پیمرا: کیا الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے نے جیو نیوز پر مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس بند کروائی؟


مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کا اعلان کر چکے ہیں

گذشتہ شب پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس کی لائیو کوریج اس وقت روک دی گئی جب اینکر نے اعلان کیا کہ چینل یہ پریس کانفرنس براہ راست دکھانے سے قاصر ہے۔

جیو نیوز کی اینکر نے اعلان کیا ’جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس اس وقت جاری ہے۔ جیو نیوز یہ پریس کانفرنس اپنے ناظرین کو براہ راست سنانے سے قاصر ہے کیونکہ پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے مولانا فضل الرحمان کی تقریر اور پریس کانفرنس براہ راست نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔’

’اس پابندی کے ہوتے ہوئے جیو نیوز قاصر ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی یہ پریس کانفرنس براہ راست اپنے ناظرین کو دکھا اور سنا سکے۔‘

تاہم بی بی سی نے جب اس سلسلے میں ترجمان پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی محمد طاہر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیمرا نے کسی بھی میڈیا ہاؤس کو ایسی ہدایات جاری نہیں کیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نشریات کی معطلی: ’یہ نہیں پتا چلتا کہ حکم آتا کہاں سے ہے‘

’سیلف سینسر شپ: ’اب جان کی بجائے کام بند کرنے کی دھمکی کافی ہے‘

’پاکستان میں سینسر شپ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘

اسی معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافی محمد ضیاالدین نے کہا کہ اگر جیو کو کوئی ایسی ہدایات موصول نہیں ہوئیں تو جیو کا یہ اقدام کسی بہت بڑے رسک سے کم نہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈان اور جیو گذشتہ کچھ ماہ سے دباؤ میں ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ آج کل کے دور میں جیو ایسا خطرہ مول لے گا۔

سنسر شپ

پاکستان میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں میڈیا پر جاری قدغنوں اور سنسر شپ کے حوالے سے کافی عرصے سے سراپا احتجاج ہیں

انھوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ برس انھوں نے ہیومن رائٹس کمیشن کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کیا تھا جس میں جیو نیوز کے سٹاف ممبرز نے بتایا کہ حکومت ٹوئٹر پر بھی ان کے پیغامات کو سنسر کرتی ہے۔

’جیو نیوز کے عملے نے ہمیں بتایا کہ ٹیلی فون پر سٹوریز اور ہیڈ لائنز تبدیل کی جاتی ہیں، کوئی تحریری ہدایات نہیں آتیں اور یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ یہ ہدایات کس نے دی ہیں لیکن یہ ہدایات براہ راست میڈیا چینلز کے مالکان کو دی جاتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جیو نیوز کے سینئر اینکر سلیم صافی کا مولانا فضل الرحمان کا انٹرویو نشر ہونے سے رکوا دیا گیا تھا اور اس کے بجائے پرانا پروگرام نشر کیا گیا کیا تھا۔

اسی طرح جیو نیوز پر سابق صدر آصف علی زرداری کا پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر کے ساتھ انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

ماضی میں مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز شریف کے جلسوں اور انٹرویوز کو بھی میڈیا پر نشر کرنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ ہم نیوز پر مریم نواز شریف کا اینکر ندیم ملک کو انٹرویو بھی روک دیا گیا تھا۔

پاکستان میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں میڈیا پر جاری قدغنوں اور سنسر شپ کے حوالے سے کافی عرصے سے سراپا احتجاج ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

کل شام سے پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیر بحث ہے، کوئی جیو نیوز کے اس اقدام کو سراہ رہا ہے تو کوئی پیمرا کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا رہا ہے۔

صحافی مبشر زیدی نے لکھا ’جیو نیوز کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کم از کم ناظرین کو بتایا گیا کہ سنسر شپ موجود ہے‘

صحافی طلعت حسین نے لکھا ’عمران حکومت پیمرا کے زریعے اپنے اپنے سیاسی حریف جے یا آئی ایف کی پریس کانفرنس اور بیانات پر پابندی لگوا رہی ہے۔ یہ اشتعال انگیز سنسر شپ ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔‘

صحافی ندیم فاروق پراچہ نے طنزیہ انداز میں لکھا ’پیمرا نے ٹی وی چینلز کو مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس نشر کرنے سے روک دیا اور اس کی جگہ عمران خان کے دھرنے کی پرانی ویڈیوز دکھانے کی ہدایت کی ہے۔‘

میمونہ نامی ایک صارف نے لکھا ’جیو نیوز کی اینکر نے کہا کہ پیمرا کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کی کی براہ راست کوریج پر پابندی کی وجہ سے ہم یہ پریس کانفرنس نہیں دکھا سکتے۔‘

انھوں نے مزید لکھا ’لیکن عمران خان نے امریکہ میں کہا تھا پاکستان میں کوئی سنسر شپ نہیں اور پاکستانی میڈیا برطانیہ سے زیادہ آزاد ہے۔‘

واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف مہم کے سلسلے میں دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

فضل الرحمان کے مطابق ان کی مذہبی و سیاسی جماعت جمیعتِ علما اسلام کے کارکنان اور حامی 27 تاریخ کو مختلف شہروں سے ریلیوں کی صورت میں نکلیں گے اور تین روز بعد 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp