اوکاڑہ: کمسن بچوں کو الٹا لٹکا کرتشدد کرنے والا شخص گرفتار


ہتھکڑیاں

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو تین کمسن بچوں کو برہنہ کر کے جوتے سے مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس شخص نے ایک بچے کو پیروں میں کپڑا باندھ کر الٹا لٹکا رکھا ہے جبکہ دوسرے بچے کو بازوؤں میں کپڑا ڈال کر لٹکا رکھا ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والا شخص دونوں بچوں کو کان پکڑ کر معافی مانگنے کا کہہ رہا ہے۔ دونوں بچے بلک بلک کر روتے ہیں اور معافی مانگ رہے ہیں۔ پھر وہ دونوں بچوں کو لٹکتا چھوڑ کر تیسرے بچے کو نیچے لٹاتا اور زمین پر گھسیٹتا ہے اور اسے بیہمانہ تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حکومتِ پنجاب حرکت میں آئی اور پولیس نے ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کو اوکاڑہ کے نواحی علاقے شاہبور سے گرفتار کر لیا۔

یہ بھی پڑھیے

ماں کی اپنی بیٹی کو لات مارنے پر معافی

والدین بچوں پر تشدد کیسے کرسکتے ہیں؟

مدرسے میں تشدد سے بچہ ہلاک، استاد کا ریمانڈ

پولیس کے مطابق ملزم کا نام محمد یعقوب ہے اور وہ بچوں کا پڑوسی تھا۔ ویڈیو میں نظر آنے والے بچوں کی عمریں پانچ سے سات برس ہیں۔

اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جہانزیب نڈیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ واقعہ چند روز پرانا ہے اور ملزم کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ پولیس کی مدعیت میں تھانہ شاہبور میں درج کر لیا گیا ہے۔‘

ملزم نے بچوں پر تشدد کیوں کیا؟

ڈی پی او اوکاڑہ جہانزیب نذیر کے مطابق ملزم اس حوالے سے متضاد بیانات دے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے پولیس کو پہلے یہ بتایا کہ بچے اس کے گھر کے باہر پیشاب کرتے تھے۔ ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچے شرارتی تھے اور اسے تنگ کرتے تھے۔

پولیس کے مطابق بچوں کی والدہ کسی رشتہ دار کے گھر گئی ہوئی تھیں جبکہ بچوں کا والد محمد عباس محنت مزدوری کرتا تھا۔

کام پر جانے سے قبل محمد عباس نے اپنے تینوں بیٹوں کو اپنے پڑوسی محمد یعقوب کے پاس چھوڑا اور ان کا خیال رکھنے کی درخواست کی۔ بچے ملزم کو چچا بلاتے تھے اور مانوس تھے۔

تاہم باپ کے جانے کے بعد بچوں نے ماں کے پاس جانے کے ضد کی اور گھر سے باہر بھی گئے۔ پولیس کے مطابق اس پر ملزم اشتعال میں آ گیا اور اس نے بچوں کو مارنا شروع کر دیا۔

بچوں پر کتنا تشدد کیا گیا؟

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو تقریباً چار منٹ دورانیے کی ہے جس میں محمد یعقوب کو مسلسل بچوں کو مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم بچوں کو پہلے سے مار رہا تھا اور جب اس کے تشدد میں شدت آ گئی تو اس کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے چھپا کر ویڈیو بنانی شروع کر دی۔

ڈی پی او جہانزیب نذیر نے بتایا کہ ملزم درزی کا کام کرتا تھا اور اس کے ایک شاگرد نے اس نیت سے اپنے موبائل پر ویڈیو بنانا شروع کی تھی کہ اس کے والدین جب واپس آئیں تو ان کو دکھایا جا سکے۔

جس بچے کو ایک کمرے کی چھت سے باہر نکلے ڈنڈے کے ساتھ الٹا لٹکایا گیا تھا اس کے عمر محض پانچ برس تھی۔ تاہم بچوں کو آنے والی جسمانی چوٹوں کا اندازہ کرنے کے لیے ان کا میڈیکل کروایا جا رہا ہے۔

متاثرہ بچے اب کہاں ہیں؟

واقعہ کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے اور اس حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ پر خبریں چلنے کے بعد وزیرِ اعلٰی پنجاب کی ہدایت پر اوکاڑہ کے ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ مریم خان کی نگرانی میں بچوں کو اوکاڑہ کے ضلعی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

ہسپتال میں ان کا طبی معائنہ کیا جائے گا اور حکومتِ پنجاب کے مطابق ان کے مکمل علاج معالجے میں حکومت ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔

وزیرِ اعلٰی کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے اوکاڑہ کے اچھے سکول میں داخل بھی کروایا جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp