جمعیت علمائے اسلام کا ایک رنگ مزاحمتی بھی ہے


جمعیت علمائے اسلام(ف) جولائی 019 کے پہلے عشرے تک اپنی از سر نو تنظیم سازی انتہائی خاموشی اور کامیابی سے مکمل کر چکی۔ اس اہم سیاسی و جمہوری سرگرمی کے دوران جمعیت کے تمام کارکنان و اکابرین کے آپسی اختلافات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت قابل رشک ہے۔ یہ سربراہ جمعیت مولانا فضل الرحمان پر اعتماد ہی کا نتیجہ ہے کہ سابق عہدیداروں میں سے کسی ایک نے بھی علم بغاوت بلند نہیں کیا، ماسوائے کراچی کے سابق صدر قاری عثمان کے۔ ان کے اختلاف کی وجہ بھی نظریاتی و سیاسی نہ ہے بلکہ قاری صاحب کے سندھ کے موجودہ سیکرٹری جنرل سندھ راشد سومرو سے  ذاتی اختلافات ہیں۔

آج کل جمعیت علمائے اسلام کے مزاحمتی کردار پر کچھ تاریخ سے نابلد حضرات غیر ضروری و نامناسب اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے جن بڑے عہدیدران سے ہمارے آج کے نوجوانوں کی اکثریت واقف ہے، ان میں سے چند نام یہ ہیں: مولانا فضل الرحمن، حافظ حسین احمد، حمد اللہ، اور اکرم درانی وغیرہ۔ یہ جمعیت علمائے اسلام کے سیاسی عہدیدران کی دوسری نسل ہے، جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت  ضیا مخالف تاریخی مزاحمتی تحریک ایم آر ڈی سے کیا۔ جمعیت علمائے اسلام  نے فضل الرحمن کی زیر قیادت جب ضیا ئی آمریت کا ’’یس مین‘‘ بننے سے انکار کیا تو جمعیت علمائے اسلام ہی کے بطن سے اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ سپاہ صحابہ اور سمیع الحق کے زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام (س) ظہور پذیر ہوئیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اس کا کچھ نہ کچھ عارضی نقصان ضرور اٹھانا پڑا مگر یہ فیصلہ جمعیت کو بطور سیاسی و عوامی جماعت  بنانے میں انتہائی اہم ثابت ہوا۔ یہ تھا تھوڑا سا سیاسی پس منظر جس میں جمعیت کی دوسری نسل نے ڈنکے کی چوٹ پر مزاحمتی تحریک سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور ضیا دور کے اختتام تک اس سے جڑے رہے۔

جمعیت علمائے اسلام کی پہلی نسل نے ہندوستان کی بہت بڑی اسلامی جماعت جمعیت علمائے ہند سے 1945 میں اصولی اختلاف کرتے ہوئے، اپنی راہیں جدا کر لیں۔ جمعیت علمائے ہند، متحدہ ہندوستان کی حامی تھی اور قیام پاکستان کی سخت مخالف۔ اس پس منظر میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے  جمعیت علمائے ہند سے اپنی راہیں جدا کرتے ہوئے اپنی جماعت بنائی جس کو جمعیت علمائے اسلام کا نام دیا گیا۔ شبیر احمد عثمانی جمعیت علمائے اسلام کے پہلے صدر ہوئے۔ یہ تھا پس منظر جس میں جمعیت علمائے اسلام کی پہلی نسل مفتی محمود اور شبیر احمد عثمانی جیسے عہدیدران نے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی سیاست کا آغاز کیا۔

آزادی مارچ میں جہاں جمعیت کی دوسری نسل کے عہدیدران کا تجربہ شامل  ہو گا، وہیں تیسری نسل کے عہدیدران کا ولولہ بھی دیکھنے کو ملے گا۔ جی ہاں جمعیت کی تیسری سیاسی نسل جس کو جمعیت نے انتہائی خاموشی سے تیار کیا ہے۔ اس سیاسی نسل کے عہدیدران کی تربیت انتہائی جمہوری و آئینی  خطوط پر کی گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے، کہ اس کا کوئی کارکن، کارکن سے صوبائی یا وفاقی عہدیدار تک کا سفر کرے تو اس میں جہاں تحمل و برداشت جیسی خصوصیات پائی جائیں، وہیں ملک کی سیاسی و آئینی امور پر بھی زیادہ سے زیادہ دسترس رکھنے کی صلاحیت بھی۔ نئی تنظیم سازی میں اسلم غوری ڈپٹی جنرل سیکرٹری (سنٹرل) اسی تیسری نسل کے نمایندہ ہیں۔

اس مارچ میں بہت سے “کاغذی و عسکری غوریوں” کے لئے جمعیت کی تیسری نسل کے عہدیداران جو کہ بیشتر “آئینی غوری” ہیں  سے سیکھنے کا خاصا مواد موجود ہو گا۔ یہ بتانا اس لئے ضروری سمجھا کہ بہت سے شہری اور افسر بابو مولانا کی آزادی مارچ کو  صرف مدرسوں کے معصوم بچوں کا مجمع سمجھ ریے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مختلف عہدیداروں کی اطلاعات کے مطابق جمعیت کے رجسٹرڈ ممبرز کی مجموعی تعداد ستائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ سب اپنا شناختی کارڈ اکثر و بیشتر جیب میں رکھتے ہیں۔ لہذا شہری اور افسر بابو مطمئن رہیں کہ یہ بچوں کا مارچ ہر گز نہیں ہو گا- جمعیت ویسے بھی اگلے دو تین دن میں اندرونی طور پر فیصلہ کرنے والی ہے کہ  آزادی مارچ میں اٹھارہ سال  سے کم عمر افراد کا داخلہ  ممنوع ہو گا۔ لہذا بابو بے فکر رہیں کہ جمعیت آزادی مارچ  بچوں کا استعمال ہر گز نہ کرے گی اور نا ہی یہ بچوں کا مارچ ہو گا۔

جمعیت کے عہدیدران نا ہی راتوں رات تبدیلی کے خواہاں اور نا ہی کسی ایمپائر کی انگلی کے منتظر اور نا ہی ان کا قائد ان کو کوئی انگلی اٹھنے جیسی کسی خوش خبری سنانے کا متمنی ہے۔ لہذا بابو حوصلہ رکھیں کہ جو جماعت ضیا الحق کی آمریت پر آخری دم تک مزاحمت کرتی ہے، اس کی دوسری اور تیسری نسل جب مل کر اسلام آباد آئیں گی تو ایک دو وزارتوں اور سودے بازی سے کام نہیں چلے گا۔

ایک اور دیسی سی بات، ولائتی بابووں کو سمجھنا پڑے گی کہ یہ تحریک انصاف کا دھرنا نہیں بلکہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف جمعیت کا آزادی مارچ ہے۔ ان کارکنوں میں سے بہت کم ایسے ہوں گے، جو “بس ایسے ہی” مارچ میں شامل ہوں گے اور “عمران دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا” کی دھن پر طبعیت مطابق رقص کر کے گھر کو چلیں جائیں گے۔

میڈیا کے سنسنی بابووں کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیسے جمعیت کے مدلل اور “آئینی غوریوں” کا مقابلہ کرتے ہیں جن کی طبیعت میں شایستگی و اطمینان اور زبان پر آئینی دلیل ہوتی ہے اور تاریخی عمل میں ایوب و ضیا کے مارشل لا کے ادوار کی بیشتر مخالفت۔

آزادی مارچ سے متعلق تمام معاشی وسیاسی خدشات اپنی جگہ لیکن مولانا فضل الرحمن کیسے جمعیت کی تیسری سیاسی نسل کو آئینی و قانونی سیاسی مزاحمت منتقل کرتے ہیں، یہ دیکھنا کسی بھی سیاسی کارکن یا سیاست کے طالب علم کے لئے دل چسپی سے خالی نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).