اب وہ پہلی سی چائے کہاں!


چائے کا لفظ زباں پہ آتے ہی گُھلنے لگتا ہے ایک شیریں مٹھاس کی طرح، یوں لگتا ہے چینی میں لپٹی یادوں کی ڈلی زباں پر رکھ دی ہے جو آہستہ آہستہ گُھلے جاتی ہے۔ آج چائے پہ لکھنے بیٹھی تو ماضی کی یادوں کا ہر دروازہ بنا دستک دیے ہی کُھلنے لگا۔ سہیلیاں، دوست، اقربا سردیوں کی وہ صُبحیں اور شامیں جو کہرے میں لپٹی ہوئی چائے کے نازک برتنوں کی کھنک سے مزین تھی وہ سب یاد آیا۔ ظاہر ہے چائے ہر گھر کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ شاذ ہی کوئی ایسا ہو گا جو چائے نہ پیتا ہو اور جو چائے نہیں پیتے وہ عجیب لگتے ہیں، کچھ پُھسپھسے اور پھیکے سے۔

بچپن میں ماں چائے نہیں پینے دیتی تھیں اس کے لیے ان کے پاس مختلف تاویلیں تھیں۔ چائے معدہ جلا دیتی ہے، رنگ خراب کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں تھی کہ شام کی چائے پاپا کے سنگ نہ صرف پیتی تھی بلکہ بنایا بھی کرتی تھی کبھی خراب کبھی گزارا مگر ہر باپ کی طرح پاپا تعریف ہی کیا کرتے تھے۔

ہر سال امتحانوں سے چند روز پہلے چائے اور کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں نیند بھگانے کے لیے سٹنگ اور ریڈ بُل جیسے زہر خند مشروبات تو ہوتے نہیں تھے بس چائے یا بلیک کافی ہی پی جاتی تھی۔ مجھے اپنے بچپن کے گھر کا وہ آنگن جہاں امرود اور آم کے درختوں کے سائے میں بید کی کرسیاں ڈالے گول میز پہ ماں کے ہاتھ کی کڑھائی شدہ میز پوش پہ چائے کے کپ میدے اور سوجی سے بنے ہوئے ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے بسکٹ بھی ہوتے۔ پاس بیٹھی ماں اُون سلائیاں بُنتی رہتی۔ کبھی کبھار میرے مرحوم چاچا جو چائے بہت اہتمام، محبت اور وقت پہ پیتے، وہ بھی چائے پر ہم دونوں کا ساتھ دیتے۔ پاپا چائے کے دوران مجھ سے اخبار میں دیے گئے معمے حل کرواتے اور سیاست پر گفتگو بھی کرتے۔

صبح کی چائے دودھ پتی کی شکل میں بس افراتفری میں پی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ پاپا آفس اور میں سکول کے لیے تیار ہو رہی ہوتی۔ پس منظر میں ریڈیو سیلون پر پرانے انڈین سُریلے گانے چل رہے ہوتے لیکن اب نہ وہ ریڈیو ہے نہ سیلون چینل اور نہ پاپا۔۔۔۔۔ زندگی بے رحم ہے یا موت، آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ہمارے پیاروں کو چھین کر گمنام وادیوں میں لے جاتی ہے اور پیچھے سسکتی مگر میٹھی یادیں چھوڑ جاتی ہے۔

چائے کے ساتھ میری بہت والہانہ یادیں جڑی ہیں۔ اپنے نیشنل کالج آف آرٹس کے دنوں میں دوستوں کے سنگ کبھی کالج اور کبھی  KIMSکی کینٹین پر پی گئی چائے اور خوش گپیاں ذہن کی دیواروں پر بوگن ویلیا کے پھولوں کی طرح تروتازہ ہیں  KIMS کی کینٹین پر ایک ”بانکا“ نام کا بیرا ہوا کرتا تھا ہم سب ہمیشہ اسی سے اپنا آرڈر منگواتے اور پھر اسے ڈھیروں ٹِپ دیا کرتے تھے۔ سارے دن میں کئی مرتبہ اپنے سٹوڈیو میں چائے کے سیٹ منگوایا کرتے اور زمین پر آلتی پالتی مارے گھونٹ گھونٹ وہ رسیلی چائے پیتے۔

چونکہ مجھے ہمیشہ راتوں کو دیر تک پڑھنے اور پینٹ کرنے کی عادت تھی تو ہزاروں دفعہ واٹر کلرز کرتے ہوئے بے دھیانی میں رنگوں سے لتھڑے ہوئے برش کو پانی والے مگ کی بجائے چائے کے مگ میں ڈبو دیا کرتی اور پھر منہ سے بے ساختہ چچ چچ کی آوازیں نکالتی لیکن پینٹنگ اور چائے سے میری محبت ایسی تھی کہ وہی چائے سُڑک جاتی، یہ میں اب تک بھی کرتی ہوں۔

پھر جب میں نے اپنے بڑے بھائی سے ملنے ملکہ برطانیہ کے دیس جانا شروع کیا تو میری بھابی جان نے مجھے انگلش بلیک ٹی سے متعارف کروایا۔ وہ ہر روز صبح اور شام کی چائے میں رنگا رنگ کپ اور چائے دانیاں نکالتیں۔ جانے ان کے پاس کتنے خوب صورت چینی کے برتنوں کا ذخیرہ تھا۔ کبھی وہ بَون چائنہ کی نازک دوہری دم دینے والی گلاب کے پھولوں سے مصور کی گئی چینک میں چائے دم کرتیں جس کے ساتھ خوش ذائقہ انگریزی پیسٹریاں اس کا مزہ دوبالا کرتیں۔ جیسے ہی نرم و نازک کپ لبوں کو چُھو جاتے اور گرما گرم چائے حلق سے اترتی تو ایک گہرے سکوں کا احساس ہوتا۔ چائے کی ہمراہی میں کسی کتاب یا پینٹگ کا ہونا لازمی ہے، ورنہ عشق ادھورا رہ جاتا ہے۔

برطانیہ میں سب سے زیادہ پیے جانے والا مشروب چائے ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چائے برطانوی گوروں کے حواسوں پہ مسلط ہے جونہی شام کے چار بجتے ہیں، انگلیڈ میں چائے پینے کے لیے سب کام رُک جاتے ہیں۔ تقریباً 200 سال پہلے انگلینڈ میں سہہ پہر کی چائے پینے کا رواج پیدا ہوا۔ انگلینڈ میں روایتی طور پر دو وقت کا کھانا کھایا جاتا تھا۔ دن میں کہیں سہہ پہر کے وقت ہلکی بُھوک کا احساس ہوا تو جاگیرداروں کی عورتوں نے ڈبل روٹی پر مکھن جام کے ساتھ چائینز چائے بنائی اور اپنی سہیلیوں کو چائے پہ مدعو کیا۔ ابتدا میں یہ امراء اور پھر عام لوگوں میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی۔

انگلیڈ میں مجھے  William Wordsworthکے قصبے Lake District کی مسحور کن زمین پہ بھی چائے پینے کا کئی مرتبہ موقع ملا۔ وہ زمین جہاں سڑک کے کنارے کنارے میلوں دور تلک جنگلی پُھولوں کا دریا سا بہتا جاتا ہے۔ پوری وادی کو جاتا ہوا راستہ مانو کسی الوہی سکون میں ڈوبا ہو تروتازہ سبز مخملی گھاس سے ڈھکی پہاڑیوں پہ سکوت راج کرتا۔ یہ وادی جہاں Coleridge, William Wordsworth, Ruskin, Beatrix Potter جیسے فنکاروں کا مسکن رہی، وہیں انہی وادیوں میں ڈھلتی شاموں کے سایوں میں وکٹورین طرز کے گھروں سے گزرتے ہوئے Dove Cottage کے نام کے چائے کے ڈھابے پر خوب صورت نازک چائے کی کیتلی جو روایتی انگریزی ٹی کوزی سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ساتھ میں تلے ہوئے بادام، مچھلی اور چپس میرے میاں اور کزنز کا خوش گوار ساتھ۔

جُونہی کیتلی سے چائے پیالیوں میں اُنڈیلی تو لال رنگ کی چائے کا گرتا گرم پانی سماعتوں پہ جلترنگ سی بجا گیا۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے نتھنوں کو چائے کی دلنشین خوشبو سے بھر لیا۔ آج بھی چائے کا وہ کپ یاد آتا ہے تو میرے تخیل میں بادِ صبا، گُلِ اشرفی کے زرد پھول اور پیلے نرگسِ آبی سرسرانے لگتے ہیں۔ دراصل چائے کا ایک کپ اور دوستوں کا ساتھ گپ شپ اور سکون پہنچانے کے لیے ہے۔ مٹی، آب و ہوا، سورج کی کرنیں، بارش، دل، سکونِ قلب ہم آہنگی، وقت کی روانی، احساس، دوست، پانی، آگ اور خوش گوار لمحے مل کر چائے بناتے ہیں۔

اب وہ پہلے سی چائے نہیں ملتی نہ وہ دوست ہیں نہ وہ فرصت۔ شام کی چائے اب دفتر کی میز پر پیتی ہوں، کبھی کام کی مصروفیت میں ٹھنڈی ہو جاتی ہے، کبھی یادوں میں ڈوب کر کڑوی ہو جاتی ہے۔ زندگی عجب راہوں پہ لیے چلتی ہے۔ کالج کے زمانے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میرے خواب ٹوٹ جائیں گے، کینوس روٹھ جائیں گے، میرے رنگوں کی تختی پہ پڑے رنگ سوکھ جائیں گے اور میرے جسم کے پَور پَور میں درد یوں گندھ جائے گا جیسے مجسمہ ساز اپنی چکنی مٹی سے میری شبیہہ ڈھالتے ہوئے دَرد بھی گوندھتا جاتا ہے ۔ گنٹھیا کے مرض نے جوانی میں ہی توڑ ڈالا۔ خود سے چائے بنانا بھی مشکل ہو گیا اور آجک ل کے خانسامے، اللہ کی پناہ! ایسی بدحال چائے پلاتے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کالا گرم پانی پیے جا رہے ہیں اور کبھی دودھ میں کچی سی پتی۔۔۔ ہائے۔۔۔ چائے کا عشق بھی ناکام ہی رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).