کیا دھرنے اور ایکس ٹنشن میں کوئی تعلق ہے؟


آرمی چیف جناب جنرل قمر باجوہ کی ایکسٹنشن ایسا موضوع ہے جس پر میڈیا میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ کچھ کے پر جلتے ہیں کچھ ازراہ احتیاط خاموش رہتے ہیں۔ لیکن موجودہ ملکی صورت حال کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ بات کی جائے۔ پاکستان کو اس وقت کئی بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کشمیر پر بھارتی مظالم اور مقبوضہ کشمیر پر بھارتی ظالمانہ قبضہ سب سے بڑا چیلنج ہے، ایران اور سعودی عرب تعلقات کی کشیدگی میں بھی ہم برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلاء اور امریکی انتخابات بھی ہم پر کسی نہ کسی شکل میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ تمام دنیا کی نظر میں پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کھٹک رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا دباؤ ہم پر روز بروز بڑھ رہا ہے۔

ملک کی اندرونی صورت حال بھی تشویشناک ہے۔ معشیت اپنے زوال کی آخری حد تک جا چکی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کی زندگی دشوار ہو رہی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیوں میں آئے روز اضافے سے عوام کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ گورننس کے نام پر موجودہ حکومت کی جانب سے ایک تماشا ہو رہا ہے۔ سیاسی انتقام کی پالیسی جا ری ہے اور آئے روز نت نئے مقدمات کی خبر سنائی دیتی ہے۔ اپوزیشن احتجاج کے موڈ میں ںظر آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بپھرے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے بیان نے ن لیگ کا موقف بھی واضح کر دیا ہے۔ ستائیس اکتوبر کو آزادی مارچ کا علان کر دیا گیا ہے۔ ان سب عوامل کو مدنظر رکھ کر سپہ سالار کی ایکسٹنشن کے فیصلے پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی تاریخ بہت اہم ہے۔ یہ آزادی مارچ ایکسٹینشن سے ٹھیک ایک ماہ پہلے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ن لیگ کے ایک طبقہ فکر نے مولانا کو بہت سمجھایا کہ یہ احتجاج اگر مارچ میں نہیں تو کم از کم دسمبر تک موخر ضرور کر دیں۔ بعض حلقے یہ بھی بتاتے ہیں کہ مولانا کی اس دوران کچھ بہت بڑے مقتدر لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی ہےجنہوں نے انہیں ان عزائم سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن شنید یہ ہے کہ مولانا نے اپنے رویے میں کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا ہے۔ ن لیگ کا وہ طبقہ جو مولانا کے پاس آزادی مارچ کے التوا کی درخواستیں لے کر جا رہا تھا ان کی امیدوں پر نواز شریف نے خود پانی پھیر دیا ہے۔ عدالت میں چند لمحوں کی وڈیوز میں انہوں نے وہ پیغام دے دیا ہے جو بہت سے کارکن سننا چاہ رہے تھے اور جس سے بہت سی ن لیگ کی قیادت اجتناب کرنا چاہ رہی تھی۔

مولانا فضل الرحمن کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ کچی زمین پر پاوں نہیں دھرتے۔ اس بات کا سب کو ادراک ہے کہ مولانا اگر چاہیں تو پورے ملک میں پہیہ جام تن تنہا بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جماعت کے مذہبی رنگ کو سیاسی رنگ میں بدلنے کے لیئے انہیں سیاسی جماعتوں کی ہم رکابی درکار ہے۔ لیکن اگر ان کی جماعت کی سٹریٹ پاور کی بات کی جائے تو مولانا ہر شہر میں اپنی قوت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ان کے کارکن ان کے جانثار ہیں ۔ پورے ملک میں پہیہ جام  یا لاک ڈاون کروانا انکے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اے این پی نے بھی مولانا کی کشتی میں قدم رکھ دیا ہے اور آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک لمحے کو تصور کریں کہ مولانا کے ملک بھر میں پھیلے جانثار کارکن ، ن لیگ کا جی ٹی روڈ کا ہجوم  اور اے این پی کے غیور پشتون کارکن اگر سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو ملک کی کیا صورت حال ہو گی۔

کتنے دن اس احتجاج کو برداشت کیا جائے گا۔ اور اسی ہنگامے کے دوران ایکسٹینشن کی تاریخ سر پر آکھڑی ہو گی۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے جس بے طرح اس حکومت کی حمایت کی ہے وہ سہولت ماضی میں کسی بھی حکومت کو میسر نہیں رہی۔ الیکشن سے لیکر میڈیا کی زبان بندی تک ہر وار پہلی دفعہ اسٹیبلیشمنٹ نے اپنے سینے پر سہا ہے اور موجود حکومت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ ایسے میں جب پورے ملک میں کہرام مچا ہوگا تو کیا اسٹیلبشمنٹ حکومت کی پشت پناہی کرے گی یا ماضی قریب کی بساط کے نقشے پر نظر ثانی کرے گی۔ کیا سول اور ملٹری ایک پیج پر رہیں گے یا کتاب سے یہ صفحہ ہی پھاڑ دیا جائے گا؟ اہم سوال یہ ہے کہ جب ملک میں بچہ بچہ حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گا تو کیا اس حکومت کو فخریہ لانے والے اس کی بدترین کارکردگی پر پردہ ڈالیں گے یا پھر اس احتجاج میں غیر جانبدار رہیں گے؟

فرض کیجئے کہ فیصلہ حکومت کی پشت پناہی کا ہوتا ہے تو کیا کوئی نعرہ مقتدر قوتوں کے خلاف بھی لگ سکتا ہے۔ احتجاج کا رخ ان کی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے؟عمران خان کے مستعفی ہونے کے علاوہ بھی کوئی تقاضہ ہو سکتا ہے؟ دوسری صورت میں اگر حکومت کے خلاف اس چارج شیٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس حکومت کو لانے کے لیے جو برسوں کے کشٹ اٹھائے گئے وہ سالوں کی محنت ضائع ہو سکتی ہے۔ بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔

مولانا کا احتجاج اگر زور پکڑتا ہے تو حکومت کی پہلے ہی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ اس وقت حکومت کی لگام کس کے پاس  ہے۔ حکومت کو چلتا کرنا کوئی بہت بڑا مشکل کام نہیں ہو گا ۔ یہ کام کسی بھی لمحے  ایک عدالتی فیصلے سے ہو سکتا ہے۔ اب اگر ارباب اختیار یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ حکومت کا ساتھ ہر قیمت پر دینا ہے تو حالات ناقابل تصور حد تک بگڑ سکتے ہیں۔

ماضی میں بھی ملک گیر احتجاج کو بہانہ بنا کر اس ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی تھی۔ اس وقت کوئی بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن امکانات کا اظہار ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا مولانا اس آزادی مارچ کو ملک گیر تحریک بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ ن لیگ کا ووٹر اپنی پابند سلاسل قیادت کے باوجود سڑکوں پر نکلتا ہے یا نہیں؟ حکومت اس آزادی مارچ کے راستے میں رکاوٹِیں ڈالتی ہے اور تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے یا امن اور صلح کا پیغام دیا جاتا ہے؟ عوام کا احتجاج بڑھ جا تا ہے تو کیا حکومت مستعفی ہوتی ہے یا نہیں؟

یہ سب سوال ابھی تشنہ جواب ہیں لیکن صرف ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر یہ آزادی مارچ اسی شدت سے وقوع پذیر ہو گیا جس شدت سے مولانا دعوی کر رہے ہیں تو ستائیس اکتوبر کے بعد سے کچھ عرصے کے لئے ایک ایک دن اس ملک کی تاریخ کا اہم دن ہو گا۔

شنید یہ ہے کہ مولانا کے آزادی مارچ میں دو بنیادی نعرے ہوں گے ایک کا تعلق کشمیر سے اور دوسرے پر ابھی بات کرنا مناسب نہیں ۔ ہمارے ملک میں حکومتوں کا آنا جانا عام سی بات ہے۔ اس آزادی مارچ میں جو چیز بہت غور سے دیکھنی ہے کہ کیا مولانا کا یہ مارچ ’’ ایکسٹینشن‘‘ کے فیصلے سے کسی سطح پر منسلک ہو سکے گا یا محض چائے کی پیالی میں طوفان ہی ثابت ہو گا؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar