سیرل جمہوریت کیلئے خطرہ نہیں


\"khurram

خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ لوگوں نے اسےخوب مارا پیٹا اور قاضی کی عدالت میں پیش کردیا۔ قاضی نے سزائے موت کی سزا سنا دی۔ معاملہ کسی طرح ہارون الرشید کے علم میں آیا۔ ہارون الرشید نے حکم دیا کہ ملزم کو اس کے روبرو پیش کیا جائے۔ جب اس شخص کو پکڑ کر خلیفہ کے سامنے لایا گیا تو وہ عجیب مفلوک الحال حالت میں تھا، بکھرے بال، ناک اور منہ پہ جما خون، کپڑے تار تار، گریباں چاک۔ ہارون الرشید نے درباریوں کو حکم دیا کہ اسے شاہی حمام لے جا کر غسل دیا جائے اور بہترین خلعت پہنا کر دوبارہ پیش کیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ اس شخص کو شاہی حمام میں غسل دیا گیا۔ خوشبویات سے معطر کیا گیا۔ بالوں کی تراش خراش درست کی گئی۔ بہترین دسترخوان سے سیر کیا گیا اور بہترین پوشاک میں خلیفہ کی سامنے لایا گیا۔ ہارون الرشید کی رگِ ظرافت پھڑکی ہوئی تھی۔ اس کہا جی جناب اب آپ اپنا دعویٰ پیش کریں۔ اس شخص نے کہا دعویٰ کیسا میں خدا ہوں اور بشمول تمہارے تمام دنیا کا مالک ہوں۔ ہارون الرشید نے تخت چھوڑا اور اس شخص کو اپنے تخت ہر براجمان کردیا۔ پھر بولا حضور ہم نااہل، کم نظر، کوتاہ اندیش غلاموں کو آپ کے مرتبے کا ادراک نہیں۔ کوئی ایسا کام کیجئیے کہ ہمیں یقین ہوجائے۔ وہ بلا تامل گویا ہوا ’’لو یہ کونسی مشکل بات ہے۔ تم اپنے وزیرِ اعظم کی گردن اڑا دو میں اسے ابھی زندہ کئے دیتا ہوں۔ وزیراعظم بھی بلا کا بذلہ سنج واقع ہوا تھا، کھڑا ہوا اور دست بستہ جھک کر بولا، ’’حضور میں پہلا شخص ہوں جو آپ کی ربوبیت پہ ایمان لایا۔‘‘

ریکارڈ رہے کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ میں پہلا شخص ہوں جو وزیرِ اعظم ہاؤس کے ترجمان کے بیان پر یقین لایا۔ اور ڈان اخبار اور سیرل المیڈا سے بھی دست بستہ درخواست ہے کہ بھائی آپ لوگ بھی اس پر من وعن ایمان لے آؤ۔ ہائے ہائے کیسا کڑا دفاعی نظام اور جوہری طاقت کا سر چشمہ ہے جو اخبار کی دوکالمی کہانی کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔

مملکتِ خدادا میں صحافتی آزادیوں پہ قدغن کوئی نئی بات نہیں۔ کبھی چھاپے تو کبھی دھمکیاں، اور کبھی کاغذ کی امپورٹ پر ڈیوٹیاں، غرض یہاں کبھی مکمل آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ سیرل المیڈا کے معاملے میں مبینہ طور پر اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے، تین تین دفعہ نیوز اسٹوری کے انکار و ابطال اور اعلی سطح پر ہنگامی صورتحال نے اس جمہوری نظام اور آزادیٔ اظہار کے حق پر کئی سوال  پر کھڑے کر دیئے ہیں۔

میں بہت خوشی کا اظہار کیا کرتا تھا کہ ہم کئی ممالک سے ہزار گُنا بہتر ہیں۔ ہمیں اظہار کی آزادی ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ڈر گیا ہوں۔ یہاں تو بقول شاعر

نہ بُولوں میں تو کلیجہ پھونکے، جو بول دوں تو زباں جلے ہے
سلگ نہ جائے اگر سنے وہ، جو بات میری زباں تلے ہے

میں کمزور انسان ہوں۔ میں مفت میں گمشدگان کی فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ ایک امید تھی کہ اس ملک میں جمہوریت آ گئی ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں اور میرا تعلق ’’پنجاب‘‘ سے ہے۔ چنانچہ مجھے چنداں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

انگریز کہتا ہے: A nod to the wise and a rod to the otherwise

مجھے اس مقولے کی سمجھ آ گئی ہے ۔ میں مؤخر الذکر زمرے میں شمار نہیں ہونا چاہتا۔ نہ ہم صحافی ہیں کہ کم سے کم کوئی طبقاتی یا گروہی حفاظت  ہی ہو۔ ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ ہماری اوقات ہی کیا؟

لیکن کیا اس سے جمہوری نظام کو کوئ خطرہ لاحق ہے؟

کچھ دوست اس معاملے پر بہت پریشان دکھائی دئیے اور انہوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کِیا۔ کچھ کے نزدیک اس موقع پر جب حکومت شدید دباؤ اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے ہی یہ کہانی ’’نازک موڑ‘‘ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کچھ سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے اس کہانی کے ردعمل میں ۳۰ اکتوبر کے دھرنوں میں کسی ’’غیبی امداد‘‘ کی حمایت کے خدشات اور ان کی ممکنہ کامیابی سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ ممکنات کیا ہیں؟

سیرل کا معاملہ ہو یا سائبر کرائم ایکٹ، اشارے اور بیانیے سمجھ میں آرہے ہیں۔ جہاں جمہوریت پسند صحافیوں کے لئیے ’’پٹواری اور لفافہ‘‘ اور دوسرے مؤقف والوں کیلئے ’’حوالدار‘‘ کی اصطلاحات عام ہو چکی ہوں، جہاں ایک ادارہ آئی ایس پی آر اتنی اہمیت اختیار کر جائے،تو بھائی کسی محاذ پر تو تگڑی جنگ کی تیاری تو جاری ہی ہو گی؟ پچھلے تین سال میں رائے عامہ کی اتنی بڑے پیمانے پر ہمواری کی منظم تحریک اور اثرات بھی اگر آپ کو یہ سمجھانے میں ناکام رہیں اور وزیراعظم جو ایک اخباری خبر کی وضاحتیں پیش کرنے کیلیے بوکھلایا ہو، وہاں آمریت نافذ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments