امیر تیمور کی قبر کشائی اور ہٹلر کی پسپائی


موبائل فون کا الارم مسلسل بج رہا تھا اور میں گہری نیند میں اسے گاڑی کی سیٹی سمجھ رہا تھا۔ اٹھا تو چار بجنے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔ گاڑی نے میرا انتظار نہیں کرنا تھا۔ ننگے پاوں واش روم جانے کی غلطی کر بیٹھا۔ وضو کرتے پاوں پھسلا اور دھڑام سے نیچے گرا۔ ایک لمحے کو جیسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ سر سے شدید قسم کی ٹیس اٹھ رہی تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے آخری وقت آ گیا ہے۔ فوراََ تمام گناہوں سے توبہ کی۔ آخری خواہش یہی تھی کہ واش روم ہی میں نہ مرجاوں اور بستر کی سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل فون تک پہنچ کر گھر والوں کو اپنی وفات کا میسج کر سکوں۔

اللہ نے میری سن لی، مجھے محسوس ہوا جیسےمیرے حواس بحال ہو رہے ہیں۔ میں نے اہستہ آہستہ سر اٹھانے کی کوشش کی، واش روم کے بیسن کو پکڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ بھی معجزہ ہوا، میں چل بھی سکتا تھا۔ جلدی جلدی جوتا پہنا، کوٹ ہاتھ میں پکڑا اور باہر کی طرف بھاگا۔ چار بج کر تین منٹ ہو گئے تھے۔ بس چل پڑی تھی، ڈرائیور نے مجھے بس کے پیچھے بھاگتے ہوئے پایا تو مجھے بس میں سوار کر لیا گیا۔

اسٹیشن کے پارکنگ لاٹ میں اترتے ہی شدت سےاحساس ہوا کہ جلدی میں گرم کپڑے اور ہائی نیک جو گھر سے اسی لیے اٹھا لائے تھے، ہوٹل ہی میں رہ گئے ہیں۔ بلا کی سرد ہوا چل رہی تھی ہلکہ بارش ہو رہی تھی۔ پارکنگ اور مین اسٹیشن کے درمیان دو سو گز کا فاصلہ دو سو میل لگ رہا تھا۔ بھاگنا پڑا تاکہ جلدی سے اسٹیشن پہنچا جا سکے۔ ویٹنگ ہال بہت بڑا اور گرم تھا۔ جان میں جان آئی۔ واش روم جانا تھا۔ واش روم کا نقد ٹکٹ لینا پڑا۔ واش روم گندے اور بدبو دار تھے۔ پانی کا انتظام نہیں تھا اور واش رومز ٹشو سے خالی۔ پہلے سردی کا اثر تھا، پھر گندے واش روم کی بد بو۔ ناک بہنے لگا اور اس وقت تک بہتا رہا جب تک پاکستان واپس اپنے گھر نہیں پہنچ گیا۔

رشید کا مسئلہ اور تھا۔ اس کے اور باقی ٹورسٹس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تھا۔ ایک لڑکا بطور گائیڈ آیا۔ اسے دیکھتے ہی سب کے منہ لٹک گئے۔ وہ اردو اچھی بول رہا تھا۔ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا اور اس کا تاریخی علم قابل تعریف تھا۔ مگر زرینہ کی کمی کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔

آج کل تاشقند سے سمر قند بلکہ بخارا تک اسپیڈ ٹرین چل پڑی ہے، مگر جن دنوں میں تاشقند گیا تھا، وہی پرانی گاڑی تھی۔ اگر چہ وہ نان اسٹاپ تاشقند سے سمر قند پہنچی مگر ساڑ ھے تین گھنٹے میں۔ ٹرین آرام دہ اور گرم تھی۔میں برتھ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ رشید نے مجھے اٹھایا۔ ویٹریس ناشتے کی ٹرے لئے میرے اٹھنے کی منتظر تھی۔رشید نے بتایا کہ تین چار منٹ سے وہ میرا ناشتا لیے کھڑی تھی۔ رشید کو یہ دبلی پتلی اور لمبی ویٹریس بھی اپنی گوری رنگت اور جینز کے ساتھ چھوٹی شرٹ میں اچھی لگ رہی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ تھوڑی دیر اور وہیں کھڑی رہے۔ رشید کا مزاج ہی کچھ ایسا تھا۔ اسے ہر طرح کا کھانا اور لڑکی اچھی لگتی تھی۔ دونوں سے انکار اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔

گائیڈ نے بتایا کہ یوں تو ہم روس سے آزادی ملنے پر خوش ہیں اور لوگوں کو اپنے دین پر عمل کرنے میں آسانی ہوئی ہے، مگر روس کے جانے سے وہ انجینیر، ڈاکٹر، معیشت دان، اگریکلچرسٹ اور باقی سائنسدان بھی یہاں سے چلے گئے ہیں۔ روسیوں نے ازبکستان میں بڑی بڑی عمارتیں، ہوائی اڈے، ریلوے لائینیں اور ڈیم بنا کر ملک کو ترقی کے راستے پر لگا دیا تھا۔ ان کی وجہ سے ہماری زراعت نے اتنی ترقی کرلی تھی کہ ہم دنیا کی بہترین کپاس پیدا کرتے تھے۔

ساڑھے تین گھنٹے بعد ہم سمر قند اترے۔ یہ نومبر کے ابتدائی ایام تھے اور ثمر قند میں تھوڑی دیر پہلے موسم کی پہلی برفباری ہو چکی تھی۔ لوگوں نے لمبے اور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اونی ٹوپیاں اور مفلر کانوں پر لپیٹے ہوئے تھے۔ میرے کان سنسنا رہے تھے۔ قریب میں کوئی لنڈا بازار بھی نہیں تھا۔ لنڈا بازار شاید پاکستان ہی میں لگتا ہے۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتا بس میں جا بیٹھا۔

سمرقند دنیا کے چند قدیم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ عظیم یونانی فاتح سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق سکندراعظم نے یہاں شادی بھی کی تھی۔ یہ شہر مشہور سلک روڈ پر واقع ہے اور قدیم زمانے سے سونے اور مسالوں کی تجارت کے لئے مشہور تھا۔ چودھویں صدی کے مشہور مسلمان فاتح امیر تیمور نے اسے اپنا دارالحکومت بنایا اور اس شہر کو تہذیب و ثقافت کا مرکز بنا دیا۔ مرنے سے ایک سال پہلے اس نے اپنی چینی بیگم کے نام پر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی جو آج بھی موجود ہے۔ یہ مسجد بی بی خانم مسجد تیمور کی موت سے ایک سال قبل مکمل ہوئی تھی۔ مسجد کی تکمیل کے ایک سال بعد 1405 میں تیمور کا انتقال ہو گیا۔اس کا مقبرہ گور تیمور سمرقند میں تعمیر کیا گیا۔

مقبرہ امیر تیمور:
تیمور نے دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ تہ تیغ کیا تھا۔ وہ ایک بے رحم قاتل، کھوپڑیوں کے مینار بنانے والا اور دشمن کی کھوپڑی میں دودھ پینے والا وحشی انسان تھا۔ آخری عمر میں چنگیز خان کی طرح اسے بھی چین فتح کرنے کا خبط ہوا تھا۔ اس نے اپنی فوج کے ساتھ چین پر چڑھائی کی ہوئی تھی کہ موت نے اسے آ لیا۔

ہم اس کی قبر پر کھڑے اس کی زندگی کے قصے سن رہے تھے۔ تیمور نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کرایا تھا۔ دراصل اس کی وفات سے دو سال پہلے اس کے پیارے پوتے محمد سلطان کی ناگہانی موت ہو گئی تھی۔ تیمور نے یہ مقبرہ اس کے لئے تعمیر کرایا تھا۔ اس کے دوسرے پوتوں نے تیمور کو اسی مقبرے میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کہتے ہیں نادر شاہ نے جب سمر قند فتح کیا تو اس نے لوٹ مار میں اس عظیم فاتح کو بھی نہیں بخشا، تیمور کی قبر کے قیمتی پتھر اکھاڑ کر لے گیا۔ جو اس کے لئے نحوست ثابت ہوا۔ اس کا بیٹا بیمار پڑ گیا۔ اس کو نجومیوں اور عاملوں نے مشورہ دیا کہ تیمور کی قبر کا پتھر واپس رکھوا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا تو اس کا بیٹا صحت یاب ہو گیا۔ دوسری بار 1942 میں روسی صدر کے حکم پر تیمور کی قبر کشائی کی گئی اور اس کی ڈیڈ باڈی نکال کر اس کے چہرے کے فوٹو بنائے گئے۔ یہ عمل بھی روسیوں کے لئے نحوست ثابت ہوا۔ ہٹلر نے روس پر حملہ کر دیا، جس میں روسی بری طرح پٹ رہے تھے۔ روسی صدر کو مشورہ دیا گیا کہ امیر تیمور کی قبر کو اعزاز کے ساتھ بحال کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جس کے بعد ہٹلر کی فوجوں کی روس سے پس پائی شروع ہو گئی۔ ہم نے سمرقند میں تیمور کی بیگم سے منسوب پندرھویں صدی کی سب سے بڑی مسجد، جسے بی بی خانم مسجد کہتے ہیں دیکھی اور سمر قند سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔

مزار امام بخاری:
ہم نے عظیم محدث حضرت اسماعیل شاہ بخاری عرف امام بخاری کے مزار مبارک کی زیارت کی۔ امام بخاری کا مزار سمرقند سے کوئی پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مزار مبارک کی تزین و آرائش 1998 میں موجودہ حکومت نے کی۔ مزار مبارک سے سیڑھیاں اتر کر نیچے قبر مبارک تک جانا پڑتا ہے۔ مزار کے ساتھ ایک مسجد اور لائبریری کے ساتھ ایک پارک بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ امام بخاری نے بچپن ہی میں اپنی ماں کے ساتھ مکہ اور مدینہ کا سفر کیا تھا اور پندرہ سال کی مشقت  سے مدینہ کی گلیوں میں گھر گھر جا کر احادیث جمع کیں تو احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ صحیح بخاری وجود میں آیا۔ فاتحہ خوانی کے بعد واپس سمرقند کے پرانے شہر کا دورہ کیا۔ یہاں چھوٹی گلیاں، سنگل اسٹوری مکان اور سمرقند کے پرانے بازار دیکھے۔ یہیں پر لنچ کیا اور واپس تاشقند بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).