شکوہ (اقبال سے معذرت کے ساتھ)


اے میرے اللہ! بے شک تو بڑی دانائی اور حکمت والا ہے، انسان کو بھی تو نے حکمت عطا کی ہے جس کی مدد سے اُس نے یہ دنیا تسخیر کی اور اشرف المخلوقات کہلایا، کچھ انسان مگرکم فہم اور نادان ہوتے ہیں، وہ تیری حکمتوں سے واقف نہیں ہوسکتے، انہیں تیرے سر بستہ رازوں کی کبھی خبر نہیں ہو پاتی کیونکہ وہ کم علم ہوتے ہیں، میں بھی ایسا ہی تیرا ایک بندہ ناچیز ہوں، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما ر رہاہوں کچھ سجھائی نہیں دے رہاسو آج تجھ سے مدد مانگ رہا ہوں، تو ہی میرا شکوہ سُن اور کچھ اِس کا مداوا کردے۔

یا اللہ! ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا، دس لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، کئی ملین بے گھر ہوئے، لاکھوں عورتیں اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئیں، معصوم بچے مارے گئے، پھر کہیں جا کر زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہمیں ملا جہاں ہم اپنی مرضی کے مطابق قران و سنت کی روشنی میں زندگی بسر کر سکیں۔ کچھ لوگوں کو اِس بارے میں شک تھا کہ اسلام کے نام پر ملک حاصل کرنے کی بات خدا نخواستہ سیاسی نعرہ تھی سو اِس غلط فہمی کا ازالہ ہم نے قرار داد مقاصد کی شکل میں کر دیا، گو کہ کچھ اقلیتی ممبران اسمبلی نے قرار داد کی اِس بنا پر مخالفت کی تھی کہ یہ قائد اعظم کے سیکولر ریاست کے خواب سے میل نہیں کھاتی مگر ہم نے اُن کے اعتراضات مسترد کر دیے کیونکہ ہم ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جو اسلام کی تجربہ گاہ ہو، جہاں ہم اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ایسا سوشل کنٹرکٹ بنائیں جس سے ہماری زندگیاں منور ہو جائیں اور پھر جس کے نتیجے میں وہ سائنس دان، فلسفی، عالم دین، ماہر تعلیم اور اعلی ٰ کردار کے شہری پیدا ہوں کہ اسلام کی نشاة ثانیہ کاظہور ہو جائے۔

یا اللہ، اس نظریے میں کیا برائی تھی، کیا ہم نے خلوص نیت اور صدق دل سے اِس نیک کام کی بنیاد نہیں رکھی تھی؟ اور ہم صرف گفتار کے غازی نہیں تھے، ہم نے وہ تمام عملی اقدامات بھی کیے جو ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری تھے۔ اپنے آئین کی پیشانی پر لکھا کہ حاکمیت اعلی ٰ صرف اللہ کی ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔

ہم نے آئین میں لکھا کہ مملکت کا مذہب اسلام ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو قران و سنت کے منافی ہو۔ الحمد اللہ، یہ بات صرف لکھنے کی حد تک نہیں رہی، آج مملکت پاکستان میں کوئی قانون ایسا نہیں جو اسلام کے کسی بنیادی اصول یا احکام سے متصادم ہو۔ ہم نے ایک اسلامی نظریاتی کونسل قائم کر رکھی ہے جس کا کام مجلس شوریٰ کو بتانا ہے کہ کون سا قانون اسلامی ہے اور کون سا غیر اسلامی، اس کونسل میں ملک کے جید علمائے کرام اور عالم شامل ہوتے ہیں جو دینی معاملات پر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم نے ایک وفاقی شرعی عدالت بھی قائم کر رکھی ہے جس کا کام ہے کہ وہ اِس بات کا جائزہ لے کہ پاکستان میں کوئی قانون اسلامی احکام کے بر خلاف تو نہیں۔

اے میرے اللہ! یہ ملک اسلام کا قلعہ تھا (ہے ) اور اِس قلعے کو مضبوط بنانے کی غرض سے ہم نے ایٹم بم بنایا اور اس باب میں امریکہ سمیت کسی طاغوتی قوت کی پرواہ نہیں، یہ ہمارا جذبہ ایمانی ہی تھا کہ ہم نے سویت یونین جیسی سپر پاور کے ٹکڑے کر دیے، مقصد صرف ایک تھا، اپنے دین کی سر بلندی۔ ہم نے عملی طور پر بھی پاکستان میں تیرے دین کو لاگو کیا اور کسی لا دین قوت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، آج اِ س ملک میں حج کے بعد دنیاکا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع ہوتا ہے، علمائے دین کے احترام کا یہ عالم ہے کہ لوگ ان کی جوتیاں اٹھاتے ہیں، ان کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں، گھنٹوں ان سے دین کی باتیں سنتے اور سمجھتے ہیں اور عمل کرنے کا عالم یہ ہے کہ لاکھوں لوگ ہر سال حج، عمرہ کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں، جمعے کی نماز کے وقت بازار بند کر دیتے ہیں۔

یا اللہ! ہم نے تیری اِس مملکت میں سود سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدبیر بھی کر لی ہے، اب کوئی ایسا بنک نہیں جو سود سے پاک سرمایہ کاری کی طرف راغب نہ کرتا ہو، سٹیٹ بنک کا علیحدہ ایک ونگ اس کام کی نگرانی کرتا ہے اور اِس ضمن میں دن رات کوشاں ہے کہ کیسے اِس لعنت سے مکمل نجات حاصل کی جاوے۔ دنیا کے کئی مسلم ممالک میں شراب عام ہے، کھلے بندوں ناچ گانا ہوتا ہے، رمضان میں کھانے پینے پر کوئی قدغن نہیں اورکہیں کہیں جوئے خانے بھی کھلے ہیں مگر ہم نے خالص اسلامی معاشرے کی تشکیل کی غرض سے شراب اور جوئے پر پابندی لگا رکھی ہے اوررمضان میں سر عام کھانے پینے پر بھی بندش ہے، لڑکیوں میں دن بدن حجاب کا رجحان بڑھ رہا ہے، ہماری دنیاوی یونیورسٹیا ں بھی اسے بڑھاوا دے رہی ہیں، فحاشی کی شکایت ہوتی ہے مگر ملک میں قانون ہے کہ کوئی سر عام بوس و کنار نہیں کر سکتا اور کسی کی جرات بھی نہیں۔

اے کائنات کے رب! تیرے محبوب سرکار دو عالم ﷺ سے ہماری محبت کا ثبوت تو ہماری زندگیوں کا اثاثہ ہے، ہم جتنے بھی گناہ گار ہوں محمد ﷺ کے نام پر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی شفاعت حاصل کرنا ہمارا مقصد حیات ہے، دنیا کا کوئی دوسرا ملک رسو ل اللہ ﷺ کی غلامی میں ہماری برابری نہیں کر سکتا۔ قران مجید اور حدیث کی کتب کی طباعت کا جیسا اہتمام اِس مملکت میں ہے ویسا شاید ہی کہیں اور ہو، چپے چپے پر مسجدیں آباد ہیں، بزرگان دین کے ہم عرس مناتے ہیں، محافل شبینہ منعقد ہوتی ہیں، قرات اور نعت خوانی کے مقابلے ہوتے ہیں، رویت ہلال کمیٹی، اسلامی یونیورسٹی، قران بورڈ، ادارہ تحقیق اسلامی، ادار ہ ثقافت اسلامیہ اور سینکڑوں ایسے سرکاری اور نجی ادارے قائم ہیں جہاں دن رات تیرے دین کی سر بلندی کے لیے کام ہو رہا ہے، ہزاروں مدرسوں میں لاکھوں طلبا، قرا ن پاک کے حافظ اور دینی علوم کے ماہر فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں فقط تیری رضا اور خوشنودی کے لیے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں تو ہر مسلمان گویا تجدید ایمان کرتا ہے، ربیع الاول کے مہینے میں گھر گھر محافل میلاد ہوتی ہیں اورمحرم الحرام میں یہاں امام حسین کے نقش قدم پر چلنے کا اعادہ کیا جاتا ہے۔

اے میرے معبود! یقیناً اِس ملک میں گناہ گا ر بھی بستے ہیں اور انسان ہونے کے ناطے اُن سے کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں مگر انسانی لغزشوں کی ایسی سزا کی پور ی قوم تو حقدار نہیں! تیرے نیک اور برگزیدہ بندوں کے گروہ لوگوں کو گناہوں سے نکالنے کے لیے دن رات تبلیغ کرتے ہیں، اِن لوگوں نے اپنی زندگی تیری راہ میں وقف کر رکھی ہے، پھراِس قوم کے دلدر دور کیوں نہیں ہوتے! ہم دیکھتے ہیں کہ کفار کے ملکوں میں جہاں تیرا نام لیوا کوئی نہیں وہاں نہ کوئی بلا نازل ہوتی ہے اور نہ کوئی عذاب آتا ہے، جبکہ ہم تیرے حضور سر بسجود رہتے ہیں، گناہوں کی معافیاں مانگتے ہیں مگر اِس کے باوجود تیری رحمت کی بارش ہم پر نہیں برستی۔ اے رب کونین! ہم سے کہاں خطا ہوئی، تو ہی بتا، تو ہی رہنمائی فرما دے، ہم نے تو پوری کوشش کی اِس ملک کو اسلامی دنیا کا رول ماڈل بنائیں، مگر کیوں تیری نعمتوں اور نوازشوں سے ہم اب تک محروم ہیں؟ تیرے اِس عاجز گناہ گاربندے کا بس یہ شکوہ ہے!

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada