میشا شفیع، علی ظفر کیس میں حتمی فیصلہ ابھی باقی: ’ہراسگی کا شکار خواتین اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر سکتی ہیں‘


میشا شفیع، علی ظفر

اداکار علی ظفر اور گلوکارہ میشا شفیع کے درمیان قانونی جنگ جاری ہے۔

دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہیں تاہم عمومی تاثر کے برعکس اس قانونی جنگ کا ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

علی ظفر نے میشا کے خلاف ایک ارب جبکہ میشا شفیع نے علی کے خلاف دو ارب روپے ہرجانے کے الگ الگ دعوے لاہور کی ایک مقامی عدالت میں دائر کر رکھے ہے۔

پہلے علی ظفر نے عدالت سے رجوع کیا تو جواباً میشا شفیع نے بھی دگنی رقم کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

’میشا شفیع آپ اکیلی نہیں ہیں‘

بات نکل چکی ہے اور یقیناً دور تلک جائے گی۔۔۔

کیا پاکستان میں MeToo# مہم خطرے کا شکار ہے؟

کیس میں کن قانونی پہلوؤں پر فیصلہ ہوا؟

میشا شفیع کی عدالتی جنگ میں نیا قانونی نکتہ اس وقت سامنے آیا جب لاہور ہائیکورٹ نے گلوکارہ کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں گورنر پنجاب کے احکامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

گورنر پنجاب نے میشا شفیع کی درخواست پر محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔ اپیل میں کہا گیا کہ محتسب نے تکنیکی بنیادوں پر گلوکارہ کی درخواست مسترد کی کیونکہ اس معاملے کی شنوائی محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔

پہلے گورنر پنجاب نے اپیل کو مسترد کیا اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور قرار دیا کہ فریقین میں مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں ہے۔

ہراسگی

قانونی ماہر ربیعہ باجوہ کے مطابق میشا شفیع کی درخواست خارج ہونے سے انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ قانونی جنگ دو مختلف فورمز پر لڑی جا رہی ہے (فائل فوٹو)

میشا شفیع کے وکیل کا مؤقف ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد جو ممکن قانونی چارہ جوئی ہو گی وہ کی جائے گی۔

قانونی ماہر ربیعہ باجوہ کے مطابق میشا شفیع کی درخواست خارج ہونے سے انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ قانونی جنگ دو مختلف فورمز پر لڑی جا رہی ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ میشیا شفیع اور علی ظفر کے ایک دوسرے کے خلاف ہرجانے کے دعوے ابھی زیر سماعت ہیں اور ان پر فیصلے کے بعد بھی اپیل کا دروازہ دونوں کے لیے کھلا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق جب تک میشا شفیع اور علی طفر کے تنازع کا حتمی فیصلہ نہیں ہوتا یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج لاہور امجد علی شاہ 26 اکتوبر کو میشا شفیع اور علی ظفر کے ایک طرح کے دو مختلف دعوؤں پر سماعت کریں گے.

تنازعہ شروع کہاں سے ہوا؟

علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان تنازعہ اُس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے ساتھی اداکار پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا اور یہاں سے قانونی جنگ شروع ہوئی۔

پہلے دونوں میں مخالفانہ بیانات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ بات قانونی نوٹسز تک جا پہنچی۔ اپریل 2018 میں علی ظفر نے گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف مبینہ طور پر ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر ایک ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا جس پر ایڈیشنل سیشن جج نے سماعت شروع کی.

میشا

علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان تنازعہ اُس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے ساتھی اداکار پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا

ڈیڑھ برس سے جاری اس عدالتی جنگ میں اب تک ایک جج بھی تبدیل ہو چکے ہیں. ابتدائی طور پر ہرجانے کے اس دعویٰ پر ایڈیشنل سیشن جج شکیل احمد نے سماعت کی. تاہم میشا شفیع نے اُن پر جانبداری کا الزام لگایا جس کے بعد یہ دعویٰ دوسری عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔

گذشتہ ماہ میشا شفیع کے وکلا نے علی ظفر اور ان کے 12 گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کر لی۔ گلوکارہ کے وکلا لگ بھگ تین دن تک علی ظفر سے جرح کی۔

علی ظفر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ وہ می ٹو مہم کے حامی ہیں لیکن اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول اس تمام تنازعہ میں انھیں شدید مالی نقصان ہوا۔ عدالت نے ایک فریق کے بیانات مکمل ہونے کے بعد اب میشا شفیع اور ان کے گواہوں کو طلب کیا ہے۔

میشا شفیع کو دو مرتبہ عدالت نے بلایا لیکن وہ پیش نہیں ہوئیں۔ اُدھر علی ظفر نے اپنے خلاف میشا شفیع کے ہرجانے کے دعویٰ کا جواب داخل کروانے کے لیے عدالت سے مہلت مانگی ہے۔

علی ظفر

علی ظفر اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں

ہراسگی کا قانون کیا ہے؟

کام کی جگہ پر ہراسگی (یعنی ہیرسمنٹ ایٹ ورک پلیس) سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کو روکنے کے لیے قانون متعارف کرایا گیا ہے۔

اس قانون کا بینادی مقصد کام کرنے والی خواتین کو کسی بھی نوعیت کے دباؤ پاک ماحول فراہم کرنا ہے۔

اس قانون میں اُن خواتین کو تحفظ دیا گیا ہے جنھیں تنزلی، نوکری سے نکالے جانے اور ترقی نہ دینے کا خوف دلا کر جنسی طور پر ہراساں کیا جائے۔ قانون کے تحت کام کی جگہ پر کسی خاتون کو ہراساں کرنے والے شخص کو ملازمت سے فارغ کرنے کے علاوہ دیگر سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔

اگر ہراسگی کام کی جگہ پر نہ ہو تو کس قانون کے تحت درخواست دائر ہو گی؟

ماہرِ قانون ربیعہ باجوہ کہتی ہیں کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف ہراسگی کے قانون بلکہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ربیعہ باجوہ ایڈوکیٹ نے محتسب کے فیصلے کا حوالہ دیا کہ اگر محتسب کے روبرو میشا شفیع کی داد رسی نہیں ہوئی تو وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے تحت قانونی داد رسی کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتی ہیں۔

خاتون قانون دان نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت پبلک مقام پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف مقامی مجسڑیٹ کو درخواست دی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ

’خاتون محتسب کی عدم موجودگی میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘

ربیعہ باجوہ کے مطابق کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے معاملے میں ملازم اور مالک کا رشتہ ضروری نہیں ہے بلکہ دو ملازمین کے درمیان بھی اس طرح کا تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق ہراسگی کا شکار ہونے والی خاتون کو قانونی چارہ جوئی کا مکمل اختیار ہے اور اسے بلاتاخیر شکایت کرنی چاہیے۔

ربیعہ باجوہ ایڈوکیٹ نے بتایا کہ کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے والی متاثرہ خاتون کو فوری طور اپنے کسی قریبی ساتھی یا پھر سینیئر کو آگاہ کرنا چاہیے۔

خاتون وکیل کے مطابق متاثرہ خاتون کو اپنے دفتر یا تنظیم میں اس طرح کے واقعہ کیلیے قائم کمیٹی کو تحریری طور شکایت دینی چاہیے۔

ربیعہ باجوہ کہتی ہیں کہ کمیٹی نہ ہونے کی صورت میں خاتون محتسب کو فوری درخواست دینی چاہیے اور اس فورم سے داد رسی نہ ہونے پر پہلے گورنر اور پھر اعلیٰ عدلیہ کا فورم موجود ہے۔ ان کے مطابق خاتون محتسب کی عدم موجودگی میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp