مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ: ’وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے‘، حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے واضح کردیا


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے پر وزیر اعظم عمران خان کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے۔

سنیچر کو حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے وزیر تعلیم شفقت محمود کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس مطالبے کا مطلب چڑھائی کرنا ہے، جس پر حکومت ایکشن لے گی۔

واضح رہے کہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 31 اکتوبر کو حکومت کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس احتجاج کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔

پرویز خٹک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دھرنے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وزیر اعظم عمران خان کی علماء سے تعاون کی اپیل

’حکومت مستعفی نہ ہوئی تو اکتوبر میں آزادی مارچ ہوگا‘

’مولانا فضل الرحمان کا ایجنڈا، سیاسی ایجنڈا نہیں ہے‘

انھوں نے کہا ’ہمیں فکر پاکستان کی ہے۔‘

البتہ وزیر دفاع نے گذشتہ حکومت کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تحریک انصاف کے 126 دنوں کے دھرنے کا دفاع کیا ہے۔

انھوں نے تجویز دی کہ اگر اپوزیشن کے پاس عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کوئی ثبوت ہیں تو اس مقصد کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کے سامنے دھاندلی کا ریکارڈ لائیں۔

’حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے‘

پرویز خٹک نے کہا کہ ہماری نیت اچھی ہے، وزیر اعظم نے نیک نیتی سے کمیٹی بنائی ہے۔

’ہم مذاکرات اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ہم بات چیت کے لیے پیدل چل کر جانے کو بھی تیار ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ہر پارٹی کے سینیئر رہنماوؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمیں اچھا رسپانس مل رہا ہے۔

تاہم پریس کانفرنس میں انھوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے متعدد بار رٹ بحال کرنے، ایکشن لینے اور قانون حرکت میں آنے جیسے الفاظ استعمال کیے۔

جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی پریس کانفرنس میں دھمکیاں نظر آتی ہیں تو پرویز خٹک کا جواب تھا ’دھمکی کہاں دی ہے، میں نے کہا قانون اپنا رستہ خود لے گا۔‘

پرویز خٹک نے کہا ’ہم نے سب کو اپنا پیغام پہنچایا ہے کہ آئیں آ کر میز پر بیٹھیں، مذاکرات کریں، اب ان کی (اپوزیشن) زمہ داری ہے۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، ساری زندگی جلسے جلوس دیکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے دھرنے کے دوران کنٹینر میں بیٹھ کر بھی مذاکرات کیے ہیں۔‘

انھوں نے اپوزیشن سے درخواست کی ہے کہ کوئی ایشو ہے تو آ کر بات کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو کم ازکم ہم اپنا فرض ادا کرچکے ہوں گے۔

اپوزیشن

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شرکت سے متعلق مسلم لیگ ن بھرپور شرکت کا فیصلہ کیا ہے

وزیر دفاع نے کہا کہ پنجاب کے سپیکر پرویز الہیٰ او بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال بھی حکومتی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہونگے۔ اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان مصروف ہوئے تو پھر ان کی جگہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو مذاکرتی کمیٹی کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ کمیٹی میں سنیئر اور بڑے نام اپوزیشن کو عزت دینے کے لیے شامل کیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ نہیں بیٹھیں گے تو افراتفری پھیلے گی جس کی زمہ داری اپوزیشن پر ہو گی۔

پرویز خٹک نے اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے ایجنڈا کچھ اور ہے۔ کشمیر کو دبانے کے لیے یہ کیا جا رہا ہے۔

’صرف پی ٹی آئی نہیں بیٹھی، یہاں ایک نظام ہے‘

دھرنے کی کال واپس نہ لینے کی صورت میں حکومتی حکمت عملی سے متعلق سوال پر پرویز خٹک نے کہا ’اگر یہ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت نے اپنی رٹ قائم کرنی ہے۔‘

پرویز خٹک نے کہا کہ ملک میں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہے جو ایسے احتجاج کا رستہ روکنے کے لیے حرکت میں آ سکتا ہے۔

پرویز خٹک نے یہ بھی کہا کہ حکومت وہی فیصلے کرے گی جس سے ملک میں ڈيڈ لاک نہ آئے، حکومت نے اپنا فیصلہ کرنا ہے، اپنی رٹ قائم کرنی ہے اور حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ریاست ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب اسی طرح ملے گا، آج تک ان کی کوئی ڈیمانڈ اسمبلی میں پیش نہیں ہوئی ہے ہم نے تو اپنے دھرنے میں بہت مذاکرات کیے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اگر ہم فیل ہوئے تو پھر جو نتائج ہوں گے اس کی ذمہ داری اپوزيشن ہوگی، جو یہ ہمیں آفر کرتے تھے وہی ہم انھیں کر رہے ہیں اگر یہ خود کو جمہوری سمجھتے ہيں تو جمہوریت میں بات چیت ہوتی ہے ہم اس ملک کے بچاو کے لیے ہر حد تک جائيں گے۔

’مسلح جتھے نہیں ہونے چائیں‘

ایک سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بھی یہی کہتا ہے کہ مسلح جتھے نہیں ہونے چائیں۔۔

خیال رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی کے ایک باوردی محافظ دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا کہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لے رہے ہیں۔

شفقت محمود نے کہا کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمان کی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں۔ جس میں وہ ’پاکستان کے استحکام کے اداروں‘ پر حملہ کر رہے ہیں۔

انھوں نے تجویز دی کہ ’ایسا نہ کریں، پاکستان کے سلامتی کے اداروں کے خلاف اس طرح کی باتیں نہ کریں، برداشت نہیں کریں گے۔‘

وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ ہماری کمیٹی صرف مذاکرات کے لیے ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو پھر آگے حکومت اور وزارت داخلہ کا کام ہو گا اور جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری بھی اپوزیشن پر ہو گی۔

شفقت محمود نے کہا کہ انھیں بحیثیت وزیر تعلیم اس بات پر تشویش ہے کہ مدارس کے بچے اس دھرنے کے لیے استعمال نہ ہوں۔

’ہم نے بچوں کی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دینا ہے۔ ہم پورے پاکستان کے بچوں کے محافظ ہیں۔‘

عمران خان

دیگر حکومتی وزرا کے بیانات

جیسے جیسے اپوزیشن کی طرف سے 31 اکتوبر کے آزادی مارچ احتجاج کا وقت قریب آتا جا رہا ہے حکومتی وزرا اور مشیران کے بیانات میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔

سنیچر کو ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے آبائی گھر ملتان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عوام باشعور ہیں، ملک میں مارشل لا کا کوئی امکان نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں سے ویسے ہی نمٹیں گے جیسے جمہوریت میں نمٹا جاتا ہے، احتجاج کرنا اور اپنا موقف ریکارڈ کرانا اپوزيشن کا حق ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی گرفتاری سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ داخلہ سے زیادہ خارجہ امور کے ماہر ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں شامل وزیر ریلوے شیخ رشید نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ جب بھی علما نے تحریک چلائی ہے تو ملک میں مارشل لا کا نافذ ہوا۔

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مولانا فضل الرحمان کو فیس سیونگ دی ج سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp