نریندر مودی کے نام خانہ بدوش کا خط


شروع اُس ذات کے نام سے جو دو جہانوں کا بادشاہ ہے۔

آپ کو ہندوستان کی بادشاہی دوسری مرتبہ مبارک ہو۔ پہلی مرتبہ ایک بکرا لے کر مبارک باد دینے آیا تھا۔ لیکن محل کے دربانوں نے بکرا لے کر مجھے اندر جانے نہیں دیا۔ سُرخ رنگ کا بربری بکرا۔ ویسا ہی بڑے سینگوں، اونچی گردن اور بڑے سینے والا جوان، جس نے بچپن میں آپ کو ٹکر ماری تھی، جب آپ ہماری زرد رنگ کی گائے کے آگے پرنام کئے کھڑے تھے۔

وہ گجرات میں ہمارا پہلا دن تھا۔ جب ہم آپ کے پتا جی کے چائے والے اسٹال کے پیچھے میدان میں پڑاﺅ ڈال رہے تھے۔ جب تک گجرات میں مسلمانوں کو مویشیوں کی طرح ذبح نہیں کیا گیا تھا۔ ہم ہر سال وہاں سومناتھ کے میلے میں مویشی فروخت کرنے آیا کرتے تھے۔ ابا جی سے آپ کے پتا جی کی دوستی بکری کے دودھ کی وجہ سے تھی۔ جو اُن دونوں کو بہت پسند تھا۔ شاید گاندھی جی کی وجہ سے۔ کیونکہ آپ کے پتا جی اُن کے بڑے نام لیوا تھے۔لیکن آپ کی شرارتوں کی وجہ سے چونکہ آپ کی بہت پٹائی کیا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے اسی وجہ سے آپ اُن ڈنڈے برداروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ جو بڑے فخر کے ساتھ خود کو گاندھی جی کے قاتل کے ساتھ جوڑتے تھے۔

مودی جی ! ہوسکتا ہے آپ اتنے بڑے تخت پر بیٹھ کر مجھے بھول گئے ہوں۔ مگر وہ بربری بکرا کیسے بھول سکتے ہیں آپ۔ جس نے ٹکر مار کے دور اچھال کے پھینکا تھا۔ چیخیں نکل گئی تھیں آپ کی۔ ابّا نے جلیبیاں لا کر دی تھیں اور اماں نے ٹکور کیا تھا آپ کا۔

صاحب، آپ وہ ہلدی کے رنگ والی گائے کیسے بھول سکتے ہیں جس کو ماتا جی بول کر پرنام کیا کرتے تھے۔ ابّا کے استنجا والے لوٹے میں جس کا پیشاب بھرکر ساتھ لے جاتے تھے آپ۔ بالکل ویسی ہی تین گائے کھڑی ہیں اس وقت میرے سامنے اُسی کی اولاد ہے۔ پرنام آپ کی جانب سے۔

مودی جی۔ جب آپ پہلی مرتبہ ہندوستان کے بادشاہ بنے تو ایک شہری بابو نے موٹی سی گالی دے کر بولا تھا ” کہ یہ بہن۔۔۔۔ سارے ہندوستان کو ٹوپی پہنا دے گا“۔ ہمیں بہت بُرا لگا۔ ایک تو آپ کی دوستی اور دوسری یہ کہ ٹوپی پہنانا تو عزت کی بات ہوتی ہے۔ آپ ہماری طرح جھگی جھونپڑی کے پیدائشی ہیں۔ اپنے جیسے غریب غربا کو عزت دے رہے ہیں تو ان شہری بابوﺅں کی سلگ رہی ہے۔ لیکن بعد میں جب لوگوں سے سنا کہ آپ تو سرمایہ داروں کو پگڑیاں پہنا رہے ہیں اور اُن کے ہاتھوں سے ہار پہن رہے ہیں جو ان غریبوں کا خون چوستے ہیں۔ تب اُس شہری بابو کی گالی ہماری سمجھ میں آئی۔

خیر قصور آپ کا بھی نہیں ہے۔ اس بار سنا ہے کہ ساری دنیا میں ایسی ہی ٹوپیاں تقسیم کرکے لوگ بادشاہ بنے ہیں۔ ترقی، خوشحالی اور تبدیلی کی خیالی ٹوپیاں پہن کر اُن کے بھوکے پیٹ اور ننگے پاﺅں والی عوام مست ہے تو خدا اُنہیں ایسے ہی خوش رکھے۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔ ہم تو سیاست میں نہ ریاست میں۔ ہماری دنیا تو وہ زمین ہوتی ہے جس پر ہم اپنی جھونپڑیاں لگا کے کچھ دن رہتے ہیں۔ پھر اللہ اللہ خیر سلّا۔ ہاں مگر اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ اس بار بڑی عید پر ہمارے آدھے مویشی منڈیوں سے بنا بکے واپس آگئے۔ پاکستان میں پیسے کی تنگی ہے اور ہندوستان میں آپ کے ”سجنوں “کی تنگی کی وجہ سے۔ جنہوں نے ہر مویشی سے اپنا کوئی نہ کوئی رشتہ جوڑ رکھا ہے۔ ذبح کرنے سے پہلے سومرتبہ ادھر اُدھر دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ہماری بِکری کیا خاک ہو گی۔

اب ایک اچھا موقع ہاتھ لگ رہا ہے۔ اسی کے لئے پاکستان جا رہے ہیں۔ اور اس وقت یہاں ٹِٹوَل کے پہاڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لائن آف کنٹرول سے بس اتنی دور کہ جب آپ کے بہادر سپاہی دوسری طرف کے مویشیوں پر اپنا نشانہ ٹھیک کرنے کے لئے فائر کرتے ہیں تو ادھر ہمارے مویشی گھبرا کر بھگدڑ مچا دیتے ہیں۔ ویسے تو ہم راجستھان کے راستے سرحد کے پار آتے جاتے رہتے ہیں۔ کیسے۔؟ آپ پردھان منتری ہیں۔ آپ کو یقینا پتہ ہوگا۔ لیکن غریب پروری کرتے ہوئے چشم پوشی کرتے ہوں گے۔ پیٹ تو پہرے داروں کے ساتھ بھی لگا ہوتا ہے نا۔

 اس بار ادھر کشمیر کے راستے سے اسلام آباد جانے کا ارادہ باندھ بیٹھے ہیں۔ سنا ہے وہاں آزادی کے نام پر کوئی مارچ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں 72 سال بعد کس سے آزادی مانگ رہے ہیں۔ اب تو وہاں ہندو کی سرکار ہے نہ انگریز کی۔ ہوسکتا ہے وہاں بھی کسی نے آپ کی طرح کرفیو نافذ کردیا ہو۔ چلیں جو بھی ہے۔ ہمارے لئے تو منڈی لگ رہی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے عمران خان کے دھرنے میں یار لوگوں نے بیمار لاغر چھوٹا بڑا ہر طرح کا مویشی اچھے نرخ پر نکال دیا۔

آزادی مارچ کا سوچ کر مجھے بھی آپ کے لئے ڈر لگ رہا ہے مودی جی۔ پتہ نہیں ادھر کشمیر پہ کیا سوچ کر آپ نے چڑھائی کردی۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے سادہ وردی والے یا تو اندھے ہیں یا پھر کسی بڑے پھڈے میں پھنسا رہے ہیں آپ کو جو جھوٹی خبریں پہنچا رہے ہیں۔ آپ تک تو اس طرح کی خبر پہنچ رہی ہوگی کہ کشمیر میں اکا دکا پھڈا ہو رہا ہے۔ دوچار شرپسند ہیں۔ دس بیس پتھر باز لونڈے لفنگے ہیں۔ یا سو پچاس جذباتی نعرے باز۔

 ایسا نہیں ہے مودی بھائی ایسا بالکل نہیں ہے۔یہ جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے۔ میرا مطلب ہے پتھر بازی۔ ڈنڈے بازی۔ نعرے بازی۔ یہ تو دھواں ہے جو دور سے اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اصل آگ تو وہ کشمیری ہے جو اپنی خاموشی سے آپ کی بنیادیں کھوکھلی کر ہا ہے۔ وہ پتھر اٹھاتا ہے نہ ڈنڈا، نہ بندوق۔ وہ کچھ نہیں کر رہا۔ کچھ بھی نہیں۔ دکاندار اپنی دوکان کھول رہا ہے نہ تھڑے والا بازار لگارہا ہے۔ نہ رکشہ ٹیکسی اور بس والا سڑک پہ آ رہا ہے۔ نہ افسر، بابو دفتر جا رہا ہے۔ نہ مزدور دیہاڑی لگا رہا ہے، نہ بچے اسکول جا رہے ہیں۔ اب اُس نے آپ پر اپنا کرفیو لگا دیا۔ آپ کی پابندی کے جواب میں اُس نے نافرمانی شروع کردی۔ آپ نے کچھ دنوں کے لئے اُس کے دروازے کو آگے سے کنڈی لگائی تو اُس نے ہمیشہ کے لئے پیچھے چٹخنی چڑھا دی۔ آپ نے کرفیو ہٹا دی۔ اس نے اپنی ہڑتال شروع کردی۔ ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں مودی بھائی۔ ڈنڈے مار، بندوق بازوں سے بھی زیادہ خطرناک۔ یہ بھوک، سختی اور تکلیفیں خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔ یہ وہ خاموش مجاہد ہیں۔ جن سے آپ کسی بھی ہتھیار سے نہیں لڑ سکتے۔ ان کی خاموشی کشمیر کو وہ قبرستان بنا دے گی جس میں صرف آپ کے سپاہی نہیں، آپ کا وجود بھی دفن ہو جائے گا۔

مودی جی آپ کو کتنا دکھ تھا۔ سومناتھ پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے غصے سے زمین پر مکا مارتے تھے۔ اور کیسی جھاگ نکلتی تھی آپ کے منہ سے، جب محمود غزنوی کا نام لیتے تھے۔ آپ اُسی سے سبق لے لیں۔ نہ کشمیر کو سومناتھ بنائیں اور نہ خود محمود غزنوی بننے کی کوشش کریں۔ ورنہ آپ کی سمادھی کا انجام بھی وہی ہوگا جو محمود غزنوی کے مزار کا ہو رہا ہے۔ اُس کے پہلو میں اُس کے اپنے بھائی برسوں سے آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ اگر آپ کو واقعی ہندستان سے محبت ہے تو کشمیر سے پیچھے ہٹ جائیں۔ یہ ایک مخلص دوست کی دست بستہ صلاح ہے۔ باقی آپ کی مرضی آپ بادشاہ ہیں۔ جو چاہیں کریں۔

لگتا ہے، بات لمبی ہوگئی، کچھ کڑوی بھی اور کچھ سخت بھی۔ مگر وہ دوست ہی کیا جو دوست کو اُس کی خامیاں نہ بتائے۔ ورنہ ہم نے تو بس اتنی سی عرض کرنی تھی کہ آپ اپنے سپاہیوں سے کہہ کر ہمارا راستہ کھلوا دیں۔ تاکہ ہم اُدھر نکل جائیں۔ ادھر بہت سختی ہے، آپ کے حکم کے بغیر نہیں ہو گا۔ باقی پاکستان کی طرف سے آپ بالکل مت ڈریں۔ آزادی کے نام پر فی الحال وہ لوگ آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔

آپ کے تخت و تاج و سلامتی کا دُعاگو

عبداللہ خانہ بندوش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).