انڈیا: یونانی طریقہ علاج کو لوگوں کی پہلی پسند بنانے کی کوشش


یونانی طب یا حکمت کو اس کے ماہرین قدیم ترین طریقۂ علاج کہتے ہیں اور اس کے موجد کے طور پر بقراط کا نام لیتے ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ ‘قدرت ہی سب سے بڑا معالج ہے۔’

لیکن جدید طریقۂ علاج ایلوپیتھی کے بہت سے پیروکار اور بہت سے مغربی ممالک یونانی طب کے سرے سے منکر ہیں اور کئی جگہ تو اس پر پابندی کا بھی مطالبہ ہے۔ لیکن یونانی طب سے منسلک افراد کا سوال ہے کہ الوپیتھ سے قبل آخر کون سا طریقۂ علاج رائج تھا۔

انڈیا میں یونانی طب بہت سے دیگر طریقۂ علاج آیوروید، یوگا، نیچروپیتھی، سدھ اور ہومیوپیتھی کے ساتھ نہ صرف قانونی طور پر رائج ہے بلکہ اس کے فروغ کے لیے ایک علیحدہ وزارت ‘آیوش’ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔

دہلی کی سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گذشتہ دنوں انڈیا میں یونانی دوا ساز کمپنیوں کی تنظیم ‘اڈما’ کے دوسرے سالانہ اجلاس کے تحت منعقدہ تین روزہ پروگرام میں حکمت کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت پر خواطر خواہ روشنی ڈالی گئی جس سے یونانی طریقہ علاج میں انڈیا کے ورلڈ لیڈر بننے کے عزائم بھی ظاہر ہوئے۔

اس موقعے پر یونانی طب میں نئی ایجادات اور اختراع کے علاوہ تشخیص امراض، ادویات اور جڑی بوٹیوں کی پہچان، دوا سازی، معیار اور اس پر کنٹرول کے اقدامات، طب یونانی کی ترقی اور فروغ، پرہیز، غذا سے علاج اور دیگر تھیراپیز پر گفتگو کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں روح افزا ندارد؟

لوبان: جو ایسپرین سے ویاگرا تک سب کچھ تھا

اڈما کے صدر اور ہمدرد (لیباریٹیز) کے متولی حامد احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اڈما نہ صرف دوا ساز کمپنیوں کو ساتھ لا رہی ہے بلکہ عوام میں بیداری بھی پیدا کر رہی ہے۔

حامد احمد

اڈما کے صدر اور ہمدرد (لیباریٹیز) کے متولی حامد احمد یونانی طریقہ علاج کو لوگوں کی پہلی پسند بنانا چاہتے ہیں

انھوں نے کہا: ‘یونانی میڈیسن قدیم طریقہ علاج ہے لیکن آج لوگ تمام تر علاج کرانے کے بعد بالکل اخیر میں آخری چارہ کار کے طور پر اس کی جانب آتے ہیں۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ لوگ اس کو ترجیحی بنیاد پر اپنائیں اور یہ ان کا پریفرڈ طریقۂ علاج ہو۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس بار 50 سے زیادہ دوا ساز کمپنیوں نے اس میں شرکت کی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور وہ اس میں اپنی ایجادات اور دواؤں کے نئے کمپوزیشن کے بارے میں بتا رہے ہیں اور دواؤں کو کم قیمتوں پر لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں۔’

دور جدید میں یونانی کے مسائل

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے حکیم اجمل کے ٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ہم جدید طریقہ علاج اور قدیم طریقۂ علاج کا موازنہ کریں تو ہم پاتے ہیں کہ آج ہماری بیماری کا فیصلہ مشین اور رپورٹس کرتی ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب ہم اپنی تکلیف کا خود فیصلہ کرتے تھے اور حکیم سے رجوع کرنے کے بعد بیماری کے کوائف کی بنیاد پر دوا لیتے تھے۔

‘جب سے ہم نے نیا طریقہ علاج اپنایا ہے ہمارا نظریہ بدل گیا ہے۔ اب ہمارا مقصد چند رپورٹ کو صحیح کرنا ہو گیا ہے۔ لیکن اگر ہم پرانے انداز میں تکلیف پر توجہ دے کر کوائف کی بنیاد پر اسے دور کرنے کی کوشش کریں تو ہم ‘موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے’ والی بات کو حاصل کر سکتے ہیں۔’

