حوالاتی نمبر  4266 : چیف جسٹس کے انصاف کا منتظر


مجھے خوش گمانی تھی کہ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان واقعی ایک گہری لکیر کھینچ چکی ہے لیکن اب پتا چلا کہ ضلعی انتظامیہ کی ایک اہلکار، اسسٹنٹ کمشنر جو براہ راست ڈپٹی کمشنر کو جوابدہ ہے، اتنا عدالتی اختیار رکھتی ہے کہ ایک انتہائی معمولی اور قابل ضمانت مقدمے میں کسی کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دے۔ کہاں ہے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان حائل دیوار تفریق یا حد فاصل؟

 اس سوال کی خلش بھی نہیں مٹ رہی کہ اڈیالہ جیل انتظامیہ کے عمومی مثبت رویے کے باوجود وہ کون تھا جس کے حکم پر میرے لیے HSB کی قصوری چکیوں کا انتخاب کیا گیا؟ جیل سے نکل کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے ایک دوست نے اڈیالہ جیل ہسپتال میں تعینات اپنے کسی رفیق کار سے کہا کہ صدیقی صاحب کو ہسپتال میں لے آؤ۔ اس نے کچھ دیر بعد جواب دیا کہ صدیقی صاحب کے بارے میں واضح حکم ہے کہ انہیں ہسپتال کی سہولت نہیں دینی۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ یہ حکم کس جابر شخصیت کا تھا۔

سوالات، اشکالات اور شبہات کے اس گھنے جنگل میں بھٹکتے دو ماہ ہونے کہ ہیں لیکن اب تک راستہ تو کیا کوئی پگڈنڈی بھی نہیں ملی۔ میں اس ناٹک کے سکرپٹ رائٹر، اس کے ہدایت کار، اس کے فنکاروں اور اس کا تجسس بھرا ’ڈراپ سیشن‘ تخلیق کرنے والوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور بدگمانی میری سرشت میں نہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے بے ساختہ اور توانا ردعمل کے باعث حکومت کو ضرور یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ وار اوچھا پڑا ہے۔

 پینتالیس سال قبل چودھری ظہور الٰہی شہید پر بننے والے بھینس چوری مقدمے کی طرح یہ واردات بھی ہماری تاریخ کا ایک نامطلوب ورق بنی رہے گی۔ حکومتی ترجمانوں کے پورے غول کے علاوہ خود وزیراعظم، ان کی ترجمان اور وزیر داخلہ نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ تحقیقات اور تجاوز کے مرتکب پولیس اہلکاروں کے کڑے احتساب کا وعدہ کیا۔ آج تک اس محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔ معلوم نہیں کیا تحقیقات ہوئیں، کیا نتائج سامنے آئے، کس کس کو سزا ملی؟ یہ سب کچھ محض ایک سیاسی کہہ مکرنی تھی؟ اس سارے عرصے کے دوران مجھ سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

مجھے تحریک انصاف کی افتاد طبع، اس کے انداز حکمرانی، اس کے فلسفہ فکر اور اس کی خوئے غضب کے سبب ایسی کوئی توقع نہیں کہ وہ اس معاملے کی دیانت دارانہ جانچ پرکھ کر پائے گی۔ میں اس کے جوان مگر تحیف کندھوں پر بوجھ ڈالنا بھی نہیں چاہتا۔ میرے پاس سینئر وکلا کا ایک وفد یہ تجویز لے کر آیا کہ چونکہ عدالت عظمیٰ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس نہیں لیا اس لیے مجھے انتظامیہ اور پولیس سے تعلق رکھنے والے سرکاری عمال کے خلاف، ان کے ناموں کے ساتھ استغاثہ دائر کرنا چاہیے، جنہوں نے ایک جھوٹی ایف آئی آر کافی اور میری تضحیک و تذلیل کے عمل کا حصہ رہے۔ انہوں نے اس طرح کی ایک دستاویر تیار بھی کر لی ہے۔ میں شش و پنج میں ہوں۔ اپنی ذات کے حوالے سے دیکھوں تو سب کچھ ماضی کی تلخ یادوں والی سیلن زدو کوٹھڑی میں پھینک دینا چاہتا ہوں۔ میں بنیادی طور پر آویزیش و پیکار کا آدمی نہیں ہوں۔ الجھنا میری فطرت میں نہیں۔ میری اپنی نظم کا ایک بند ہے۔

یہ سچ ہے

کہ میں روٹھنے کی جسارت سے محروم ہوں

فیصلے کی گھڑی آ بھی جائے

تو اک نرم خود محتسب کی طرح

گماں اور شک کے سبھی فائدے

دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہوں

اور فیصلے کی گھڑی ٹال دیتا ہوں

میں اپنی ذات کی حد تک ’نرم خو‘ ’محتسب‘ ہی رہنا چاہتا ہوں لیکن دوسری طرف وکلا اور کچھ رفقا کی دلیل یہ ہے کہ قانون کی اس حیاباختہ رسوائی اور انصاف کی شرم ناک تذلیل کو میں اپنی ذات سے ہٹ کر، اس ریاست کی فرومائیگی کے حوالے سے دیکھوں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور جسے ان دنوں ’ریاست مدینہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر اپنے فرائض منصبی سے انحراف کرنے والے اہلکار، احتساب کے شکنجے میں آجائیں تو ممکن ہے، محدود پیمانے پر ہی سہی، اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے۔ اس دلیل میں خاصا وزن ہے کہ معاشرے اسی تراش خراش سے نمو پاتے اور تہذیب کے قرینوں سے آشنا ہوتے ہیں۔

حکومتی رویے سے مایوسی کے باوجود مجھے عزت مآب چیف جسٹس، مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ان ریمارکس سے حوصلہ ملا تھاکہ۔ ”اس واقعہ سے عدلیہ کو سبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ “ ان کے ادبی ذوق کے پیش نظر میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ معروف قول ان کی خدمت میں پیش کیا تھا کہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں، میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔ میں نے مو ¿دبانہ التماس کی تھی کہ ’اگر عزت مآب چیف جسٹس، عدلیہ کی سبکی اور شرمندگی کے محرکات کا سراغ لگا سکیں تو میری ذاتی سبکی اور شرمندگی کا ازالہ بھی ہو جائے گا۔ ”

جناب چیف جسٹس نے اس طرح کی کوئی تحقیق و تفتیش مناسب خیال نہیں کی۔ آج کل ان کی توجہ کا مرکز و محور جھوٹی گواہی کا معاملہ ہے جو بجا طور پر حصول انصاف کے ضمن میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے پاس اب زیادہ وقت تو نہیں لیکن مجھے قوی امید ہے کہ ’جھوٹی گواہی‘ سے فارغ ہوتے ہی وہ جھوٹی ایف آئی آر کے سنگین مسئلے پر ضرور توجہ دیں گے جو کسی طور جھوٹی گواہی سے کم تر مکروہ جرم نہیں۔ شاید اس سے حوالاتی نمبر 4266 کی مجروح عزت نفس کا زخم بھر جائے۔

کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف

آتا ہے کون جرات اظہار کی طرف

(حبیب جالب)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3