خیبر پختونخوا اسمبلی: گھریلو تشدد کے مجوزہ بل پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کیا ہیں؟
پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں گھریلو تشدد سے متعلق مجوزہ گذشتہ کئی سال سے اب تک کوئی قانونی شکل اختیار نہیں کرسکا اور اس پر وقتاً فوقتاً مختلف اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔
بل منظور نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ صوبائی اسمبلی میں موجود بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اراکین اس مجوزہ قانون کی چند شقوں کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں اور انھوں نے اس بل پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
ان میں مختلف اعتراضات شامل ہیں، جیسے گھریلو تشدد کی روک تھام کی شقوں میں میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق کی وضاحت کی کمی اور مجوزہ ضلعی پروٹیکشن کمیٹیوں میں خواتین ممبران کا ذکر نہ ہونا۔
کچھ لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ مرد کے خلاف شکایت کے بعد خاتون کیسے اور کہاں رہے گی جبکہ بعض اراکین کا کہنا ہے کہ اس سے خاندانی نظام متاثر ہو گا اور بے راہ روی بڑھے گی۔
یہ بھی پڑھیے
گھریلو تشدد سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
خواتین پر تشدد روکنے کے لیے موبائل ایپ متعارف
’پاکستان میں خواتین کے حقوق میں کوئی بہتری نہیں‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گھریلو تشدد کا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا ہو بلکہ اس بل کا مسودہ پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ دور حکومت میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بل اُس وقت بھی منظور نہیں ہو سکا تھا اور تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں بھی اس پر بحث کی شروعات نہیں ہو سکی ہے۔
نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے گذشتہ ادوار میں بھی اسی نوعیت کے مسودہ قوانین ایوان میں پیش کیے گئے تھے تاہم اعتراضات کے باعث یہ مجوزہ بل قانون کی صورت اختیار نہیں کر پائے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں چند روز قبل صوبائی وزیر قلندر لودھی نے بل پیش کیا تو اس پر اعتراضات سامنے آئے، جس کے بعد اسے ایوان کی سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔
حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کے مطابق اس بل کی بعض شقیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں، اس لیے اسے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جانا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے اعتراضات
جماعت اسلامی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان نے مطالبہ کیا ہے کہ اس مجوزہ بل میں جو شقیں اسلام اور دین کے خلاف ہیں انھیں تبدیل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا میاں بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہو تو قران میں اس کے حوالے سے احکامات موجود ہیں۔
انھوں نے تجویز پیش کی کہ میاں بیوی کے مابین کوئی بھی تنازعہ فی الفور کمیٹی کے سپرد کرنے کے بجائے پہلے مصالحت کے لیے فریقین کے خاندانوں کے پاس معاملہ بھیجنا چاہیے۔
عنایت اللہ کے مطابق اگر خاندان کے لوگ مسئلہ حل نہ کر سکیں تو پھر اس کے بعد اس بل میں ضلعی سطح پر جن ثالثی کمیٹیوں کا ذکر کیا گیا ان کے سپرد کرنا چاہیے۔
اس مجوزہ بل کے آخری پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ خواتین کو جنسی، نفسیاتی اور معاشی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔
جماعت اسلامی کے رہنما عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ اس بل میں سے میاں اور بیوی کے درمیان جنسی تشدد کے الفاظ کو خارج کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ میاں اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق کو جنسی تشدد کے زمرے میں نہ دیکھا جائے اور اس لیے اس نقطے کی یا تو وضاحت کی جائے یا تشدد کے ان الفاظ کو بل سے خارج کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا مؤقف یہی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی تشدد نہیں ہو سکتا۔
انھوں نے کہا ہے کہ میاں بیوی کے رشتے کو جنسی ہراسانی یا جنسی تشدد کا نام دینا درست نہیں ہے۔
اس مجوزہ بل کی شق نمبر 10 میں گھریلو تشدد کے شکار افراد کے لیے دارالامان کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی اس بل کی نہیں بلکہ اس میں شامل متنازع شقوں کی مخالف ہے۔ انھوں نے تجویز ہیش کی کہ ’ایسی تمام شقوں کو اسلام کے مطابق طے کیا جائے گا۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے اعتراضات
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی میاں اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق کے بارے میں مختلف رائے رکھتی ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’یہ ضروری نہیں کہ بیوی سارے دن کام کاج کے بعد شوہر کی جنسی خواہش پوری نہ کرنے پر تشدد برداشت کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میاں اور بیوی کا تعلق پیار اور محبت پر مبنی ہوتا ہے اور جنسی تعلق کے لیے دونوں جانب سے رضامندی ضروری ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اگر بیوی تھکی ہوئی ہے اور وہ شوہر کی جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتی تو اس پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے اراکین کا کہنا ہے کہ اگر ایسی حالت میں تشدد کیا جاتا ہے تو یہ جائز ہے۔
ضلعی پروٹیکشن کمیٹی
مجوزہ بل کی شق نمبر چار میں درج ہے کہ ہر ضلع کی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جس میں یہاں کا ڈپٹی کمشنر، محکمہ صحت اور ادارہ سماجی بہبود کے افسران کے علاوہ ضلعی پولیس کا نمائندہ اور سول سوسائٹی کے چار افراد شامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ ضلع کی سطح پر خواتین کے تحفط کے لیے قائم کمیٹی کے چیئرپرسن اس ضلعی پروٹیکشن کمیٹی کے سیکرٹری ہوں گے۔
نگہت اورکزئی نے کمیٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی سطح پر جو کمیٹیاں قائم ہوں گی ان میں خواتین کی شمولیت کا ذکر نہیں ہے اور مرد حضرات پر مشتمل کمیٹیوں کے سامنے خواتین کو اپنا مؤقف پیش کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔
اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن صوبائی اسمبلی ریحانہ اسماعیل نے کہا کہ اس مسودے میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان کمیٹیوں میں خواتین بھی شامل ہوں گی کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کمیٹیاں مردوں پر ہی مشتمل ہوں گی۔
خاندانی نظام کی بحث
ریحانہ اسماعیل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بل میں بہت سی خامیاں ہیں اور اگر یہ اسی حالت میں قانون بنتا ہے تو اس سے خاندانی نظام بری طرح متاثر ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ اس مجوزہ بل کے مندرجات کے تحت کوئی بھی خاتون اپنے والد، بھائی اور شوہر کے خلاف شکایت کر سکتی ہے اور ایسا کرنا خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنے گا۔
’اپنے گھر کے مردوں کے خلاف شکایت کر کے کوئی خاتون کیسے اپنے گھر میں رہ پائے گی۔ اس سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو گا۔‘
شکایت کرنے والی خاتون کہاں جائِے گی؟
ریحانہ اسماعیل نے کہا کہ اس کے علاوہ اس قانون میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون کو حکومت شیلٹر ہوم یا دارالامان میں پناہ فراہم کرے گی۔
جماعت اسلامی کے رکن عنایت اللہ خان کے مطابق پاکستانی معاشرے میں غربت اور بے روزگاری ہے۔
’حکومت پہلے سے موجود غریب اور بے گھر افراد کی فلاح اور پناہ کے لیے تو کچھ کر نہیں رہی تو ہم کیسے یقین کر لیں کہ اس قانون سے متاثرہ خواتین جو اپنے خاندانوں سے ٹوٹ جائیں گی انھیں پناہ کون فراہم کرے گا؟‘
انھوں نے تجویز دی کہ یہ شقیں ایسی ہیں کہ جن کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
بل منظور ہونا کیوں ضروری ہے؟
اس بل کے مسودے کے مطابق اگر خاتون شوہر کے خلاف تشدد کی شکایت درج کراتی ہے اور وہ ثابت ہو جاتا ہے تو شوہر کو تین ماہ قید اور تیس ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ اگر خاتون جھوٹ پر مبنی شکایت درج کراتی ہے اور ایسا ثابت ہو جاتا ہے تو خاتون کو پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان کسی بھی تنازعے کی صورت میں شوہر کو بیوی کی سلامتی کی ضمانت دینا ہو گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عورت فاؤنڈیشن کی مقامی سربراہ شبینہ ایاز کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اس بل میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔
انھوں نے کہا بنیادی طور پر یہ بل گھروں کے اندر ہونے والے تشدد کے بارے میں ہے اور یہ صرف خواتین کے حوالے سے نہیں بلکہ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن پر تشدد ہوتا ہے۔
شبینہ ایاز کے مطابق یہ بل دیگر صوبوں میں منظور ہو چکا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں نہ صرف اپوزیشن جماعتیں بلکہ حکومت بھی اس بل کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بل خاندانی نظام کو متاثر نہیں کرے گا بلکہ اسے بہتر کرنے کے لیے ہے۔
’اس بل کے قانون میں بدلنے سے گھریلو تشدد کے واقعات کی روک تھام ہو گی، بچوں کو گھر میں زیادہ بہتر ماحول ملے گا اور گھر کے سب افراد کو بنیادی حقوق دستیاب ہوں گے۔‘
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).