طاہرہ کاظمی نے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟


“آپ ڈاکٹر کیوں بن رہے ہیں، شوق ہے کیا؟ خوشی حاصل کرنی ہے یا دولت کمانی ہے”

یہ میرا پسندیدہ سوال ہے۔

میڈیکل سٹوڈنٹس کو پڑھاتے پڑھاتے کبھی محسوس کروں کہ کچھ دلچسپی کم ہو رہی ہے تو میں ان سے بات کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ کوئی اچھوتا خیال، کوئی دنیا کی خبر، کوئی اردو کا خوبصورت شعر یا پھر کوئی سوال۔ اس ترکیب سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں میں جوش وخروش بڑھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر کی گپ شپ کے بعد وہ پھر سے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔

میرے پسندیدہ سوال کے مختلف جواب ملتے ہیں۔

“والدین کا شوق ہے کہ ہم ڈاکٹر بنیں”

“بچپن سےشوق ہے سفید کوٹ پہننے کا”

“ڈاکٹر کا معاشرے میں عزت کا مقام ہے”

“پیسہ، جی بالکل پیسہ اہم ہے اور ڈاکٹر کو ہر وقت ہر جگہ نوکری مل جاتی ہے”

اور پھر ہم انہیں عزت، شوق اور دولت کی بحث میں گھیر لیتے ہیں۔ اور یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اگر مریض سے بات کرتے ہوئے مزاج کڑوا رہتا ہے، مریض کی کہانی سننے کا یارا نہیں، تو شوق تو پورا ہو جائے گا، دولت بھی کما لو گے لیکن کیا سچی خوشی حاصل کر سکو گے؟

گزشتہ کلاس میں بازی الٹ گئی جب ایک تیز وطرار لڑکے نے جواباً ہم پہ سوالوں کے تیر اچھال ڈالے۔ کہنے لگا میں بھی دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں

پہلا یہ کہ آپ ڈاکٹر کیوں بنیں “شوق کی خاطر، خوشی حاصل کرنے کے لئے یا پیسہ کمانے کے لئے اور دوسرا کہ آپ نے اپنے بچوں کو کیا کیرئیر سجھایا اور کیا وہ خوشی کا راستہ تھا یا پیسہ کمانے کی راہ “

یہ سوال ہمیں اپنے ماضی میں لوٹنے پہ مجبور کر گئے۔

ہمارے ننھیال، ددھیال کے بزرگوں میں کوئی میڈیکل کے شعبےسے متعلق نہیں تھا۔ آبائی پیشہ زراعت تھا اور ہمارے ابا علم اور کتاب کے شوق میں شہروں کا رخ کر بیٹھے تھے۔ ہم چھ بہن بھائی اور کسی کے ذہن میں ڈاکٹر بننے کا نہ خیال اور نہ ہی شوق، سوائے ہمارے۔

ہمیں یاد نہیں کہ ہم نے کس عمر میں یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ڈاکٹر بننا ہے۔ لیکن بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک یاد یہ ہے کہ ہم گھر آنے والے ہر مہمان کو بڑے فخر سے بتایا کر تے تھے کہ ہم مستقبل کے ڈاکٹر ہیں اور وہ کتابیں تو بہت عرصہ ہماری اماں نے سنبھال رکھیں، جن پہ ننھے منے ہاتھوں نے شکستہ رسم الخط میں جگہ جگہ لکھا تھا

 ” ڈاکٹر طاہرہ کاظمی “

اب یہ تو یاد نہیں کہ اس فیصلے کی بنیاد صرف شوق تھا، خوشی حاصل کرنا تھا یا ایک لڑکی ہونے کے ناطے اپنا آسمان خود تخلیق کرنا تھا۔ لیکن ایک بات تب بھی رخ روشن کی طرح عیاں تھی کہ دولت کمانے کی اندھی خواہش نہ اس وقت تھی نہ اب ہے حالانکہ پدرم سلطان بود کا وجود کہیں نہیں تھا۔

گریجویشن ہوئی اور اب دوست احباب کے مشورے آنا شروع ہوئے۔ کس جگہ پہ کلینک بنایا جائے تو خوب چلے گا اور ذاتی ہسپتال بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لوگ سپیشلائزیش کی طرف کم جاتے تھے اور کلینک بنانا ایک پسندیدہ طرزِعمل سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے یہ سب مشورے ایک کان سے سنے اور دوسرے سے نکال دیے کہ من میں کچھ اور ہی خواب سمائے تھے۔

شادی کے بعد کچھ عرصہ منگلا میں رہنا پڑا۔ فارغ رہنے کی عادت نہیں تھی سو  “پکھراج کی رات” والے گلزار کے شہر دینہ میں ایک پرائیویٹ ہسپتال جوائن کیا۔ مالکان ہمارے کام سےاس قدر خوش ہوئے کہ ہمیں ہسپتال میں پارٹنر شپ کی پیشکش کر ڈالی۔ آپ سوچیے، پچیس سال کی عمر میں ایک ہسپتال کے مالکانہ حقوق۔ لیکن ہم کہاں رکنے والے تھے، دولت شوق اور خوشی کے حصول میں آڑے نہیں آ سکی تھی۔

ایک طویل سفر تھا جس کا راستہ مختلف درجے کے امتحانوں، رات کی ڈیوٹیاں، بے تحاشا پڑھائی، ریسرچ، تھیسس، کانفرسنز اور ورکشاپس سے ہو کے گزرتا تھا۔ ساتھ ہی میں بچے اور گھر بھی سنبھالا جا رہا تھا۔ صاحب فوج میں تھے تو ہر دو سال بعد پوسٹنگ اور نئی جگہ پہ منتقلی کی تلوار بھی سر پہ لٹکی رہتی تھی۔ اور ہم ہمہ وقت زندگی پنجوں کے بل گزارتے تھے۔ اس سارے عرصے میں ہم گریڈ سترہ کے تنخواہ دار تھے اور تنخواہ اس قدر مختصر تھی کہ نہانا کیا اور نچوڑنا کیا والا حساب تھا۔

سات سال کی جان توڑ محنت کے بعد ہمارے ہاتھ میں دو اعلی ڈگریاں اور گود میں دو بچے تھے۔ خوشی سے نہال تھے کہ خوابوں کی تکمیل پائی تھی۔ دولت ابھی بھی خانہ خیال میں نہیں سمائی تھی۔

ہم گوجرانوالہ میں رہ رہے تھے جب ڈائریکٹر ہیلتھ کو معلوم ہوا کہ ان کے علاقے میں ایک ایسی ڈاکٹر پائی جاتی ہے جس کے پاس اپنے شعبے کی اعلیٰ ترین ڈگری ہے اور ایک ہیلتھ سنٹر پہ میڈیکل آفیسر کے طور پہ تعینات ہے۔ فورا ہمیں بلا بھیجا اور مژدہ سنایا کہ چونکہ پورے ڈسٹرکٹ میں ہمارے برابر کی کوالیفیکیشن کسی کی نہیں سو وہ ہمیں ڈسٹرکٹ گائناکالوجسٹ کا مقام عطا کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ ڈسٹرکٹ میں جس قدر اہمیت ڈپٹی کمشنر کی ہوتی ہے وہی ڈسٹرکٹ گائناکولوجسٹ کی ہے۔ سرکاری نوکری کے لوازمات تو ہوتے ہی ہیں، پرائیویٹ پریکٹس بھی آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے اور پیسے کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔

ہم نے بصد احترام عرض کی کہ ہم مانتے ہیں کہ اب ہم بڑی کرسی پہ بیٹھنے کے اہل ہیں اور چھپر پھاڑ کے آنے والی دولت کے بھی۔ لیکن پہلی بات تو یہ کہ ہمیں احمد نگر چھٹہ کے ہیلتھ سنٹر میں کام کر کے بہت مزا آ رہا ہے جہاں ہم روزانہ بیسیوں عورتوں سے ملتے ہیں اور ان کی تلخ زندگی کی کہانیاں سنتے ہیں اور ہمیں ان کے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں خوشی ملتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایسی جگہ پہ رہنے اور زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع پھر نہیں ملے گا۔ مال کا کیا ہے زندگی پڑی ہے کمانے کو۔

ہمیں یاد ہے کہ ڈائریکٹر صاحب کافی دیر عجیب سی نظروں سے گھورتے رہے۔ سوچتے ہوں گے خاتون ضرور ذہنی طور پہ پسماندہ ہیں کہ گھر آئی لکشمی کو ٹھکرا رہی ہیں۔

زندگی کا وہ دور بھی ختم ہوا، دل میں بہت سی یادوں کے خزانے اور آغوش میں تین پھولوں کے ساتھ۔

ہم راولپنڈی پہنچ چکے تھے۔ اب سینئر ڈاکٹر کا رول شروع ہوا۔ ابھی بھی سرکاری تنخواہ تھی، شوق بھی زندہ تھا اور ہم خوش تھے۔ کچھ وقت گزرا۔ یار لوگوں کے اکسانے پہ پرائیویٹ پریکٹس کا سوچا اور دل کڑا کرکے اس دلدل میں پاؤں رکھ ہی دیا۔ کچھ ہی مدت بعد معلوم ہوا کہ پرائیویٹ پریکٹس نامی آزار کو ہم نہیں بھاتے اور ہم ان سے عاجز۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں مال بیچا اور خریدا جا تا ہے، بولی لگائی جاتی ہے، یہ اہل دل کی کہانی نہیں۔

پرائیویٹ پریکٹس کی کہانیاں پھر کبھی بس اتنا جان لیجئے کہ اس حمام میں مریض سے لے کر ڈاکٹر اور ہسپتال کے مالکان تک سب خود غرض اور سفاک ہیں۔

سرکاری نوکری کے اٹھارہ سال گزر چکے، غریبوں کی خدمت بھی اپنی بساط کے مطابق کر چکے، جیب اب بھی خالی تھی لیکن شوق اب بھی ویسا ہی تھا۔ کہانیاں سننے سے اور زخموں پہ پھاہے رکھنے سے ابھی بھی خوشی کشید کی جاتی تھی۔ لیکن اب سرکار سے پیش آنے والی کھٹنائیاں سہتے سہتے طبعیت اوبھ چکی تھی۔ سو سوچا چلئے اور رہیے ایسی جگہ جہاں شوق کی مزید آبیاری ہو سکے۔

ملک سے باہر نکلے،نوکری سرکار ہی کی تھی لیکن رستے آسان تھے۔ علم حاصل کرنے کی چاہ میں مزید دو ڈگریاں حاصل کیں اور اب جیب میں بھی کچھ تھا اور یہ حاصل تھا ہمارے شوق کا۔ یہ وہ فصل تھی جو اس طویل جدوجہد کے بعد خوشی کے ساتھ ساتھ ہماری جھولی میں آ گری تھی۔

بچے بڑے ہو رہے تھے اور ہمارے ساتھ کے سب ساتھی ڈاکٹر اپنے بچوں کو میڈیکل کالج بھیج رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو خواب بننے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ان کو مستقبل میں نوکری کی گارنٹی اور اچھی تنخواہ کی خوشخبری کے ساتھ ڈاکٹر، انجینئر بننے کی راہ پہ دھکیلا گیا تھا۔

لیکن ہم نے وہ کیا جو ہمارے والدین نے ہمارے ساتھ کیا تھا، خواب دیکھنے اور اپنا آسمان دیکھنے کی آزادی!

ہمارے بچوں نے اپنے خواب خود بنے، خود فیصلہ کیا کہ شوق کا تعاقب کر کے خوش رہنا ہے یا دولت کے انبار تلے سسکنا ہے۔ وہ اسی نتیجے پہ پہنچے جس پہ کبھی ہم پہنچے تھے۔

ایک دن باتوں ہی باتوں میں ہم نے چھوٹی بیٹی سے پوچھا ” بیٹا فرض کرو آپ نے اپنے شوق والا کیرئیر اپنا لیا لیکن آپ کے پاس روپے پیسے کی کمی ہوئی تو”

جواب ملا،

‏”I can survive on minimum possible with all my passions. I don’t need a big dream house, big luxurious car, fancy branded clothes or accessories”

آخری بات جان لیجئے، ہم مال و متاع کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں کر رہے، اس کی ضرورت زندگی کے ساتھ ساتھ ہے۔ لیکن صرف اتنا ہی چاہیے جو آپ کو زمین پہ رہنے والوں سے جدا نہ کر دے، آپ کو نمرود و فرعون نہ بنا دے۔

اور یہ بھی سمجھ لیجئے کہ ہر وہ کام جو پورے شوق اور خلوص دل سے کیا جائے اس سے خوشی تو حاصل ہوتی ہی ہے۔ پیسہ بھی بائی پروڈکٹ کے طور آیا ہی کرتا ہے۔ سو اگر دل کی مان لی جائے تو نقصان کا سودا ہرگز نہیں۔

(یاسر پیرزادہ کا کالم سچی خوشی اور خالص بھنگ پڑھ کے لکھا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).