نہ جانے کب انسان یہ دائرے توڑے گا؟


خدا نے بگ بینگ اور بگ کرنچ کے بلبلے میں بند اس کھربوں سال پرانی کائنات میں، کروڑوں سالوں کےعملِ ارتقا سے بنی زمینی حیات کے اندر نسلِ انسانی کی ترتیب یا کرومو زومز میں، تمام ضروری مورل ہدایات ارتقائی عوامل کے ہاتھوں لکھ دی ہیں۔
انسان نے ان بنیادی ہدایات کی بنا پر دس بارہ ہزار سالوں میں بنیادی اکنامک، سوشل اینڈ مورل فیبرک بھی بنایا ہے جو کہ انسانی و کائناتی تغیر یا ارتقا کی طرح ارتقا پزیر ہے. اس مورل فیبرک کا بنیادی مقصد ارتقا پزیر نسلِ انسانی کی بقا ہے، ضِد، دھونس اور غلبے کی بنیاد پر کھڑے مذہبی، نسلی اور قومی بیانیوں کے لیے لڑ مر کر ایک دوسرے کو ختم کرنا نہیں۔
میری نسل، میری قابلیت، میری قومیت، میری ثقافت، میرا عقیدہ، میرا لیڈر، میرا گروہ، میری ضرورت سب سے افضل ہے۔ نہ جانے کب انسان یہ دائرے توڑے گا؟
انسان یا ہیومن پرائمیٹس نے اپنے ذاتی اور معاشرتی ارتقا کے ساتھ جو بھی قوانین یا سسٹم بنائے ہیں ان کا تعلق انسانی عقل و فہم اور طرز معاشرت کے ارتقاء سے جڑی عصری ضروریات سے ہے جنہیں مذاہب نے اُچک کر آفاقی قرار دے دیا ہے تاکہ ان کا بھرم یا ساکھ قائم رہ سکے۔

یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ انسانی عقل اور اختیار کو مصلوب کرتے مذہبی و سیاسی بیانیوں سے آگے بڑھے. ایک بین الانسانی چھتری تلے جمع ہو اور بِنا کسی تعصب کے ذاتی ترقی و آسودگی کے حصول کی جدوجہد کے ساتھ مجموعی انسانی ترقی اور آسانی کے لیے کام کرے یا پھر اقوام، نسل اور مذاہب میں تقسیم ہو کسی چنگیز خان، ہٹلر یا داعش کی طرح لڑتا مرتا پھرے اور ہیومن پرائمیٹ کی جبلت سے جڑے غضب کے ہاتھوں فنا ہو جائے۔

خدا کا ویڏن ایک ذہین سائنٹسٹ کے جیسا ہے، کائنات کی وسعتوں میں پھیلے کروڑوں حیاتی کلچرز میں سے کسی ایک کے ضائع ہو جانے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن نسلِ انسانی کو تباہی سے فنا ہو کر ضرور فرق پڑے گا اور ہمارے بعد آنے والی ہمارے سیارے کی پرتیں کھوجتی کوئی ذہین مخلوق انسانی فاسلز اور اسکی تہذیب کی باقیات سے نتائج اخذ کر کے یہ ضرور سوچے گی کہ عجب ذہین حیات تھی کہ جسے کسی شہابِ ثاقب یا کائناتی حادثے نے نہیں بلکہ اس کے اپنے غضب کے شہابیے نے تباہ کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).