کیا آپ ذہین انسان ہیں؟


ہمارے ہاں لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ کہ ان کے نزدیک ذہین لوگ کون ہیں تو وہ عام طور پر صرف سائنس دانوں کو ذہین سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی طرز فکر اور سائنسی علوم کا ماہر ہونے کی صلاحیتں یا مہارتیں ، ذہانت کی علامتیں ہیں ۔ تاہم پاکستان میں یا پھر دنیا بھر میں لوگ اس سوال کا یہ جواب اس لئے دیتے ہیں کیونکہ سائنسی ایجادات سب کے سامنے ہیں اور ان ایجادات نے ہر ایک کو حیرت زدہ کررکھا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں خاص طور پر یہ بات اب تسلیم کرلی گئی ہے ، کہ سائنس دانوں کے علاوہ کوئی شخص ذہین نہیں ہوتا۔ اس لئے مذہبی لوگ بھی خود کو ذہین ثابت کرنے ، یا پھر relevant ثابت کرنے کے لئے مذہب کو سائنس سے ثابت کرتے ہیں۔ اور آرٹسٹ خود کو سائنس دانوں کے سامنے آرٹسٹ کہتے ہوئے تھوڑا شرماتے ہیں کہ وہ سائنس دان کیوں نہیں ہیں۔

تاہم ذہانت کے سوال کے بعد اگر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ وہ ملکہ ترنم نورجہاں ، مہدی حسن خان ، نصرت فتح علی خان ، تان سین ، فیض احمد فیض ، جان ایلیا، کسی قانون دان، مجسمہ ساز، یا پھر سکوائش کے کھلاڑی جہانگیر خان اور محترمہ شیما کرمانی فیض وغیرہ کو ذہانت کے حامل افراد سمجھتے ہیں یا نہیں؟

تو پہلے سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر ان سب کا جواب ہاں میں ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے دانشور حضرات جو اسی یا نوے کی دہائی میں عقل پسند تحاریک سے متاثر ہوئے ہیں ان کا بھی یہی خیال ہے کہ دنیا میں سائنس دانوں کے علاوہ کوئی ذہانت کا حامل نہیں۔ تاہم دنیا میں صرف سائنس دانوں کو ہی ذہانت کے حامل افراد سمجھنے والوں کو شاید برا لگے مگر عصری سائنس خود اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ ذہانت کے حامل افراد صرف وہ لوگ ہیں جو سائنسی علوم سے وابستہ ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی سائنس کی دنیا سے باہر کسی کی ذہانت کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہے تو وہ خود غیر سائنسی رویے کا مظاہرہ کررہا ہے کیونکہ ذہانت کے سوال کا جواب دینا بھی ایک سائنسی برانچ کا کام ہے اور علم کی اس شاخ کے نزدیک ذہانت زمین پر بسنے والے انسانوں ، افکار ، مذاہب اور ثقافتوں کی طرح رنگا رنگ ہے ، کسی کے اپنے شعبے کے حق میں تشکیل پانے والے تعصبات کی طرح بلیک اینڈ وائٹ ہرگز نہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال اس وقت دنیا میں رائج ذہانت کا وہ ماڈل رائج ہے جسے ملٹی پل انٹیلی جنس کا ماڈل کہا جارہا ہے۔اس ماڈل کو ہم اپنی سہولت کے لئے ذہانت کا رنگا رنگ ماڈل کہہ سکتے ہیں۔ ذہانت کا یہ ماڈل عالمی شہرت یافتہ امریکی نفسیات دان ہاورڈ گارڈنر (1943-) نے پیش کیا تھا ۔

ہم اسے ذہانت کا رنگا رنگ ذہانت کا ماڈل اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ اس سے قبل تاریخ میں جو بھی ماڈل ہمارے سامنے رہا ، وہ بلیک اینڈ وائٹ ماڈل تھا ۔ بلیک اینڈ وائٹ ماڈل اس طرح کہ اس ماڈل میں ایک طرز کی ذہانت رکھنے والوں کو ذہین جبکہ دیگر قسم کی ذہانت رکھنے والوں کو مخبوط الحواس ، جاہل اور راہ گم کردہ سمجھا جاتا تھا۔

 مثال کے طور پر قرونِ وسطیٰ میں کس میں یہ دم تھا کہ کسی کو مذہبی شخصیات سے زیادہ ذہین قرار دے؟ آسمان پر خُدا اور زمین پر اس کے نمائندے۔ ایسے میں فلسفیوں ، آزاد خیالوں ، فنکاروں اور دیگر میدانوں میں مہارتیں رکھنے والوں کو کون ذہین سمجھ سکتا تھا؟ ہم جانتے ہیں کہ یونان میں قد آور فلسفیوں کی آمد سے قبل کس میں دم نہیں تھا کہ وہ کاہنوں اور نجومیوں سے ذہین کسی کو سمجھے۔ یہاں تک کہ سقراط کی ذہانت کا فیصلہ بھی اوریکل آف ڈیلفی نے کیا تھا۔ اسی طرح شاہوں کے دور میں شاہ اور سپہ سالاروں سے ذہین و فطین کون سمجھا جاسکتا تھا؟ یعنی ان ادوار میں ذہانت طاقت کا دُوسرا نام تھی۔

اسی طرح جو لوگ آج بھی کسی ایک شعبے میں ذہانت کا مظاہرہ کرنے والوں کو ذہین جبکہ دیگر شعبوں میں مظاہرہ کرنے والوں کو عقل سے پیدل سمجھتے ہیں ، وہ دراصل ذہانت کے بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کو ماننے والے ہیں۔ ایسے میں جو لوگ سائنس دانوں کے حق میں اس ماڈل کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہ بات بھول گئے ہیں یا سرے سے نہیں جانتے کہ کلیسا کے ہاتھوں ہاپیشیا جیسی خاتون فلسفی یا گلیلیو جیسے سائنس دانوں کو دی جانے والی سزا اس وقت کے لوگوں کو بھی اسی لئے انصاف دکھائی دی ہوگی کیونکہ اس دور میں لوگ ذہانت کے اسی بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کو مانتے تھے اور یوں ان کی نظر میں کلیسا کا ہر فیصلہ انصاف تھا۔ گلیلیو اور ہاپیشیا جیسے کتنے اور ہونگے جن کے اعلیٰ افکار اور خیالات کو محض اس لئے تاریخ میں جگہ نہ مل سکی ہوگی کہ وہ اُس دور میں ذہانت کے طے کردہ معیارات پر پورے نہیں اترتے تھے ۔ سائنس اور آزاد فکر (free-thinking) تو صدیوں سے اس ماڈل کے ہاتھوں پابندیوں کا نشانہ رہی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ سائنس سے وابستہ لوگ بلیک اینڈ وائٹ ماڈل سے گریز کریں تاکہ ہر ایک اپنے میلانات کے مطابق اپنے اپنی ذہانت کا سکہ منواسکے۔

ذہانت یا عقل مندی کے بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کی تباہ کاریوں پر غور کرنے کے بعد اب ہم اس وقت رائج ذہانت کے رنگا رنگ ماڈل پر بات کرتے ہیں لیکن اس سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ ماڈل پیش کرنے والے نفسیات دان ہاورڈ گارڈنر کی مرتب کردہ ذہانت کی تعریف پر ایک نظر ڈال لیں۔

’’ذہانت معلومات کو مسائل کے حل کے لئے ترتیب دینے یا پراسس کرنے یا ایسی مصنوعات بنانے کی اہلیت یا صلاحیت جو ایک ثقافت میں یا اس سے باہر قابل قدر سمجھی جاتی ہوں‘‘۔

ذہانت کی اس تعریف کے مطابق، مسائل پیدا کرنے کی نہیں بلکہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور صرف مشینیں نہیں بلکہ ثقافتی مصنوعات بنانے کی اہلیت بھی اعلیٰ درجے کی ذہانت سمجھی جاتی ہے جو بین الاثقافتی سطح پر قابل قدر سمجھی جائیں۔ ایسی اشیا سے مراد فنونِ لطیفہ کے شاہکار ، جمالیاتی شہ پارے، مصوری کے نمونے، موسیقی ، ناول، شاعری ، گیت اور مجسمے اور دیگر اشیا ہوسکتی ہیں۔

ذہانت کے رنگا رنگ ماڈل کے مطابق ، انسانی ذہانت کی آٹھ مختلف انداز میں اپنا اظہار کرتی ہے ۔ اس ماڈل کے مطابق ذہانت کی پہلی شکل ریاضیاتی یا منطقی ذہانت ہے اور اس طرز کی ذہانت کے حامل افراد میں ریاضی دان ، منطق دان ، سائنس دان ، مفکرین، محقیقین، انجینئرز اور وکالت کے پیشے سے منسلک خواتین و حضرات بھی شامل ہیں۔ جی ہاں وہی وکلا جن کے بارے میں ہمارے ہاں ہم اکبر آلہ بادی کا شعر :

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے

زبان زدِ عام ہے ، جسے بار بار دہراتے ہوئے ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ وکالت اور قانون دانی کے شعبے سے منسلک لوگوں میں کئی قائدین اور عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ آج ہماری دنیا جہاں پر کھڑی ہے ، اس مقام تک لانے میں قانون دانوں کے مثبت کام کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس ماڈل کے مطابق ذہانت کے اظہار کا دوسرا راستہ زُبان و بیان کی مہارتیں ہیں اور ان مہارتوں کے حامل افراد میں شاعر، ادیب ، مقرر اور صحافی خواتین و حضرات شامل ہیں۔ ذہانت کے بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کے افلاس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ہے کہ ذہانت کے اظہار کے اس راستے کا چناؤ کرنے والے عظیم شعرا، لکھاریوں، مقررین اور بہتر دنیا کا خواب دیکھنے والے صحافیوں کے بغیر آج ہم کہاں ہوتے؟

اس ماڈل کے مطابق ذہانت کے اظہار کی تیسری بڑی شاہراہ موسیقی ہے اور اس ذہانت کے حامل افراد میں موسیقار، گلوکار اور یہاں تک کہ موسیقی کی موشگافیوں کو سمجھنے والے باذوق افراد شامل ہیں۔ یہاں پر ایک بات ضروری محسوس ہوتی ہے کہ موسیقی کو اپنی بیش بہا ذہانت کے اظہار کا ذریعہ بنانے والوں کو ذہانت کے بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کی مدد سے اس لئے شرمندہ کیا جاتا رہا ہے کیونکہ موسیقی آدمی میں نرم کرکے، اس میں اُنس جگا کر انسان بناتی ہے جب کہ ایسے انسان عام طور طاقتور اور مفاد یافتہ طبقات کے لئے مفید مطلب نہیں ہوتے۔

ذہانت کے رنگا رنگ ماڈل کے مطابق ذہانت کے اظہار کا چوتھا راستہ جسمانی یا بدنی (bodily) ذہانت ہے اور اس ذہانت کے حامل افراد میں رقاص اور جمناسٹک کے ماہرین وغیرہ شامل ہیں۔ اشکال یا حجم کا تصور کرنے اور اس کی مدد سے اشیا بنانے والے ذہانت کے اظہار کا پانچواں راستہ اختیار کررہے ہوتے ہیں جسے اس ماڈل میں Spatial intelligence کہا جاتا ہے۔ اس طرز کی ذہانت کے حامل افراد میں مجسمہ سازوں اور سول انجینئرز شامل ہیں۔ مظاہرِ فطرت، نباتات اور جنگلی حیات میں بے پناہ دلچسپی رکھنے والے لوگ ذہانت کے اظہار کے چھٹے راستے پر چل رہے ہوتے ہیں۔

اس ماڈل میں ذہانت کے اظہار کا ساتواں اور آٹھواں راستہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ساتوں راستہ انسانی رشتوں کو سمجھنے اور نبھانے کی (interpersonal) ذہانت ہے جس کی بنیاد بہت حد تک جذباتی ذہانت پر ہے اور آٹھواں راستہ اپنی ذات اور اپنے نفس کے عرفان کی (intrapersonal) ذہانت ہے۔

ایسے معاشرے جہاں ذہانت کے بلیک اینڈ وائٹ ماڈل کا راج ہو، وہاں ایک طرز کی ذہانت کے لوگوں کی عزت اور احترام پر اجارہ داری ہوجاتی ہے ۔ جیسے قرونِ وسطیٰ میں ہوا اور وہاں ابھی تک ہو رہا ہے جو قرونِ وسطیٰ سے آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں مذہبی لوگوں اور عسکری طبقات نے ذہانت پر اجارہ داری کی مدد سے لوگوں کا استحصال کرنا شروع کر دیا ۔ ذہانت کے رنگا رنگ ماڈل سے قبل طاقتور اور مفاد یافتہ طبقات یہ فیصلہ کرتی تھے کہ کون ذہین اور کون کند ذہن ہے ۔ اس کے برعکس عصری رنگا رنگ ماڈل نے ہمیں طاقت دی ہے کہ ہم اپنی ذہانت کی خود شناخت کرکے اُسے پروان چڑھا سکیں۔

 اس موضوع پر ویڈیو دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں:


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).