حوالاتی نمبر  4266 : چیف جسٹس کے انصاف کا منتظر


اتوار 27 جولائی کی سہ پہر اڈیالہ جیل کی اونچی فصیلوں سے لگی کھڑی تھی اور میں سپرنٹنڈنٹ ثاقب کے دفتر سے اٹھ کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ طاہر کے دفتر میں آ بیٹھا تھا۔ میرے اندر بے چینی کی کوئی ایسی لہر نہیں اٹھ رہی تھی لیکن جیل کا متعلقہ عملہ اس قدر عجلت میں تھا جیسے ان کی دیوار قفس ٹوٹ رہی ہو۔ رہائی کی دستاویز بندی کے دوران مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ جرم و گناہ کے اس شہر ملامت میں میرا نام حوالاتی نمبر 4266 ہے۔

 میں حوالاتی اور قیدی یا سزا یافتہ مجرم کے درمیان فرق سے زیادہ واقف نہ تھا۔ یوں بھی مجھے اس نگری میں قدم رکھتے ہی ’ہائی سکیورٹی بلاک HSB‘ کے جس تنگ داماں سیل میں پانچ دوسرے قیدیوں کے ساتھ جگہ ملی وہ سب کے سب سزا یافتہ تھے۔ کچھ کی اپیلیں چل رہی تھیں۔ ان کے جرائم بھی مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور مجھے قانون کرایہ داری یا دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا جرم بڑا ہی حقیر و بے توقیر سا لگ رہا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر یہ نہیں بتایا کہ درحقیقت میں نے اس جرم کا ارتکاب بھی نہیں کیا۔ یہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ میں اپنے ہم نشینوں کے درمیان کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھنا چاہتا تھا۔

حوالاتی نمبر 4266 کی اس نئی پہچان نے عمر عزیز کے پچھتر سال بعد ایک بے نام سی سرشاری عطا کر دی اور میں اہلکاروں کی چلت پھرت سے بے نیاز اپنی اس نودریافت پہچان سے کھیلتا رہا۔ اب بھی تقریباً روز ہی مجھے قیدیوں کے غول میں بیٹھے حوالاتی نمبر 4266 کی یاد عجب مزا سا دے جاتی ہے۔

اتوا ر کی ہفتہ وار چھٹی کے روز خلاف توقع ضمانت اور یکایک رہائی کا اسرار اب تک نہیں کھلا۔ اس حمام بادگر کا طلسم توڑنے والا کوئی حاتم جانے آئے گا بھی یا نہیں۔ میرے وکیل، حافظ منور اتوار کی چھٹی کا مزا لیتے گہری نیند سو رہے تھے کہ ان کے سیل فون کی گھنٹی بجی۔ صبح تقریباً دس بجے کا عمل تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ صاحبہ کے دفتر سے ان کا ریڈر بول رہا تھا۔ ”حافظ صاحب! جلدی سے میڈم کی کورٹ میں پہنچیں۔ “۔

 حافظ صاحب پریشان ہو گئے کہ اب اور کس ناکردہ گناہ کو فرد جرم میں ڈالا جا رہا ہے؟ وہ جلدی سے تیار ہو کر بھاگم بھاگ عدالت پہنچے۔ انہیں حیرت تھی کہ چھٹی کے دن عدالت کیسے اور کیوں لگ رہی ہے؟ اسسٹنٹ کمشنر اور مجسٹریٹ مہرین بلوچ منتظر تھیں۔ میرے مقدمے کی فائل اور وکلا کی طرف سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست میز پر دھری تھیں۔ یہ درخواست ہفتے کو ہی دائر کر دی گئی تھی جسے پیر 29 جولائی کو سماعت کی تاریخ دیتے ہوئے انہوں نے مجھے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

حافظ صاحب کو بتایا گیا کہ ضمانت منظور کی جا چکی ہے۔ مچلکے بھی تیار ہیں۔ آپ متعلقہ دفتر سے روبکار حاصل کریں اور اڈیالہ جیل پہنچیں۔ حافظ صاحب نے کہا کہ آج کہاں کھلا ہو گا یہ دفتر اور پھر جیل سٹاف بھی چھٹی کے دن کیسے دستیاب ہو گا؟ انہیں بتایا گیا کہ دفتر کھلا ہے۔ عملہ آپ کا انتظار کر رہا ہے اور جیل سٹاف بھی روبکار کا منتظر ہے۔

حافظ صاحب متعلقہ دفتر پہنچے۔ روبکار حاصل کی۔ قاعدے کے مطابق روبکار بردار اہلکار بھی ساتھ ہو لیا۔ گاڑی اسلام آباد کی کشادہ اور چھٹی کے باعث کسی حد تک ویران سڑکوں پر دوڑتی کئی کلومیٹر دور راولپنڈی کی ضلع کچہری کے قریب پہنچی تو سرکاری اہلکار یکایک بولا ”سر جی روبکار پر تو وہ گول مہر لگی ہی نہیں جو بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس کے بغیر تو جیل والے مانتے ہی نہیں۔ “ گاڑی کنارے لگا کر دفتر کو مطلع کیا گیا۔ وہاں سے حکم ملا کہ آپ رکیں نہیں چلتے رہیں۔

 دوسرا آدمی مہر لے کر آپ کی طرف آرہا ہے۔ جیل سے ذرا پہلے گول مہر لانے والی گاڑی آملی۔ روبکار پر مہر ثبت کر دی گئی۔ روبکار کے نزول سے پہلے ہی میری رہائی کی تمام رسمی کارروائی مکمل ہو چکی تھی۔ طاہر نے روبکار سنبھالی اور اس گاڑی تک مجھے الوداع کہنے آیا جو جیل انتظامی دفاتر کے عین باہر کھڑی تھی۔ حوالاتی نمبر 4266 کھلی فضا میں آگیا۔

جمعہ کی شب گرفتاری اور اتوار کی سہ پہر رہائی کے درمیان وقت کے پیمانے کے مطابق کوئی زیادہ فاصلہ نہیں لیکن اس مختصر مدت کے دوران نہ جانے کیسے یہ معاملہ نوع بہ نوع مسائل میں گھرے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ واقعہ تو ایک طرف رہ گیا اس کی کوکھ سے پھوٹتے سوالات نے ایک قیامت سی بپا کر دی۔ چونکہ ہر سوال ایک تشفی بخش جواب مانگتا ہے اس لیے جب عمال حکومت کے لب و لہجہ میں لکنت آگئی اور وہ افلاس دلیل کا شکار دکھائی دینے لگے تو سوالات کی نشتریت بھی بڑھتی چلی گئی۔ اب جبکہ دو ماہ ہونے کو ہیں، میں خود بھی ان سوالات کے گھنٹے جنگل میں بھٹکتا رہتا ہوں۔ بیشتر سوالوں کا تعلق میری ذات سے نہیں، پاکستان کے نظام قانون و انصاف اور اسلوب حکمرانی سے ہے اس لیے جواب نہ ملیں تو بھی ان سوالوں کو مزید زندہ رہنا چاہیے۔ سوال مر جائیں تو معاشرے بہت بے ننگ و نام ہو جاتے ہیں۔

اسلام آباد کی آبادی بارہ لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں بائیس تھانے کام کر رہے ہیں۔ میری گرفتاری پر مامور تھانہ جی الیون مرکز کارمنا پولیس اسٹیشن تھا۔ یہ تھانہ شہر کے نصف درجن کے لگ بھگ ان تھانوں میں شامل ہے جنہیں ’ماڈل پولیس اسٹیشن‘ یعنی مثالی تھانے قرار دیا گیا ہے۔ اس مثالی تھانے کی طرف سے اپنی گرفتاری کے انداز کی تفصیل میں بیان کر چکا ہوں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس مثالی تھانے نے یہ ابتدائی تحقیق بھی کیوں نہ کی کہ یہ گھر کس کی ملکیت ہے؟

 کرایہ دار کون ہے اور اسے گھر میں آئے کتنے دن ہوتے ہیں؟ عرفان صدیقی پر اس گھر کا کرایہ نامہ رجسٹر کرانے کی ذمہ داری کیسے عائد ہوتی ہے؟ اور اگر ہوتی بھی ہے تو ان کے گھر جا کر پہلے ان کا مو ¿قف تو جان لیا جائے۔ میرے بیٹے اور کرایہ دار کے درمیان تحریری معاہدے کے تحت یہ گھر 20 جولائی کو نئے کرایہ دار کی تحویل میں جانا تھا۔ اس کے دو دن بعد نہایت رازداری سے دفعہ 144 کا اجرا کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ کرایہ داروں کے کوائف جمع کرانا لازم ہے۔

(وکلا کے خیال میں اس کے لیے ایک ماہ کی مہلت ہوتی ہے )۔ میری گرفتاری اس خفیہ حکم نامے کے صرف چار دن بعد، 26 جولائی کی شب عمل میں آئی۔ مجھے میرا جرم اس رات کے ڈوبتے لمحوں میں بتایا گیا اور ایف آئی آر صبح دم کٹی۔ کوئی تحقیق کرے کہ ایک ماڈل تھانے اور عام تھانے کے انداز کار میں کیا فرق ہے؟ ڈپٹی کمشنر صاحب کے حکم نامے کا اطلاق صرف ایک شخص عرفان صدیقی پر ہوا یا پھر میرے بیٹے کا گھر کرائے پر لینے والا ایک بڑا بزنس مین، جاوید اقبال بھی اس کی زد میں آیا۔ بارہ لاکھ آبادی کے اس شہر خوش جمال اور بائیس تھانوں میں یہ رتبہ بلند کسی اور کے حصہ میں نہ آیا۔ کوئی ایک بھی شخص دہشت گردوں کے انداز میں پکڑا گیا، نہ اسے ہتھکڑی لگی، نہ اسے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا اور نہ اسے خوفناک مجرموں کے منطقے کی قصوری چکی میں ڈالا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3