اپوزیشن تحریک کی نئی ، صحافی پر تشدد کی پرانی کہانی


آج کل اہم ترین موضوع گفتگو مولانا فضل الرحمان کا کراچی سے اسلام آباد تک امن مارچ اور ممکنہ دھرنا ہے، مولانا کو اپنی اس ’’جدوجہد‘‘ میں پہلی بڑی کامیابی یہ ہوئی کہ حکومت ’’ مذاکرات‘‘ پر آمادہ ہوچکی ہے۔ جبکہ مولانا نے بات چیت کے لئے بھی استعفیٰ ساتھ لے کر آنے کی شرط لگا دی ہے۔میں اس موضوع پر کچھ نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے پوری طرح مولانا کے شکنجے میں آجانے کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ اس بظاہر ’’بڑی لڑائی‘‘ میں کچھ حصہ ڈالا جائے۔

مولانا کا مارچ کتنا کامیاب رہتا ہے ؟ عمران خان حکومت اس سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے؟ یہ وقت بتائے گا جو سر پر آ چکا ہے۔ دوسری طرف معاشی حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کے حوالے سے پہلے ہی لگ رہا تھا جی کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا یا شام گیا۔ عمران خان مولانا کے مارچ یا دھرنے سے مستعفی نہیں ہوں گے۔ مولانا کے پاس گنوانے کے لئے کچھ بھی نہیں، وہ اپنے دھرنا یا مارچ سے کسی کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں تو وہ ہیں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں۔ بعض لوگ کہتے ہیں مولانا کی تو پہلے ہی کوئی ساکھ نہیں، وہ ساتھ دینے والوں کی ساکھ کوضرور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

باوجود یکہ خود تحریک انصاف کے کٹر حامیوں سمیت اس وقت قوم بد ترین معاشی حالات کے باعث وزیر اعظم سے ناراض نظر آتی ہے۔ مگر قوم بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کی قیادت کو مولانا کی امامت میں نماز پڑھتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ عام لوگ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ مولانا کسی بھی مرحلے پر ’’سمجھوتہ‘‘ کر سکتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر کسی ’’غیبی مدد‘‘ سے مولانا کو کامیابی مل بھی گئی تو کیا ہوگا؟ فرض کریں عمران خان وزارت عظمی سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو کیا اگلے وزیر اعظم شاہ محمود قریشی ہوں گے؟ اگر شاہ محمود قریشی کا خواب پورا ہوگیا تو کہا جائے گا ، مولوی صاحب کے پیچھے شاہ صاحب تھے۔

ایک بات یاد رکھی جانی چاہئے ، جس طرح پیپلز پارٹی بھٹو خاندان اور ن لیگ نواز خاندان کی میراث ہیں ، عین یہی صورتحال پی ٹی آئی کی بھی ہے۔ مائنس عمران خان حکمران پارٹی اپنی موت آپ مر جائے گی اور یہ بات ’’طاقتوروں‘‘ کو منظور نہ ہوگی، کیونکہ تیسری سیاسی قوت آسانی سے نہیں بنی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے منصوبہ پر عمران خان کے بغیر عمل درآمد ممکن نہ تھا، عمران خان کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے’’الیکٹ ایبل‘‘ ہی نمایاں رہ جائیں گے، عمران خان کے خلاف جو کام شاید مولانا فضل الرحمان اکتیس اکتوبر تک بھی انجام نہ دے سکیں وہ ان کی کابینہ کے ایک اہم رکن فواد چوہدری نے انجام دیدیا ہے۔

فواد چوہدری عمران خان کے ساتھی بننے سے پہلے،، اپوزیشن پارٹیوں کے مکمل تربیت یافتہ کارکن رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ملازمتوں کے حوالے سے عوام سے جس لہجے میں بات کی ہے اسے ’’غلطی‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ موصوف نے پندرہ اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں فرمایا ،، بے روزگار لوگ حکومت سے نوکریاں نہ مانگیں، کیونکہ حکومت تو پہلے سے موجود چار سو ادارے بند کرنے پر غور کر رہی ہے، نوکریاں دینا تو حکومت کا کام ہی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس کا مطلب سرکاری نوکریاں نہیں تھا۔ روزگار فراہم کرنا تو حکومت کا کام ہی نہیں ہے، یہ نجی شعبے کا کام ہے۔ حکومت صرف ماحول پیدا کرتی ہے،اگرحکومت نوکریاں دینے لگ گئی تو معیشت تباہ ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر نے اپنی حکومت بننے کے تیرہ ماہ بعد یہ بیان اس وقت دیا ہے جب عوام اس بات پر متفق ہیں کہ،، پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ میں اس ’’نازک بیان‘‘ پر اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کر سکتا کہ اگر عمران خان مولانا فضل الرحمان کے سامنے سرینڈر نہیں کرتے اور مستعفی نہیں ہوتے تو وہ دوبارہ الیکشن کا اعلان لازماً جلد کر دیں گے، دوبارہ الیکشن کا عندیہ انہوں نے اپنی حکومت بننے کے تین ماہ بعد ہی دیدیا تھا، اب تو حالات ہی ان کے لئے موافق نہیں ہیں۔

آج ساغر صدیقی پر کالم لکھنا چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی قلم اکسا کر سیاست کی طرف لے گیا۔ پچھلا کالم صحافی، صحافت اور آزادی صحافت پر لکھا، یہ ایک خشک موضوع ہے۔ خیال تھا قارئین بوریت محسوس کریں گے اور اسے ادھورا چھوڑ دیں گے، لیکن کالم کی اشاعت کے بعد حیران ہوں، روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے لئے تقریباً دو سال سے لکھ رہا ہوں، پچھلے کالم پر جو فیڈ بیک ملا، اس سے میرے کئی اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ سب سے زیادہ ردعمل نوجوانوں کی طرف سے سامنے آیا۔ میں نے کالم کے آخر میں نوٹ لکھا تھا کہ جدوجہد آزادی صحافت کی کہانیاں کبھی کبھار سامنے لایا کروں گا، مگر لا تعداد لوگوں کی جانب سے شدت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب کراچی کے تھانہ بریگیڈ میں آپ کے پانچویں ساتھی عبدالفتاح مرکھنڈ کو’’لا پتہ‘‘ کر دیا گیا تھا تو اس کے بعد کیا ہواتھا؟ کیا وہ دوبارہ آپ کو ملا تھا؟

ہاں! عبدالفتاح مرکھنڈ پانچ دنوں کے بعد سنٹرل جیل کراچی کی اسی بیرک میں ہمارے پاس آ گیا تھا جہاں ہم چاروں اور ہم سے پہلے گرفتار صحافیوں مجاہد بریلوی،محمود شام،موسی جی دیپک،اشرف شاد، قیصر بٹ، ریاض احمد اور حسان سنگرامی کو رکھا گیا تھا۔ مرکھنڈ کا دماغی توازن بگڑ چکا تھا، ہوش و ہواش کھو چکا تھا، کئی دنوں تک تو اسے یہ بھی یاد نہ آیا کہ ہم کون ہیں۔ ایک ہفتہ بعد اس کی حالت سنبھلی تو اس نے’’آپ بیتی‘‘ سنائی ،، تھانہ بریگیڈ میں میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی، کھانا تو دور کی بات پانی تک نہ پلایا گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک بڑی گاڑی میں بٹھایا گیا۔ گاڑی دو گھنٹوں سے زیادہ وقت تک چلتی رہی، میں سمجھ رہا تھا مجھے کسی ویرانے میں لے جاکر ’’مقابلہ‘‘ میں پار کر دیا جائیگا، گاڑی جب کسی نامعلوم جگہ پر رکی تو مجھے آنکھوں پر پٹی سمیت نیچے اتارا گیا۔

’’میزبانوں‘‘ نے تو مجھے سانس لینے کی مہلت بھی نہ دی اور جسمانی تشدد شروع کردیا، لکڑی ہی نہیں لوہے کے ڈنڈوں سے بھی ’’تواضع‘‘ کی گئی، میں کب بے ہوش ہوکر گرا ؟ معلوم نہیں۔۔۔۔ ہوش میں آیا تو پانی پلایا گیا۔ دو روٹیاں اور دال بھی پیش کی گئی لیکن آنکھوں سے پٹی نہ اتاری گئی۔ دس منٹ بعد اسی حالت میں مجھ سے سوالات پوچھے جانے لگے۔ سوال پوچھنے والوں کی تعداد پانچ یا چھ تھی، مجھے احساس ہوگیا کہ سب کا تعلق علیحدہ علیحدہ ایجنسیوں سے ہے۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ تمہیں آزادی صحافت کی اس تحریک میں گرفتاری دینے کے لئے کتنے پیسے دیے گئے۔

ایک ہی سوال سارے تفتیش کار اپنے اپنے انداز میں کرتے رہے، میں انہیں بار بار ایک ہی جواب دیتا کہ صحافیوں سے یکجہتی کے لئے گرفتاری دی،،، میرے جواب پر تھپڑ مارے جاتے رہے۔ پھر مجھے اسی کمرے میں رسی سے الٹا لٹکا دیا گیا، سر کو زمین پر پٹخا کر اوپر پانی پھینکا جاتا رہا، کمر پر ’’چھتر‘‘ مارے جاتے رہے۔ مجھے علم نہیں کہ کتنی بار بے ہوش ہوا اور کتنی بار ہوش میں آیا، رات کے کسی پہر مجھے برف کی سل پر لٹا دیا گیا، سر کے اوپر ہائی پاور کا بلب جل رہا تھا، مجھے یاد نہیں کہ وہ اور کیا کیا پوچھتے رہے اور میں کیا جواب دیتا رہا، مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کب انہوں نے مجھے چھوڑا اور کب میں جیل میں لایا گیا۔۔۔۔ آزادی صحافت کی تحریک میں یہ صرف ایک آدمی کے ساتھ نہیں ہوا، ایسے مجاہدین صحافت کے ناموں کی تفصیل بہت طویل ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).