امریکی ایشیا پیسیفک اسٹریٹجی اور بھارت


کشمیر میں بھارت جو کر رہا ہے اور دنیا جو چپ سادھے بیٹھی ہے اس کے پیچھے اس کی خارجہ پالیسی ہے اور بھارت کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے امریکہ کی ایشیاءپیسیفک کی حکمت عملی کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ بھارت کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر بھی نظر رکھنی ہو گی کہ بھارت کی وہ کونسی ضروریات ہے کہ جن کی بناءپر وہ بہت تیزی سے امریکی قربت حاصل کرنے کی کوششوں میں سوویت یونین کے انہدام کے وقت سے لگا ہوا ہے۔

یہ امر بالکل واضح ہے کہ بھارت کے اپنے دونوں اہم ہمسایوں یعنی پاکستان اور چین سے تعلقات کسی اچھی راہ پر گامزن نہیں ہیں اور بالکل اسی طرح امریکہ بھی چین سے ایک واضح خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ بھارت کا معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے وہ مشرقی ایشیاءکے اپنے قریبی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے امریکہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ ورنہ چین کے مقابلے میں اس کی حیثیت کو اس ممالک میں تسلیم نہیں کیا جانا۔

امریکہ سوویت یونین کے انہدام کے فوری بعد سے ہی چین کی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔ مگر ابھی اس کے بھارت سے تعلقات کسی ایسی نوعیت تک نہیں پہنچے تھے کہ وہ بھارت کو اپنے کیمپ میں باضابطہ طور پر شامل کر لے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دیے تھے۔ کلنٹن کے دور میں امریکہ میں سرکاری طور پر اس بات کا برملا اظہار شروع ہو گیا تھا کہ بھارت کی دنیا کی 10 ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔

درحقیقت ایسے بیانات بھارت کو دانہ ڈالنے کے مترادف تھے کہ اگر وہ تیار ہو تو امریکہ اس سے کام لینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ کلنٹن کے دور میں ہی ان دونوں ممالک کے درمیان منٹس آن ڈیفنس ریلیشنز پر دستخط ہوئے جو امریکہ بھارت کے موجودہ تعلقات کے لئے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دستخطوں کے بعد دونوں ممالک یہ واضح طور پر محسوس کرنے لگے کہ وہ ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں۔ اس تصور میں چین سے دونوں کی مخالفت ایک مشترکہ پہلو رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔

امریکہ چین کے حوالے سے ان دنوں میں ایک نئی حکمت عملی تیار کر رہا تھا اسی دوران پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد ایسا واقعہ ہواکہ جس سے بھارت نے زبردستی سفارتی فائدہ اٹھایا اور وہ امریکہ کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور وہ کارگل کا بحران تھا۔ کارگل کی غلطی کی وجہ سے امریکہ اور بھارت میں جو برف بھی تک جمی ہوئی تھی وہ پگل گئی اور امریکہ نے واضح طور پر بھارت کی سلامتی کے حوالے سے اپنی حساسیت کا بھر پور اظہار شروع کر دیا۔

کلنٹن نے اگلے سال مارچ 2000 ءمیں پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا جس میں انہوں نے بھارت کو امریکہ کا فطری اتحادی قرار دیا۔ بش کے دور میں معاملات سول نیوکلیئر ڈیل تک چلے گئے مگر اوبامہ کے دور میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ امریکہ بھارت کو ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھ رہا ہے کہ جو اس کے لئے چینی اثر و نفوذ کو روکنے کے کام آئے گا۔ اوباما نے یو ایس دی بیلنسنگ ٹو ایشیاءپیسیفک اسٹریٹجی کا اعلان کیا اور اس حکمت عملی میں بھارت کی خصوصی اہمیت کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا گیا۔ امریکہ سیکرٹری دفاع لیون پینٹا نے 2012 ءمیں ایک بیان دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کا بھارت سے اتحاد چین کو مد نظر رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ

We will expend our military Partnership and our presence in the arc extending from western pacific and east India into the Indean Ocean region and south asia۔ Defence Cooperation with India is a Lynchpin in this strategy۔

لیون پینٹا کے اس بیان کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لئے ہمیں کانگریشنل ریسرچ سروس کی اس رپورٹ کی طرف رجوع کرنا ہو گا کہ جس میں واضح طور پر چین کا نام لے کر ایشیاءپیسفک حکمت عملی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ

The (Pivot) represents a simultaneous attempt to warn China away from using heavy handed tactics against its neighbour and provide confidence to other Asia pacific countries that warn to resist pressure from Beijing now and in the future۔

ان دونوں بیانات کو سامنے رکھا جائے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اور چین ایشیاءمیں مد مقابل ہے اور امریکہ بھارت کو اس ضمن میں ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ ساتھ رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ امریکہ بھارت کی فوجی صلاحیتوں کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکی محکمہ دفاع کی گائیڈ لائن بھی عراق اور افغانستان کی بجائے چین اور ایران کو بڑا خطرہ گردانتی نظر آ رہی ہے۔ مودی کی طبعیت سمابی ہے اس لئے اس نے اس ضمن میں بہت تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا۔

اس سارے معاملے میں فوج کا اہم ترین معاملہ بھارتی بحریہ کا ہے اور امریکہ اس کو بہتر کرنے میں بھارتی اقدامات کا ساتھ دے رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بحری اڈوں کے مکمل استعمال کے معاہدوں کے یا تو قریب ہیں اور بہت سارے معاملات تو طے بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ امریکہ کا یہ ارادہ ہے کہ وہ 2020 ءتک اپنے 60 فیصد بحری طاقت کو ایشیاءپیسفک میں منتقل کر دے۔ بھارت اور امریکہ کی فوجی مشقوں کی تعداد اس ضمن میں بہت بڑھ چکی ہے۔

اس بات کو واضح رہنا چاہیے کہ آبنائے ملاکا چین کے لئے اس کی بحری تجارتی نقل و حرکت کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہ بھارتی جزائر انڈیمان اور نکو بار کے بہت نزدیک ہے۔ جہاں سے بھارت کے لئے اپنی موجودگی کو ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس لئے امریکہ اور بھارت میں یہاں میری ٹائم تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔ آبنائے ملاکا اور گردو پیش میں بھارتی اور امریکی تعاون کو سمجھنے کے لئے تین واقعات کی بہت اہمیت ہے۔ 2002 ءمیں انڈیا نے Operation enduring freedom آبنائے ملاکہ میں امریکی معاوند سے کیا اور جہازوں کو بحفاظت اسکاٹ کیا تھا۔

جبکہ 2004 ءکے سونامی میں دونوں ممالک کی بحریہ نے مل کر کام کیا۔ اس طرح 2006 ء میں Non Combatant evacuation Operation کو لبنان میں سر انجام دیا۔ ان واقعات نے ہی بھارت امریکہ کے تعلقات اور ایشیاءپیسفک میں امریکی حکمت عملی کو ایک رخ دے دیا اور اب یہ رخ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بحر ہند میں یہ دونوں ممالک ڈیجیٹل ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے، جوائنٹ بائیو لوجیکل ڈی ٹیکشن سسٹم موبائل جنریٹرز، نیوکلیئر بائیو لوجیکل وار فیئر پروٹیکشن گیئر جیسے منصوبوں پر مل کر کام کر رہے ہیں۔

یا ان پر گفتگو کر رہے ہیں۔ جبکہ جیٹ کے انجن، ایئر کرافٹ کیریئر ٹیکنالوجی، سی 130 کے پرزوں اور دیگر ہتھیاروں پر کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے بھارت کو 22 Predator sea Guardian Hi۔ tech unmanned Aerial Vehicles دیے ہیں۔ ان کی بدولت بھارت کے لئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ بحر ہند میں چین کی بحری سرگرمیوں کو مانیٹر کر سکے۔ امریکہ کی ایشیا پیسفک پالیسی میں انڈو پیسفک میں استحکام جو اس سے موافق ہو۔

تجارتی مفادات اور شمالی کوریا کے مسئلے کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اس معاملے پر بھی انڈیا نے شمالی کوریا سے اپنے معاملات کو سرد کر لیا ہے۔ مگر چین جو کہ اس کی انسانی ضرورتوں کو بڑے پیمانے پر پورا کرتا ہے پیچھے نہیں ہٹا۔ اس صورتحال نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت اب اس خطے میں مکمل طور پر امریکی پالیسی کو اختیار کرنے پر گامزن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).