جڑی بوٹیاں

اس سے قبل انھوں نے حکیموں اور طب یونانی کو با اختیار بنانے کے تعلق سے کہا کہ ہندوستان میں یونانی کے تقریباً 65 ہزار رجسٹرڈ پریکٹیشنرز ہیں لیکن ان میں سے بہت کم صرف یونانی پر منحصر ہیں زیادہ تر لوگ ڈاکٹر کہلانا پسند کرتے ہیں اور ایلوپیتھی کی دوائیں تجویز کرتے ہیں جس سے یونانی کو زک پہنچتاہے۔

ان کا خیال تھا کہ اگر لوگ اپنے اختصاص (سپیشلائزیشن) کا انتخاب کر لیں تو انھیں زیادہ کامیابی حاصل ہوگی نہ کہ ہر مرض کا علاج کرنے کے لیے تیار رہیں اور کینسر جیسے مرض کے علاج کا بھی دعوی کرنے لگیں۔

جبکہ نظام طبیہ کالج حیدرآباد کے ڈاکٹر احسن فاروقی کا کہنا ہے کہ یونانی دوا سازوں اور حکیموں کے درمیان تعاون کی سخت ضرورت ہے اور آج لوگ دوسرے طریقہ علاج سے مایوس ہو کر یونانی کا رخ کر رہے ہیں اور انھیں فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘ایلوپیتھ تو ابھی نیا نیا آیا ہے۔ آخر سوسال پہلے دنیا میں کون سا طریقۂ علاج رائج تھا۔ حضرت آدم سے لے کر سوسل قبل تک ہمارا طریقہ علاج کیا تھا۔ وہ یقینا یونانی ہی تھا۔’

جشن اڈما

ہندوستان میں حکمت اور یونانی طریقہ علاج کی صورت حال

انڈیا میں ایک زمانے تک حکیم اور وید ہی علاج کیا کرتے تھے اور گذشتہ نصف صدی میں ہی جدید طریقۂ علاج ملک کی اکثریت تک پہنچ پایا ہے۔

حکومت ہند کی وزارت آيوش میں سی سی آر یو ایم کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر عاصم علی خان نے بتایا کہ انڈیا میں دنیا کی دس فیصد آبادی رہتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ انڈیا میں دنیا کے 21 فیصد مریض رہتے ہیں ایسے میں یونانی کا فروغ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے اڈما کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یونانی کا ایک کورس ہے لیکن وہ یہاں یونانی میں ڈگری کورس کے قیام کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا ان کا ایک برج کورس شروع کرنے کا بھی ارادہ ہے جس سے مدرسہ کے طلبہ کے لیے یونانی طب کے دروازے کھل سکیں گے۔

ڈاکٹر ساجد نثار، جودھپور، راجستھان

ساجد نثار حکیم اجمل خان کے پوتے ہیں اور انھیں رواں سال اڈما نے میدان طب و سائنس میں نمایاں خدمات کے لیے ‘محمد الیاس دہلوی نشان طب ایوارڈ’ سے نوازا ہے

یونانی میں تشخیص مرض کا مسئلہ

دور جدید میں مرض کی تشخیص کے لیے مشینوں کا استعمال ہوتا ہے جبکہ پہلے حکیم نبض دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتے تھے۔

انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کے جودھ پور میں یونانی فزیشین کے طور پر کام کرنے والے حکیم ساجد نثار خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اب جو بی یو ایم ایس (بیچلر ان یونانی میڈسن) کر رہے ہیں ان کا نبض سے اتنا تعلق نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ اب وہ بھی پیتھالوجی کے جدید طریقے کی بنیاد پر مریض کو دوا دیتے ہیں۔’

ساجد نثار حکیم اجمل خان کے پوتے ہیں اور رواں سال اڈما نے انھیں میدان طب و سائنس میں نمایاں خدمات کے لیے ‘محمد الیاس دہلوی نشان طب ایوارڈ’ سے نوازا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نبض دیکھنے کا ہنر اپنی والدہ سے سیکھا پھر اپنے والد سے اس میں درک حاصل کیا۔ انھوں نے کہا کہ نبض دیکھتے دیکھتے بعض چیزیں قدرتی طور پر آپ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اب بھی ہندوستان میں بہت سے نباض ہیں جو نبض دیکھ کر مرض بتا دیتے ہیں۔ لیکن اب ایسے لوگ کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ انحصار جدید پیتھالوجی پر ہوتا جا رہا ہے۔’

دوسری جانب حکیم اجمل کے ٹی کا کہنا ہے کہ مریض کے کوائف بیماری کے بارے میں بہت زیادہ چیزیں بتاتے ہیں اور اس پر یونانی اطبا کی نظر ہونی چاہیے۔

حکیم اجمل کے ٹی

حکیم اجمل کے ٹی کا تعلق کیرالہ سے ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دور جدید میں یونانی کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے

انھوں نے کہا: ‘یونانی میں ہم سبب کا ازالہ کرتے ہیں اور اس پر دھیان دیتے ہیں۔ یونانی اور ماڈرن طریقۂ علاج میں فرق یہ ہے کہ جدید طریقۂ علاج میں بایو کیمسٹری پر انحصار ہے جبکہ حکمت میں نظر مادے پر ہوتی ہے۔ وہ کیمسٹری کو بنیاد بناتے ہیں اور ہم فزکس کو۔’

جبکہ نظام طبیہ کالج حیدر آباد میں پروفیسر ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا کہنا ہے کہ حکمت میں پیتھالوجی کی بنیاد چار چیزوں خون، بلغم، سفرہ اور سودا پر ہے۔ اور اس میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہی پیتھا لوجی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم ذیابیطس کے مریض ہیں اور ہم شکر کھا لیتے ہیں تو ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اس کو تین ہزار سال قبل اطبا نے بتا دیا تھا۔’

حکمت میں نئی دلچسپی

اڈما میں موجود تقریباً تمام اطبا کا خیال تھا کہ لوگوں کی یونانی میڈیسن میں دلچسپی بڑھی ہے۔ بہت سے لوگ اس کا سہرا حجامہ یعنی کپنگ کے سر باندھتے ہیں اور آج ہر بڑے شہر میں آپ کو حجامہ کلینک نظر آتی ہے جس میں بادی خون کو نکال کر بہت سے امراض کو دور کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔

بقائی دوا خانہ کے حکیم عزیر بقائی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود یہ کام کرتے ہیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں اور لوگ اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔

جبکہ ڈاکٹر احسن فاروقی نے کہا کہ ‘یونانی میں بہت سے علاج بغیر دوا کے ہوتے ہیں جن میں حجامہ اور لیچ تھیراپیز شامل ہیں۔ اس میں بادی خون کو نکالا جاتا ہے۔ بہت سے زخم جو ناسور بنتے جا رہے ہیں ان پر جونک لگا کر ٹھیک کیا جاتا ہے۔’

انھوں نے ریجمینل تھراپی کے تعلق سے بہت سے طریقۂ علاج کا ذکر کیا جس میں علاج بالغذا یعنی غذا سے علاج کا بھی ذکر بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘آج ڈاکٹر یہ تو بتاتے ہیں کہ کیا نہیں کھانا ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کیا کھانا ہے۔ علاج بالغذا میں ہم مریضوں کو یہ بتاتے ہیں کہ کیا کھانا ہے اور اس سے انھیں بہت سی تکالیف سے شفا ملتی ہے۔’

یونانی کو آج ایک ایسے طریقۂ علاج کے طور پر پیش کیا جا رہا جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے سائڈ ایفکٹ یعنی نقصانات نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کے ان دعووں کی کسی سائنسی مطالعے سے تصدیق نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر احسن فاروقی کا کہنا تھا کہ الوپیتھ دوائیں بھی یونانی دوا سے بنتی ہیں لیکن وہ جڑی بوٹیوں کے خواص کا ایکٹو حصہ لے کر دوا بناتے ہیں جس سے فائدہ تیزی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس نقصانات بھی ہیں۔

یونانی میں جدت

یونانی طریقۂ علاج کو درپیش مسائل پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اڈما کے صدر اور ہمدرد (لیباریٹیز) کے متولی حامد احمد نے بتایا کہ ‘ہماری زیادہ تر دوائيں ابھی بھی خمیرے اور سیال کی شکل میں ہیں اور جن کو لے کر سفر کرنے میں لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب بہت سی دوا ساز کمپنیاں اپنی بہت سی چیزوں کو ٹیبلٹ اور کیپسول کے فارم میں لا رہی ہیں۔’

محمد ارشاد

محمد ارشاد کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے شوگر فری دوا پر کام کیا ہے

دوا ساز کمپنی دہلوی کے مارکٹنگ ہیڈ محمد ارشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘عام دوائیں (جنرک میڈیسن) تو سب بناتے ہیں، ہمدرد بناتی ہے، ہم بھی بناتے ہیں لیکن دہلوی نے ضرورت کے حساب سے دواؤں کی تیاری میں جدت اختیار کی ہے اور ہم نے بہت سے دوائیں شوگر فری (شکر سے پاک) تیار کی ہیں۔

‘مثال کے طور پر ہماری دوا ہے کلیہ بزوری ایس ایف جو شربت بزوری معتدل کا شوگر فری متبادل ہے۔ آج شوگر کے مریض دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں تو کوئی حکیم شربت بزوری نہیں لکھ سکتا ہے کیونکہ اس میں 60 فیصد شکر یا شہد کے قوام ہوتے ہیں۔ اسی طرح آرد خرمہ یونانی کی ایک مشہور دوا ہے اور ہم اس کا شوگر فری ورژن لے کر آئے ہیں۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ قوت باہ کے لیے لوگ زیادہ تر حکیموں سے رجوع کرتے ہیں اور ‘اس کے لیے چار پانچ عام دوائیں رائج ہیں۔ اس کی بہت مشہور دوا لبوب کبیر ہے۔ اس کے علاوہ معجون سالم ہے۔ اب اگر کسی شوگر کے مریض کو وہ دوا دینی ہے تو ڈاکٹر دے نہیں سکتے کیونکہ اس کا قوام شکر یا شہد کا ہے۔ اس لیے اس تقاضے کو دیکھتے ہوئے ہم اسے شوگر فری لے کر آئے ہیں۔’

دوسری جانب حکیم عزیر بقائی کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش معیاری دوائیں تیار کرنے کی ہوتی ہیں جس میں پورے اجزا ہوں اور یہ بازار میں درست صورت میں جائے تاکہ مریضوں کو اس سے پورا فائدہ حاصل ہو.

انھوں نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ ان کی کمپنی اپنی لیبارٹری میں اس کا خاص خیال رکھتی۔ انھوں نے اس سلسلے میں ‘حلوہ گھیکوار’ کا ذکر کیا جو کہ ایلوویرا سے تیار ہوتا ہے اور اس کا کئی امراض میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے ‘سلاجیت’ کے بار میں بھی بات کی اور کہا کہ وہ اسے اپنے یہاں اچھی طرح صاف اور تیار کرتے ہیں۔ یہ عام کمزوری کے علاوہ بہت سی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

جڑی بوٹیاں

جڑی بوٹیوں کی شناخت اور خالصیت

یونانی ادویہ عام طور پر جڑی بوٹیوں اور معدنیات کے مرکبات ہوتی ہیں۔ تین روزہ کانفرنس کے دوران یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ جدید اطبا کو جڑی بوٹیوں کی شناخت کم ہے ایسے میں دوا سازی ایک مشکل امر ہے۔

ڈاکٹر ساجد نثار کا کہنا ہے کہ بعض یونانی دوا ساز کمپنیاں معیاری دوا بناتی ہیں اور ان پر ہمیں بھروسہ ہے لیکن ہم اپنی طرف سے بھی دوا بناتے ہیں اور اس کے لیے جڑی بوٹیوں کی شناخت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

بعض یونانی ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر وہ کوئی ہرب یا بوٹی لکھتے ہیں تو وہ عام طور پر پنساری کی دکانوں میں ایسی حالت میں بوریوں سے نکال کر دی جاتی ہیں کہ بعض مریضوں کو ان پر اعتماد نہیں رہتا۔

ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ اب بعض چیزیں ممنوع ہیں اور وہ دستیاب نہیں ہیں تو اس کا ذکر دوا ساز کمپنیا کر دیتی ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘ایک دوا ہے ‘دوا المشک معتدل جواہر والا’ اس میں مشک کا استعمال ہوتا تھا لیکن اب مشک نہیں ملتے، ہرن کا مارنا ممنوع ہے تو دوا ساز کمپنیاں اس کا متبادل جو ڈالتی ہیں وہ لکھ دیتی ہیں۔’

طبیہ کالج قرول باغ کے ایک استاد نے کہا کہ یونانی میں چونکہ جستے، فولاد، پارے جیسی بھاری دھاتوں کا استعمال ہوتا ہے جسے انسانی جسم کے لیے نقصاندہ تصور کیا جاتا ہے اور اس لیے یورپی یونین کو اس کے متعلق خدشات تھے اور وہ ان پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ رکھتی تھی لیکن کسی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔

داکٹر احسن فاروقی

داکٹر احسن فاروقی نظام طبیہ کالج میں پروفیسر ہیں

ڈاکٹر ساجد نے اپنے مرکبات بنانے کے سلسلے میں کہا کہ انھیں کلینیکل ٹیسٹ کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی ہے کہ وہ پرانے زمانے سے آزمودہ دوا کا مناسب مقدار میں استعمال کرتے ہیں اور انھیں اس کے بہتر نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔

اڈما کے اجلاس میں شرکت کرنے والے مختلف ڈاکٹروں نے مفرد دوا سازی پر زور دیا تاکہ انھیں پنساری کی دکانوں سے جڑی بوٹی خریدنے کے بجائے معیاری گولیاں مل سکیں اور وہ اسے مریضوں کو تجویز کر سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح مریضوں کو کم قیمت پر دوائیں دستیاب ہوں گی۔

انڈیا میں یونانی کے شعبے میں پیش رفت

انڈیا میں روایتی طریقۂ علاج عام طور پر ہر جگہ موجود ہے لیکن گذشتہ ایک دہائی میں اس میں مزید تیزی آئی ہے۔ حکومت نے روایتی طریقہ علاج کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

حکومت ہند کی وزارت آيوش میں سی سی آر یو ایم کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر عاصم علی خان نے بتایا کہ ملک میں 50 سے زیادہ یونانی طریقہ تعلیم کے ادارے ہیں اور انڈیا دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کے فروغ کے سلسلے میں مفاہمت کر رہا ہے اور ایم او یوز پر دستخط ہو رہے ہیں۔

زعفران

جڑی بوٹیوں کی خالصیت اور پہچان یونانی طب میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں

انھوں نے مزید بتایا کہ یونانی طریقہ علاج میں قدرتی اجزا کا استعمال ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے جنوبی ہند میں جڑی بوٹیوں کی ایک نرسری قائم کی جا رہی ہے جبکہ دہلی سے ملحق شہر فرید آباد میں یونانی ہسپتال کے لیے اراضی حاصل کی گئی ہے۔

ملک میں 55 ایسے ادارے ہیں جہاں طب یونانی میں بیچلر ڈگری تک کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ ان میں سے 11 اداروں میں ماسٹرز اور ریسرچ کے پروگرام بھی ہیں۔

عاصم علی خان نے بتایا کہ ان اداروں میں کم از کم 3000 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔

جبکہ یونانی میں آل انڈیا میڈیکل سائنسز نئی دہلی سمیت کئی اہم جدید طبی اداروں کے تعاون کے ساتھ تحقیقی کام ہو رہے ہیں۔

حکومت نے کشیمر میں بھی ایک کالج کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کے لیے دس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سری نگر میں ایک لیبارٹری کے قیام کے لیے علیحدہ رقم دی گئی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جنوبی افریقہ، ایران، چین، امریکہ، اسرائیل، یونان، بنگلہ دیش، تاجکستان، سری لنکا اور دیگر ممالک کے ساتھ وزارت آیوش کا یونانی شعبہ تعاون اور مفاہمت کے مراحل میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp