علی مطہر اشعر مرحوم، تعارف و انتخاب کلام


کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

اس شعر کے خالق غزل کے ممتاز و معروف شاعر سید علی مطہر اشعر نقوی دو ستمبر 2022 کو ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی عمر تقریباً ”85 سال تھی

وہ شکار پور ( متحدہ ہندوستان ) میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے واہ میں آباد ہوئے۔ انٹر میڈیٹ تک تعلیم بھی یہیں حاصل کی اور باقی زندگی معاشی جد و جہد اور پرورش فن میں گزار دی۔ ان کا گھرانا علمی لحاظ سے جانا پہچانا تھا۔ کراچی کے مشہور امروہوی ادبی خانوادے سے ان کی رشتہ داری تھی۔

علی مطہر اشعر چھٹی دہائی کے دوران ہی شاعری کے میدان میں اپنا تعارف بنانے میں کامیاب ہو گئے اور ان کا کلام ادبی پرچوں کی زینت بننا شروع ہو گیا علی مطہر اشعر وقتاً فوقتاً واہ کیے مختلف حلقوں، ادبی پرچوں اور ادبی تنظیموں میں فعال رہے تاہم درویشانہ طبیعت کے باعث اپنے مستقل مفادات کی خاطر کوئی جد و جہد نہ کی اور زیادہ تر زندگی کس مپرسی میں ہی کاٹی۔ ان کے یہ اشعار ان کے بے نیازی کا پتہ دیتے ہیں

کاسہ بدست گھر سے جو نکلے تو دفعتاً
اؔشعر خیال عزت سادات آ گیا

میں اس کی دوسری دستک نہ سن سکا اشعر
رہین خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

اپنی قناعت اور خودداری پر سمجھوتہ نہ کیا۔ ان کا ایک شعر ہے
شاید وہ سر زمین قناعت بھی ہو کہیں
رہتے ہوں اپنے ظرف کے اندر جہاں کے لوگ

وہ بہت زیادہ مجلسی آدمی نہ تھے اور اپنی بات کرنے سے زیادہ دوسروں کی سننے پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کے اپنے بقول:

یہ بھی اک طرز تکلم ہے سر بزم کہ ہم
سب کے چہروں کی طرف مہر بلب دیکھتے ہیں

بہر حال واہ میں ان کے ہم جلیسوں میں الیاس صدا، راز مراد آبادی، اکمل ارتقائی، ظفر ابن متین، حسن ناصر، سجاد بابر، سید سبط علی صبا اور دیگر کئی معروف شخصیات شامل رہیں۔

ان کا کلام در و بست کے اعتبار سے نہایت عمدہ اور نفیس سمجھا جاتا ہے۔ موضوعات کو دیکھا جائے تو وہ غزل کے کلاسیکی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید عہد کے مسائل بھی بیان کرتے ہیں خاص طور پر عوامی اشتراکی حسیت کے اعتبار سے انہیں حبیب جالب، اقبال ساجد اور تنویر سپرا جیسے شعرا کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔

علی مطہر اشعر نے اپنی شاعری میں حقیقت نگاری کو ترجیح دی اور جیسی زندگی گزاری ویسی ہی پیش کی۔ انہوں نے مزدوروں اور نچلے طبقات کے لئے نہ صرف لکھا بلکہ عملی جد و جہد بھی کی تاہم شعری معیار پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ دیکھئے جدید عہد کی بے حسی ان کے اس شعر سے کس طرح عیاں ہے

قتل گاہوں میں رعایت نہیں برتی جاتی
کوئی اکبر ہو کہ اصغر، نہیں دیکھا جاتا

ان کے کلام میں انسانی رشتوں کی توقیر کا احساس بہت برتر سطح پر ملتا ہے۔ اس حوالے سے بھی ان کے کئی اشعار زباں زد عام ہیں

اپنے بچوں کو چھپا کر جھاڑیوں کے عقب میں
شیر کو اپنے تعاقب میں لگا لیتی ہے ماں

اک چھوٹے سے سیب کو کتنی قاشوں میں تقسیم کروں
کچھ بچوں کا باپ ہوں اشعر، کچھ بچوں کا تایا ہوں

اب مری بیوی کی آنکھوں کی چمک بڑھنے لگی
میرا اک بچہ بیٹا بھی مزدوری کے قابل ہو گیا

ان کے کلام کا ایک ہی مجموعہ ”تصویر بنا دی جائے“ چھپ سکا۔ باقی کلام ہنوز تشنۂء اشاعت ہے

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے کلام کے دو رنگ ہیں، ایک وہ جس میں ان کی غزل اپنی روایت کے تسلسل میں تخلیقی افق پر جگمگا رہی ہے اور دوسرا رنگ معاشی جبر و استبداد کا آئینہ دار ہے، دوسرے رنگ کے مضامین کھردرے اور تلخ ہیں لیکن علی مطہر اشعر نے ان میں بھی اپنے فن کی مٹھاس سموئی ہے۔ آئیے ذیل میں ان کے کلام کے دونوں رنگوں کے کچھ مزید اشعار ملاحظہ کیجئے

حصہ اول

آپ ﷺ کا صدقہ ہے دنیا زندگی ہے آپ ﷺ سے
وسعت کون و مکاں میں روشنی ہے آپ ﷺ سے

جب بھی سطح آب سے اٹھتی ہے رحمت کی گھٹا
کون سے خطے پہ برسوں؟ پوچھتی ہے آپ ﷺ سے

اشعر ہوا کے شور کا اب ترجمہ کرو
کیسے چراغ، کس کے گھروندے، کہاں کے لوگ

ایک ہی بات سر راہگزر سوچتے ہیں
لوگ جب سائے میں ہوتے ہیں تو گھر سوچتے ہیں

کیفیت یہ ہے کہ اس دور پر آشوب میں لوگ
سنگ ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں، سر سوچتے ہیں

پھر وہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں
کون توڑے گا فسوں کاریٔ شب، دیکھتے ہیں

مژدہ خوبیٔ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہوا، کب دیکھتے ہیں

ہمیں تو فرصت یک ساعت نظر بھی نہیں
اسے گلہ ہے کہ حسن نظر نہیں رکھتے

غضب کی دھوپ ہے یا انتہا کی تاریکی
وہ روز و شب ہیں کہ شام و سحر نہیں رکھتے

صورت نقش کف پا نہ اٹھا
جو گھنے سائے میں بیٹھا نہ اٹھا

ہر نئی رات نے بدلا ہے مجھے
جیسا سویا کبھی ویسا نہ اٹھا

مالک ارض و سماء اب کسی صورت گزرے
یہ سحر جس پہ گمان شب فرقت گزرے

نفرتیں مورد الزام ہوئی ہیں، لیکن
حادثے سارے محبت کی بدولت گزرے

میرے جسم و جان پہ اب تک کچھ لوگوں کا قبضہ ہے
مجھ میں میرا اپنا کیا ہے، اوروں کا سرمایہ ہوں

تھوڑی دیر میں جلتا سورج سر کی سیدھ میں آئے گا
پیڑ کے نیچے جاکر بیٹھو، میں دیوار کا سایہ ہوں

اس جسم کی بنیاد سرابوں پہ اٹھی ہے
صحرا سے یہ بستی لب جو کیسے چلی جائے

رابطہ رہتا ہے ساری رات دیواروں کے ساتھ
گفتگو کرتی ہے مجھ سے گھر کی سائیں سائیں

مرے اندر تصادم کے کبھی امکاں نہیں ہوتے
میں اپنی ذات میں امن و اماں کے ساتھ رہتا ہوں

یکسوئی سے جب اس کی طرف دیکھو گے اشعرؔ
کچھ دیر میں مہتاب رخ یار بنے گا


حصہ دوم

قریہ قریہ دے رہے ہیں لوگ سورج کی خبر
لیکن اے زندہ دلان شب دیے بجھنے نہ پائیں

یہ بات بھی طے ہو گئی دہشت زدگاں میں
جو سنگ بدست آئے گا سردار بنے گا

مسلسل جبر سہنا اب مری عادت میں شامل ہے
بہت عرصے سے اک سنگ گراں کے ساتھ رہتا ہوں

بچے مجھ کو دیکھ رہے ہیں جلتی بجھتی آنکھوں سے
گھر سے خالی ہاتھ گیا تھا، خالی تھیلا لایا ہوں

پھر لخت جگر کوئلہ لے آیا کہیں سے
اب دیکھیے کیا کیا سر دیوار بنے گا

بچے کا ہاتھ جا نہ سکا آسمان پر
گویا مہ و نجوم سجے تھے دکان پر

شعلے اٹھے تو شیش محل جگمگا اٹھا
بجلی گری تھی ایک شکستہ مکان پر

خوبانیوں کا پیڑ پڑوسی کے گھر میں ہے
پتھر برس رہے ہیں مرے سائبان پر

وہ جو اک فاقہ زدہ بچی سے ہم آغوش ہے
کرب کے آثار اس گڑیا کے چہرے پر بھی ہیں

منکشف ہوتا ہے اکثر بر سبیل گفتگو
ایک ہی ماحول میں شیشے بھی ہیں، پتھر بھی ہیں

پیرہن تیرا ہی جیسا ہم بھی لے آئیں، مگر
اپنے چہرے سے نقوش مفلسی کیسے مٹائیں

اغیار کی تہذیب کو ہم لائے ہیں اشعر
گھر چھوڑ کے اس گھر کی بہو کیسے چلی جائے
( تحریر و انتخاب : رحمان حفیظ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).