ ہر طرف آگ سی لگ گئی۔ بھارتی میڈیا خوشی خوشی اس کے مندرجات اچھالنے لگا۔ ان کے مطابق یہ خبر اس بات کا اعتراف تھا کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اب بھی غیر ریاستی عناصر کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ خبر چھپنے کے بعد سات اکتوبر 2016ء کو وزیراعظم ہاؤس سے اس کی خبر کی حقانیت کی تردید کی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب آفس نے شہباز شریف سے منسوب باتوں کو بھی رد کیا۔ 10 اکتوبر کو وزیراعظم ہاؤس سے ایک بار پھر بیان جاری کیا گیا اور خبر کے مندرجات کو سخت باطل قرار دیا گیا۔ بیان کے مطابق اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے ایک ملاقات میں ڈان اخبار کی خبر من گھڑت قرار دیتے ہوئے، اس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ گمراہ کن خبر دے کر ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ڈان اخبار کے بقول، خبر چھاپنے سے پہلے نہ صرف تصدیق کی گئی، بلکہ مختلف ذرائع سے اسے پرکھا بھی گیا۔ میٹنگ میں موجود شرکا سے رابطہ کیا گیا اور ایک سے زیادہ ذرائع نے خبر کے مندرجات کی تائید کی۔ خبر چھپنے کے بعد سے یہ طالب علم الجھن کا شکار ہے۔ صحافت میں موقف کو عموماً بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی کے خلاف تحریری ثبوت ہو تو بھی خبر میں اس کا موقف شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تو صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر خبر دے دی گئی، اور وزیراعظم ہاؤس یا عسکری ادارے کا موقف شامل نہ کیا گیا۔

مبشر زیدی صاحب سینیئر صحافی ہیں۔ لنکڈ ان پروفائل کے مطابق وہ ڈان ٹی وی میں ایڈیٹر انویسٹی گیشن ہیں۔ 18 اگست 2016ٰء کو ڈان ٹی وی کے پروگرام ”زرا ہٹ کے“ میں مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو صاحب کی بحث ہوئی۔ ضرار صاحب کہنا تھا، اگر ذرائع سے آپ کے پاس کوئی خبر آئے تو اسے دینے میں حرج نہیں۔ مبشر صاحب نے کہا ثبوت کے بغیر کوئی خبر نہیں دی جا سکتی۔ (پروگرام کا مذکورہ حصہ 31 منٹ 30 ویں سیکنڈ کے بعد دیکھا جا سکتا ہے)

اس خبر سے متعلق ڈان انتظامیہ کے پاس، اگر کوئی ثبوت تھے تو بھی وہ زبانی نوعیت کے تھے۔ کیا قانونی ٹیم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ خبر کسی عدالت میں ثابت کرنی پڑ جائے تو کیا کیا جائے گا؟ اس طالب علم کی الجھن کا دوسرا حصہ قومی مفاد سے متعلق ہے۔ قومی مفاد کیا ہوتا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا؟ اگر ڈان کی خبر سے دنیا بھر میں یہ تاثر جاتا ہے، کہ پاکستان کے عسکری ادارے شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیتے، اور سول حکام اس رویے سے شاکی ہیں تو کیا ایسی خبر جگ ہنسائی کا باعث نہیں ہوگی؟ یہ طالب علم یہ بھی جاننا چاہتا ہے، کہ بعض اوقات خبر بہت اہم ہوتی ہے اور اسے لگانا ناگزیر بھی ہوتا ہو گا۔ ایسی صورت احوال میں حتمی فیصلے کے لیے، کن امور کو مد نظر رکھا جاتا ہے؟ جب آپ خبر میں کسی کا حوالہ نہ دے سکیں تو پھر جس شخص کے بارے میں خبر ہے، اس کا نام بھی خفیہ نہیں رکھنا چاہیے؟ کیا ڈان ادارے سے وابستہ افراد یا سینیئر صحافی، اس طالب علم کو سمجھائیں گے کہ مذکورہ خبر لگاتے ہوئے صحافت کے کون سے اصولوں کو مد نظر رکھا گیا؟ اور کیا اخبار کو یہ خبر واقعی لگانا چاہیے تھی؟

وضاحت: اطلاعات کے مطابق خبر دینے والے صحافی سیرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات ہر گز نہ کرنے چاہئیں، جن سے صحافیوں یا صحافتی اداروں کو دباؤ میں لانے کا تاثر ابھرے۔ گزارش ہے کہ معاملے کو زور زبردستی کے بجائے بات چیت ہی سے حل کیا جائے۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments