نماز جمعہ، بومبے مارکیٹ اور پان شاپ



امی پان اور سادہ پان کے پتے گھر سے ساتھ لے کر چلی تھیں، وہ ختم ہو چکے تھے۔ سلمان بھائی (بہنوئی) نے ہماری امریکا آمد سے قبل ہی بومبے مارکیٹ ( گروسری اسٹور) فون کر کے پان، اس کے لوازمات اور حلال مرغی، گوشت اور قیمے  کا آرڈر دے دیا تھا۔ بومبے مارکیٹ میں بھارتی اور پاکستانی کھانے پینے کی، وہ تمام اشیا بآسانی دست یاب ہیں، جو بر صغیر کے گھرانوں کی بنیادی ضرورت ہوتی ہیں۔ جو شے دست یاب نہیں ہو، اس کا آرڈر لکھوا دیا جاتا ہے۔

بروز جمعہ پروگرام بنا، کہ نمازِ جمعہ کے بعد بومبے مارکیٹ جائیں گے اور سودا سلف لے کر آئیں گے۔ جب مسجد (سینٹرل الینائے اسلامک سینٹر)  پہنچے، تو پولیس اہل کار جدید گاڑی اور اسلحہ سمیت مسجد کے داخلی دروازے پر چوکس، چہرے پر خیر مقدمی مسکراہٹ لیےکھڑے تھے۔ نماز جمعہ کے خطبے کے لیے کوئی ایک امام مقرر نہیں، کسی بھی قومیت سے دینی معلومات رکھنے والا مقرر خطبے اور امامت کا فریضہ انجام دے دیتا ہے۔ اربانہ شمپیئین میں رہنے والے تمام مسلم گھرانے نماز کی ادائی کے لیے یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں نماز ادا کرنے آتے ہیں اور خوب رونق ہوتی ہے- نماز کی ادائی کے بعد لنچ بھی ارزاں قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر، طلبا اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔

نماز کی ادائی کے بعد، مارکیٹ پہنچے تو اندازہ ہوا، کہ اس مارکیٹ کو منی سپر مارکیٹ کہنا مناسب ہے۔ سبزیاں، پھل، دالیں، آٹا، چاول، پان، کتھا، چونا، تمباکو اور چھالیہ خریدی۔ گوئٹے مالا سے تعلق رکھنے والا لیو دکان میں ملازمت کرتا ہے۔  لیو مرغی اور گوشت کے پیکٹ لے آیا۔ حساب کتاب کے بعد لیو نے گتے کے چورس اور مستطیل ڈبوں میں قرینے سے سامان رکھ دیا اور ڈبے پپو بھائی کی گاڑی میں رکھ دیے۔ پپو بھائی بومبے مارکیٹ کے گجراتی مالک ہیں۔

دوران سفر پپو بھائی نے پاک بھارت تعلقات اور بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کے متعلق بات کی۔ سلمان بھائی کو خاموش دیکھ کر میں نے بھی خاموشی اختیار کی، لیکن اندازہ ہوا، کہ پپو بھائی مودی کے حامی ہیں اور کیوں نہ ہوں، گجراتی جو ٹھہرے؟! گھر پہنچ کر امی کو پان اور دگر چیزیں دیں، چیزیں پا کر امی کی خوشی دیدنی تھی۔ کتھا پاوڈر کی شکل میں تھا۔ امی نے چکھ کر دیکھا اور چکھتے ہی کہا کہ “بہت مزے دار ہے”۔ امریکا میں گھر اور گھر سے باہر جو بھی کھانے پینے کی اشیا کھائیں، ان کا ذائقہ کسی طور پاکستان میں پکنے والے کھانوں سے کم تو کیا، بڑھ کر تھا۔ ہاں! آم اس زمانے میں اس قسم اور ذائقے کا دست یاب نہیں تھا، جو پاکستان میں ہوتا ہے۔

شام کو سلمان بھائی کے قریبی جاننے والے ڈاکٹر عمران کے گھر چائے پر جانا تھا۔ ڈاکٹر عمران کا گھر قریب ہی تھا،. اس لیے پیدل چل پڑے۔ ڈاکٹر عمران کے گھر کے عقب میں جھیل ہے۔ جھیل میں لوگ مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں اور بوٹنگ بھی کرتے ہیں۔ بطخیں اپنے بچوں کے ساتھ جھیل کے اندر تیر اور باہر گھوم پھر رہی تھیں۔ خوب صورت مناظر اور موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، مقرر وقت پر ڈاکٹر عمران کے گھر پہنچے۔ ڈاکٹر عمران سے زیادہ تر باتیں اسٹیل ملز اور وطن عزیز کے خراب سیاسی و معاشی  حالات پر ہوئیں۔ امریکا میں مقیم جس پاکستانی سے بھی ملاقات اور گفت  ہوئی، اس کو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہی پایا۔ کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک، ہر پاکستانی وطن سے بہت محبت کرتا ہے۔ سابق ترجمان وزیر اعلی پنجاب ڈاکٹر شہباز گل یونیورسٹی اور الینائے، اربانہ شیمپیئین میں تدریسی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ ہمشِرہ اور سلمان بھائی سے بھی ڈاکٹر شہباز گل کی شناسائی ہے۔ بہن نے گزشتہ عید الفطر پر ڈاکٹر شہباز گل اور ان کی اہلیہ کے ہم راہ  کھینچی گئی تصویر، واٹس ایپ بھی  کی تھی۔ ڈاکٹر شہباز گل اور ڈاکٹر عمران، وزیر اعظم عمران خان کے اسپورٹرز ہیں۔

جمعے کی شام ہوتے ہی رونق بڑھ جاتی ہے اور شہری میل ملاقات کے لیے رات گئے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ بچے بھی گھر کے باہر کھیل کود میں مشغول ہوتے ہیں اور بڑے گھر کے باہر لان میں کھانے پینے کے اہتمام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ بار بی کیو کرنے کا رواج گھر کے باہر ہی ہے۔  پڑوس کی خاتون بھی اپنی بلی کے ہم راہ گھر کے باہر آرام دہ کرسی پر دراز تھیں۔ میں امی کو لے کر باہر نکلا اور خوب صورت پھول پودے دکھانے لگا۔ پڑوسی خاتون امی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے، گھر کے اندر گئیں اور موبائل لا کر اپنے گھر لگے پرانے پھول پودوں کی تصاویر دکھائیں اور ان کی خصو صیات کے بارے میں بتایا۔

بروز ہفتہ محلے کے اکثر گھروں کے مکین لان کی گھاس کاٹ رہے تھے۔ کوئی اپنی گاڑی، سائیکل یا موٹر بائیک کی مینٹینینس میں مصروف تھا اور کوئی باغبانی اور لان کی صفائی میں مشغول۔ ایک دوسرے کو دیکھ خیر سگالی کے اشارے بھی ہو رہے تھے اور ہلکی پھلکی بات چیت بھی۔ امریکی عموماً کسی کے معاملے میں دخل اندازی سے گریز کرتے ہیں، لیکن اہل محلہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی حتی الامکان مدد کرتے ہیں۔

بعض ٹی وی چینل اور پروگرام ایسے ہوتے ہیں، جو میں ہمیشہ بچوں کے ساتھ دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ مشہور ٹی وی چینل شو “پان شاپ” بھی ہم سب بہت ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ پان شاپ کثیر المقاصد شاپ ہوتی ہے، جو شہریوں کو خریداری میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ ٹی وی چینل پر جو پروگرام دکھایا جاتا ہے، اس میں شہری تاریخی اشیا اور نوادرات فروخت کے لیے پان شاپ آتے ہیں اور فروخت کنندہ اپنی شئے کی ڈیمانڈ بتاتا ہے اور دکان دار فروخت کی جانے والی شئے کی تاریخی حیثیت کا تعین کر کے اپنی آفر دیتا ہے۔ عموماً پان شاپ میں ان اشیا کی خرید و فروخت کی جاتی ہیں، جو تاریخی ہوں یا ان اشیا کا تعلق کسی نام ور شخصیت سے رہا ہو۔ یہ معلوماتی پروگرام ہے، اس لیے ہم سب شوق سے دیکھتے ہیں۔

الینائے ٹرمینل جاتے ہوئے، پان شاپ بھی نظر آئی۔ ایک نظر دکان کے اندر موجود اشیا پر بھی ڈالی۔ جس طرح ٹی وہ شو میں دکان دکھائی جاتی ہے، بالکل ویسی ہی پائی۔ امریکا میں چند ماہ رہ کر یہ اندازہ ہوا، کہ ان کے ٹی وی پروگرام، ڈرامے، سیریل اور فلمیں حقیقت سے انتہائی قریب تر ہوتی ہیں۔ جو تہذیب و ثقافت اور قدرتی مناظر فلموں، ٹی وی سیریز اور ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں، وہ تقریباً حقیقی ہوتے ییں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).