بوڑھے شوہر اور دور دور رہتی بیویاں


میں ڈاکٹر ہوں، ایم بی بی ایس میں نے پچاس کی دہائی میں مکمل کیا تھا۔ اس وقت میری عمر اسی سال سے زائد ہے شاید پچاسی کا ہوں گا، اس گھر نما مکان میں اکیلا رہتا ہوں اس لیے ناشتے کے لیے بہت مشکل ہو تی ہے۔ آپ کے بچے میں نے سوال کیا؟ ڈاکٹر صاحب نے نظر اُٹھا کی میری طرف دیکھا اوربولے تم سوچ رہے ہوگئے کہ میری بیگم انتقال کر چکی ہو گی۔ اس لیے میں اکیلا رہ گیا ہوں ایسا نہیں ہے، وہ مکمل صحت مند ہے اور یورپ میں بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔

یہاں میری خاصی جائیداد ہے، زرعی زمین بھی ہے۔ میرا شمار شہر کے امرا میں ہوتا ہے مگر اب تنہائی کھا رہی ہے اور دھیرے دھیرے نگل رہی ہے، لگتا ہے میں اب زیادہ دن کا مہمان نہیں ہوں یہ دنیا اب اپنی اپنی نہیں لگتی۔ ڈاکٹر صاحب نے نظریں میرے چہرے پر جما دیں اور بولے میں نے زندگی میں بہت کمایا تو بہت مگر قریبی رشتوں کا اعتماد نہیں جیت سکا۔

میں اس دور کا ڈاکٹر ہوں جب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی ڈاکٹر نہیں ملتا تھا۔ اب آج کل میں خود ڈاکٹروں کی تلاش میں رہتا ہوں ڈاکٹر صاحب کی آواز میں بے چارگی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ بیماریوں نے آن پکڑا ہے مثانے میں کینسر ہو گیا تھا تو امریکا سے آپریشن کروانا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب بار بار باتوں کو دہرا رہے تھے مجھے محسوس ہوا کہ شاید یاداشت بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے تو میں نے پھر وہی سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ اپنے بچوں اور بیوی کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے یا کم از کم آپ کی بیوی آپ کے یہا ں موجود ہوتی۔

ڈاکٹر صاحب نے پھر میری طرف دیکھا اور منہ سے کچھ نہ بولے میں بھی خاموشی سے ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر گویا ہوئے بیوی اب میرے پاس آنا نہیں چاہتی اور یاد رکھو بزرگی میں یورپ اچھا نہیں لگتا آپ کو وہاں بھی تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ سب اپنے کاموں پر اور بوڑھے افراد باغ کی کیاریوں میں پودوں سے باتیں کرتے ہیں یا بیڈ پر لیٹ کر گھر والوں کی آمد کا انتظار محض اس لیے کرتے ہیں کہ گھر میں کچھ شور ہو تو پتا چلے کہ یہاں کوئی رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس عمر میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے میں نے پھر سوال کیا۔ ادھر ڈاکٹر صاحب کو کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا۔

مجھے کہنے لگے جاؤ فریج سے پانی لے آؤ اور اپنے لیے بھی ڈال لینا جی اچھا میں نے جواب دیا۔ ادھر ڈاکٹر صاحب کی ادھیڑ عمر ملازمہ بھی فرش کو صاف کرتے ہوئے آ گئی جیسے وہ سننا چاہتی تھی کہ ہم آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو پانی دیا۔ پانی کا گھونٹ بھر کر کچھ دیر پانی کو منہ میں گھماتے رہے شاید پانی زیادہ ٹھنڈا تھا پھر بولے بیٹا تمہاری شادی ہو چکی ہے؟

میں نے کہا جی ابھی نہیں تو ساتھ ہی بولے تو پھر یاد رکھو میاں بیوں کو عمر کے ہر حصے میں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وہ ایک بندھن میں آجائیں تو وہ ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ ہاں ایک غلطی میں نے کی ہے۔ میں غصے والا تھا مجھے اپنی باتیں منوانے کا جنون تھا۔ بچوں پر تو اتنا بس چلا نہیں تو رہ جاتی بیگم اس پر میں نے خوب زور چلایا۔ بچے اور بچیاں کو بہترین تعلیم دلوائی اور اب لگتا ہے کچھ زیادہ ہی تعلیم یافتہ ہو گئے جو واپس ہی نہیں پلٹتے۔ ایک اور بات سنو یہ یورپ اور امریکا بھی عجیب ملک ہیں جو جاتا ہے اس واپس ہی نہیں آنے دیتے۔ اب میری بیگم کو ہی دیکھ لو واپس آنے کا نام نہیں لے رہی۔

ڈاکٹر کہیں آپ کی بیگم آپ سے بدلہ تو نہیں رہی میرا مطلب اس وقت تو ان زور چلا نہیں مگر اب وہ آپ پاس نہیں ہیں اور نہ ہی رہنا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے لاٹھی اُٹھائی میں سمجھا مجھے مارنے لگے ہیں مگر ان نے لاٹھی پر اپنا وزن ڈالا کچھ دیر سوچ کر بولے حقیقت کو شاید اس لیے تلخ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سننا اور کہنا مشکل ہو تا ہے۔ بات یہی ہے میں نے جو کیا اب وہ مجھے بھگتنا پڑ رہا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے جب خواتین بچوں کو ڈھال بنا کرخاوند سے اپنی انا کے روندے جانے کا بدلہ لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایسا سب لوگوں کے ساتھ تو نہیں ہوتا میں نے بڑھاپے میں بھی میاں بیوی کا خیال رکھتے دیکھا ہے۔ میرے والد بھی غصے کے تیز تھے مگر وہ خود اور میری والدہ ایک دوسرے کا بھر پور خیال رکھتے تھے ان کی وفات تک تو میں نے والدہ کو کبھی ان کو تنہا چھوڑ کر کہیں جاتے نہیں دیکھا۔

ڈاکٹر صاحب بولے تم ٹھیک کہہ رہے ہو مگر میں بات کر رہا ہوں ایک ایسے کیس کی جہاں ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے اور وہ میری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے اور اب میری نصیحت بھی سن لو خاتون ایک ایسی کہانی ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آئی اور اگر اپنا بڑھاپا سکھ سے گزارنا چاہتے ہو تو کان کھول کر سن لو بیوی کو عزت دینی سیکھو اگر ایسا نہ کر سکے تو بیوی رہے گی تو تمہارے ساتھ مگر دل سے تمہارے ساتھ نہیں ہو گی۔ یہ مخلوق دیکھنے میں تو کمزور ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہی طاقت ور ہوتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ہی دیکھ لو آج میری بیوی اولاد کی وجہ سے طاقت ور اور میں اولا د کی وجہ سے کمزور۔

ڈاکٹر صاحب اب تو مجھے ڈر لگنے لگا ہے، ڈرنا ہی اچھا ڈاکٹر صاحب بولے۔ اچھا مجھے اجازت دیں میں آپ کے ناشتے کا کچھ کرتا ہوں۔ ہاں یار تمہاری بڑی مہربانی اگر ایسا کچھ ہو جائے تو اچھا ہے ویسے تو میرے بھتیجے بھی ادھر ہی ہیں مگر ان سے خیر کی امید نہیں۔ میں جیسے ہی دروازے باہر نکلا تو ادھیڑ عمر ملازمہ میرے انتظار میں کھڑی تھی کہنے لگی مجھے سے ڈاکٹر صاحب کی حالت دیکھی نہیں جاتی مگر ڈاکٹر بھی غصے کا بہت تیز تھا اب ساری تیزی نکل گئی ہے۔ پھر بولی میں کیا بتاؤ ں میرے بھی نو بچے ہیں اور میں بچوں کے ساتھ رہتی ہوں اور شوہر اکیلا ایک کوٹھری میں رہتا ہے وہ بھی غصے والا تھا پر اب بچے بڑے ہوگئے ہیں اور مجھے سے اس کی باتیں نہیں سنی جاتیں، اس لیے کچھ دور کوٹھری میں اکیلا ہی اچھا ہے، میں تیزی سے باہر نکل آیا اب مجھ میں مزید کچھ بھی سننے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ میں نے سر اُٹھا کر اوپر آسمان کو دیکھا مگر زیادہ دیر دیکھ نہیں سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).