اسلامی ریاست اور سیکولر ازم: وجاہت مسعود صاحب کی خدمت میں


میرے جیسے کندہ ناتراش کے لیے یہ بہت مشکل اور بڑی جسارت کی بات ہے کہ ان کے کالم کے جواب میں تحریر لکھوں کیوں کہ ان کے سامنے میری حیثیت طفل مکتب کی سی بھی نہیں ہے۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اس صداقت کے قائل ہوں گے کہ نظریات و عقائد کی دنیا میں شخصی عظمت اور بلند قامتی سے زیادہ دلیل کی قوت اور صداقت کو دیکھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں عمومی رجحان یہ ہے کہ اختلاف اپنے ہم راہ طعن و تشنیع، بے ادبی اور بعض دفعہ گالم گلوچ جیسے لوازمات کو بھی لے کر آتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک انتہائی شریفانہ اور مہذب عمل ہے، جوکسی معاشرے کے ارتقاء اور ترقی کا مظہر ہے۔ خود ہماری اپنی تہذیب اپنے درخشاں زمانوں میں اہلِ علم و دانش کے اختلافات سے مزین رہی۔ لیکن یہ لوگ ادب اور حفظِ مراتب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ مثلا امام شافعیؒ، امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں کے بھی شاگرد تھے، اس کے باوجود ان سے متعدد فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے۔ لیکن یہ بھی فرمایا کرتے::

”الناس عیال فی الفقہ علی ابی حنیفۃ“

”لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے پروردہ و محتاج ہیں۔“

ہم جب پاکستان میں سیکولرازم کے نفا ذکی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس کا موازنہ عیسائیت کی بجائے اسلام سے کرنا چاہیے۔ اور مغربی دانش وروں کے مذہب کے متعلق تاثرات اور دین و سیاست کی جدائی جیسے افکار کی بجائے مشرقی مفکرین اور جب پاکستان کی بات ہو رہی ہے تو مسلمان مفکرین کے تصورِ حکومت و سیاست کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

میں مغربی مفکرین کی ژرف نگاہی اور فکری گہرائی کا منکر نہیں ہوں لیکن بات یہ ہے کہ پاکستانی سماج پر ان کےنظریات کلی طور پر منطبق نہیں ہو سکتے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا مفکر بھی اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، جون ایلیاؔ کے بقول دنیا میں کسی ایسے عالمی طریقہء استدلال اور منطق کا کوئی وجود نہیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ ہر مفکر اپنے ماحول، مذہب، پسِ منظر اور اپنے عہد کی سیاسی و سماجی صورتِ حال سے متاثر ہو کر نظریات قائم کرتا ہے۔ اس کے افکار کتنے ہی آفاقی اور عالم گیر کیوں نہ ہوں لیکن وہ علاقائی اثرات سے مکمل طورپر پاک نہیں ہو سکتے۔

مغربی مفکرین کو عیسائیت کا پسِ منظر ملا، وہ ایک ایسی تہذیب کے سائے میں پل جوان ہوئے جس کا بنیادی خمیر یونان اور روم کی مادہ پرست اور روحانیت ناآشنا تہذیبوں سے اٹھایا گیا۔ لہذا یہ ضروری نہیں کہ ایک مغربی مفکر نے مذہب کے متعلق جو رائے قائم کی اور دین و سیاست کی جدائی کا جو مطالبہ کیا ہے، ہم اسے پاکستان کے لیے بھی ناگزیر ثابت کرنے لگیں۔ اس لیے کہ وہ اگر مذہب اور سیاست کی جدائی کی بات کرتا ہے تو وہ حق بجانب ہے۔ اس لیے کہ اس نے عیسائیت کا جمود دیکھا، سیاسی تعلیمات سے اس کی محرومی دیکھی، پھر اس محرومی کا ازالہ کلیسا کی مطلق العنان فرماں روائی کی شکل میں دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ گلیلیو کو ستر سال کی عمرمیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے اور زمین کی گردش کا اعتقاد رکھنے کے جرم میں تین تین سو سائنس دانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ لیکن کیا اسلام کی تعلیمات بھی ایسی ہی ہیں؟ کیا اس کی تاریخ بھی اسی جبر و استبداد سے لبریز ہے؟ کیا اس نے بھی عالمِ دین کو ایسے ہی ناجائز اختیارات دیئے ہیں؟ کیا وہ بھی سیاسی شعور سے ایسے ہی محروم ہے؟ کیا اس کے فرزند بھی مذہبی طبقے سے اتنے ہی بیزار اور متنفر ہیں؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں برما، فلسطین، انڈیا اور کلیسیائی عہد کے یورپ جیسے حالات ہندوؤں، بدھوں، عیسائیوں اور سکھوں کے مذہبی جذبوں کی سیاسی فرماں روائی اور مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اسلامی حکومت بھی اسی جہالت سے عبارت ہو گی۔ بقیہ مذاہب کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہاں تصورِ سیاست و حکومت متشدد مذہبی حلقوں کے تعصب اور عدم برداشت کے رویوں سے لیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی دانش یا فکر کام نہیں کر رہی۔ لیکن اسلامی نظامِ حکومت اپنے پیچھے ایک مکمل تاریخی نمونہ رکھتا ہے۔ اس کے پاس کتاب و سنت اور مسلمان مفکرین کی تجویز کردہ ایک تفصیلی شکل میں موجود ہے۔ جس میں زندگی کے کسی گوشے کو بھی فراموش نہیں کیا گیا۔

ہم رواداری، دنیاوی ترقی اور مذہبی و فکری آزادی کی جو خصوصیات سیکولر ازم میں ثابت کرتے ہیں، اسلام نے ان کی عملی تصویر دکھائی ہے۔ ہم جس فرقہ واریت، تعصب، لسانیت اور ناانصافی و پسماندگی کا رونا روتے ہیں اس کا تعلق پاکستان کے نام کے ساتھ لگے لفظ ”اسلامی” سے نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات سے محرومی اور تربیت سے فقدان سے ہے۔ عزت مآب کالم نگار نے یہ بھی فرمایا کہ سیکولرازم ہی سندھی، پنجابی، شیعہ، سنی اور ہندو مسلم کی کڑیوں کو جوڑ سکتا ہے۔ حالاں کہ اس کے لیے بنیادی شرط برداشت، ایک دوسرے کے تقدسات کا احترام، بھائی چارہ، انسانی ہمدردی اور رواداری ہے جس کا درس اسلام نے اپنے فرزندوں کو بہت پہلے دیا ہے۔

پاکستان کے عوام کی اکثریت کا مذہب سے رشتہ انتہائی گہرا ہے۔ ان کا ضمیر مذہب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔ یہ لوگ بھلے مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں لیکن حکومتی و قانونی سطح پر مذہب کے معاملے میں ہونے والی ادنی سی غفلت کا جواب بھی سینکڑوں شہروں میں احتجاج اور ہڑتال کی صورت میں دیتے ہیں۔ یہاں کے علماء اسلامی دنیا کے باثر ترین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہاں سے اٹھنے والی مذہبی تحریکوں کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔

اگر ہم اتنے شدید مذہبی تعلق کو ختم کرنے، پاکستانی عوام کی نفسیات کو بدلنے اور دلوں میں سیکولر تصورات کو راسخ کرنے کی محنت کریں گے تو مجھے نہیں لگتا کہ پانچ سو یا ہزار سال میں بھی کچھ خاص کامیابی حاصل ہو گی۔ سوائے اس کہ ایک بحث چھڑی رہے گی اور طرفین سے دلائل کا تبادلہ شائستہ و ناشائستہ اسلوب میں ہوتا رہے گا۔ اگر اس کی بجائے ہم صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر جذباتی مذہبی تعلق رکھنے والوں کو اسلام کی حقیقی روشن خیال تعلیمات کی طرف بلائیں گے تو بآسانی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ باقی اگر ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمارا نوزائیدہ سیکولر ازم ختمِ نبوت، ناموسِ رسالت اور دفاعِ صحابہ جیسے حساس مسائل کے متعلق مسلمانوں کے ضمیر کی حساسیت کی کم کر دے گا تو یہ خیال کی شعبدہ بازی کے سوا اور کچھ نہیں ایسا تو آج تک مغرب میں نہیں ہو پایا یہ تو پھر مشرق ہے جس کا خمیر کی شخصیت پرستی اور مذہبی و روحانی عقیدت سے اٹھایا گیا ہے۔

راقم اس سے قبل بھی اپنی تحریروں میں عرض کر چکا ہے کہ ہم فطرت سے لڑنے کی بجائے اگر مرض کی صحیح تشخیص کریں اور مسائل کے حقیقی حل کی طرف متوجہ ہوں تو یہ زیادہ مفید رہے گا۔ لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ہم معاملے کو مزید الجھانے میں ہی اپنی فلاح و بہبود راز مضمر سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).