گستاخِ اقبال کے چند سوالات


پروفیسر ہود بھائی کے لیکچر کے بعد صورتِ حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اقبال پر نقد کرنے والوں کو اور انہیں فلسفی ماننے سے انکار کرنے والوں کو گستاخانِ اقبال کے ساتھ ساتھ سطحی و بدزبان تک کہا جارہا ہے کیونکہ ہمارے ہاں فکری افلاس اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کسی کی گہرائی ماپنے کا جام اور سطحی پن ناپنے کا پیمانہ صرف اقبال ہیں۔ یہ سب کہنے والوں سے طالب علم نے چند روز قبل محض یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقبال ایک بہت بڑے شاعر تھے لیکن کیا وہ  اتنے بڑے ہیں کہ ان کے احترام میں مشرق کو ایک شہر یا ایک صوبہ سمجھ لیا جائے؟ اس پر جواب ملا کہ اگر اقبال کو سمجھنا ہے تو فیض صاحب کی مدد سے یا پھر تحریک آزادی کے تناظر میں سمجھیں۔ پوچھا، کیا وہی فیض صاحب جنہوں نے اقبال پر جو  کہا اس میں پیش کردہ خیال ورڈز ورتھ کی شیکسپیئر پر لکھی ایک نظم سے  لیا گیا اور پھر آگے چل کر فیض صاحب نے بھی  آزادی کی اُس سحر کو پہچاننے سے انکار کردیا جس کی آروز لے کر یار چلے لیکن نہ جانے کہاں کھوگئے؟ اور پھر جس کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لئے لمحہ موجود سے رُخ موڑ کر صدیوں پیچھے جانا پڑے، اُسے فلسفے یا سماجی علوم کی زُبان میں کیا عصری لحاظ سے irrelevant  یا زمانی لحاظ غیر موذوں  نہیں کہتے؟  لہٰذا سوال اقبال کی relevance کا بھی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا آپ کی طرح وقت بھی اقبال کے احترام میں ٹھہر گیا ہے؟ کیا اقبال خود وقت کے ٹھہر جانے کے قائل تھے؟

پروفیسر صاحب کے جس لیکچر کی بابت ایسا طوفان اٹھا ہے کہ  اہلِ علم کو حلم بالائے طاق رکھتے ہوئے ’’گستاخان‘‘ کی اصطلاح ایجاد کرنا پڑی ہے اس لیکچر میں ہم بھی موجود تھے اور لیکچر کے بعد جب اس کی بابت پوچھا گیا تو ہم نے کچھ تنقیدی نقاط اٹھائے لیکن ہمیں کسی نے گستاخِ ہود بھائی نہیں کہا اور یہی آزادی فکر کا حسن ہے۔ مثال کے طور پر جب انہوں نے یہ کہا کہ اقبال آخر میں فلسفی ہونے کی بجائے عالمِ دین ہونے کے شوق کا اظہار کرتے رہے تو ایک دوست کے پوچھنے پر بتایا کہ برٹرینڈ رسل بھی کونارڈ سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ انہوں نے فلسفے کی بجائے ادب کو اپنا میدان بنایا ہوتا تو بہتر تھا۔ رسل کے علاوہ سپینوزا جیسے فلسفی نے آخری ایام میں فلسفی ہونے سے کامیاب عاشق ہونے کو ترجیح دی تھی۔

مگر رسل اور سپینوزا کے یہ کہنے سے ہم ان دونوں کے فلسفی ہونے کا انکار نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا کام دیکھ کر ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ وہ ساری زندگی فلسفی ہی رہے البتہ اعلیٰ پائے کی نثر لکھنے کی وجہ سے ادیب بھی کہلائے۔ اس کے برعکس اقبال کے فلسفی ہونے کا انکار کرنے میں بھی ان کا کام ہی سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے جو بنیادی طور پر ایک  اصطفائی نظامِ فکر (eclectic system of thought) ہے جس میں بے ربط اور ہرجائی خیالات میں من مانی پیوند کاری اور بخیہ گری  کرکے انہیں بیش و کم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اگر یہ نظامِ فکر  ہے بھی، تو اس میں نتیجہ پہلے اخذ کرلیا گیا ہے، اور سوچا بعد میں گیا ہے اور یوں یہ نظامِ فکر کم اور ملایانہ و متکلمانہ نظام (scholasticism) زیادہ ہے۔ مغربی انتقادِ فکر میں اس روش فکر پر بگھی کی پشت میں گھوڑا باندھنے یا پھر (ہربرٹ سپینسر کے تناظر میں) مداری کی طرح رنگا رنگ ٹوپیاں پہننے  کی بھپتی کسی جاتی ہے۔

اقبال پر نقد کو گستاخی سے کیونکر تعبیر کیا جارہا ہے ؟ اگر ہم اس سوال پر غور کریں تو اس کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ایک تو تحریک آزادی میں ان  کا کردار ہے، جس پر ہم اوپر بات کرچکے ہیں اور دوسرا ان کا بذریعہ اقبال تراشی مفکرِ اسلام منوایا جانا ہے۔

پروفیسر ہود بھائی نے اپنے لیکچر میں شکوہ سے کچھ اشعار پڑھے جن میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں اذانیں دینے اور کفار کے لشاکر کو کاٹ کر رکھ دینے کی بات تھی تو ایک صاحب نے یہ فرمایا کہ اقبال کو تلاش کرنا ہے تو شکوہ میں نہیں جوابِ شکوہ میں تلاش کریں۔ اگر ہم ان کی ہدایت کے مطابق جوابِ شکوہ میں بھی تلاش کریں تو اقبال (خدا کی نمائندگی کرتے ہوئے) ان باتوں کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ تم جن لوگوں کی باتیں کررہے ہو، وہ تمہارے ہی آبا تھے لیکن تم ان کے برعکس ہاتھ پر ہاتھ دھرے کل کے ثمرات کے منتظر ہو۔ یعنی اقبال غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر قابض ہوکر ان میں اذانیں دینے اور انہیں غیر مسلم ہونے کی پاداش میں کاٹ کر رکھ دینے کی سند خُدا سے لا رہے ہیں اور اس عمل کو خُدا کے حضور ایک مقبول عمل قرار دے رہے ہیں۔

کیرن آرم سٹرانگ کی کتاب خُدا کی تاریخ کے بعد خُدا کے موضوع پر لکھی جانے والی بہت سی معاصر کتب یہ کہہ رہی ہیں کہ اب جو خدا کا تصور تیزی سے مقبول ہورہا ہے، وہ سب کا خُدا ہے، ایسا خُدا نہیں جو ایک گروہ کے نزدیک سگا تو دوسرے کے نزدیک سوتیلا۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس خُدا کی جوابِ شکوہ میں اقبال نمائندگی کررہے ہیں، وہ معاصر تصورِ خدا سے میل نہیں کھاتا۔

  ہم آگے بڑھیں تو یہاں ہم سب پر اپنے ایک مضمون ’’اقبال کی شاعری میں نیکی کا میدانِ جنگ‘‘ نامی ایک مضمون میں طالب علم یہ بات منظرِ عام پر لایا تھا کہ اقبال کا (بغرضِ خاص) تراشیدہ مومن ہمیشہ میدانِ جنگ میں دکھائی دیتا ہے اور یوں اقبال اس روش کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں جسے معاصر مطالعاتِ امن میں نیکی کا عسکری تصور (militant piety) کہا جارہا ہے اور اس تصور کو مسلم معاشروں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بنیاد کہا جارہا ہے۔ اس موضوع پر ہونے والی کئی بین الاقوامی کانفرنسز جن میں راقم کو شمولیت کا موقع ملا ایک بات بار بار دھرائی جاتی رہی کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے جنگ سے واپسی پر فرمایا تھا کہ اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یعنی اصل جہاد اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ معاشرے میں لوگوں سے مصروفِ معاملات ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اقبال کا مومن ہمیشہ میدانِ جنگ میں دکھائی دیتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسلامی مومن وہ ہے جو میدانِ جنگ سے واپس آجاتا ہے، لیکن اقبالی مومن کبھی واپس نہیں آتا۔

یہ دیکھتے ہوئے اقبال پر نقد کو گستاخی قرار دینے والوں سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم کس مومن کو اصل مومن مانیں؟ جنگ سے واپس آکر جہاد اکبر کرنے والے کو یا پھر میدانِ جنگ سے واپس آنے سے انکار کرنے والی اقبالی مومن کو؟

اس کے علاوہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے آخری خطبے میں عرب و عجم کی بحث کا قضیہ لپیٹ دیا تھا مگر اقبال نے نہ صرف اس نسل پرستانہ تصور کو زندہ رکھا بلکہ اسے نام نہاد مقامی علمی مباحث میں اس قدر شیر و شکر کردیا  کہ ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر تجدید اسلام کا ’’غیر رضاکارانہ طور پر‘‘ بیڑہ اٹھانے والے غلام احمد پرویز  اپنی ہر نا پسندیدہ ہر رسم اور سوچ کو عجمی سازش قرار دے کر رد کرتے رہے اور کچھ نے مقامی ثقافت کا ہر رنگ عجمی نشانی کہہ کر مٹا کر رکھ دیا۔ وگرنہ عربی و عجمی کی بحث اس سے زیادہ کچھ نہیں تھی کہ جیسے رومن اور یونانی باہر کے لوگوں کو وحشی  کہتے تھے  اور یہودیوں کے ہاں غیر یہودیوں  کے لئے تضحیک کے لئے goy یا پھر gentile کہا جاتا تھا، اسی طرح عربوں کے ہاں بھی ایسے نسل پرستانہ تصورات موجود تھے۔

عرب و عجم کی یہ بحث آج پاکستان سے باہر کی اسلامی دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتی کیونکہ دنیا نسل پرستی اور لسانیت کے ان تنگ تصورات کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے،  ان تصورات کی آنکھ سے اپنے سے مختلف گروہوں کو دیکھنا ناشائستگی، بد تہذیبی اور سوقیت (vulgarity) کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔  تاہم یہ بحث اقبال کی وجہ سے یہاں موجود ہے اور انہوں نے اپنے فارسی مجموعہ کلام کو زبورِ عجم قرار دے کر اہل فارس کو گونگا بھی قرار دے دیا اور ان کی خدمات کے درجات بھی بلند کرتے رہے کہ جو کچھ مسیحیت کو یونان سے ملا ہے، وہ کچھ اسلام کو فارس سے۔ اب مسیحیت کو یونان سے کیا ملا ؟ اس سمندر کو تین الفاظ کے کوزے میں بند کیا جاسکتا: فکر، فنون اور ثقافت۔ اب اقبال پرستوں سے کوئی یہ پوچھے کہ فکر، فنون اور ثقافت کا تحفہ دینے والے گونگے کیسے ہوسکتے ہیں؟ اگر ایک گروہ گونگا تو نہیں ہوسکتا، باقی کیسے ہوسکتے ہیں کیونکہ فلسفیانہ فکر کا یہ اصول ہے کہ ایک استثنیٰ،  اور اصول اصول نہیں رہتا ؟

ہم یہاں اقبال پر نقد کرنے والوں کو بھلے گستاخ کہتے رہیں مگر معاصر اسلامی مفکرین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے عرب و عجم کی اس بحث کو اس لئے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا تھا کہ اگر اسلام غیر عرب دنیا میں پھیلتا ہے تو غیر عرب دنیا کے لئے یہ بات توہین اور تکلیف کا باعث ہوگی کہ عرب انہیں عجمی یعنی گونگا سمجھتے ہیں کیونکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگوں کو اپنی زُبان سے پیار ہوتا ہے اور زبان ثقافتی پیکج کا بنیادی حصہ ہے۔ اگر معاصر مفکرین کی بات مان لی جائے تو ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت جو اسلامی تشریح عام ہورہی ہے، اس میں ثقافتی دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔

اس پر اور دیگر موضوعات پر سیر حاصل بات ہوسکتی ہے لیکن اس بنیادی سوال پر بات تمام کرتے ہیں کہ اقبال صاحب کے فلسفی یا مفکر ہونے سے زیادہ اہم سوال  ان کے باموقع و بااعتبار (relevant)  ہونے کا ہے۔ آپ اگر اب بھی ان کی اہمیت جتانے کے لئے تحریک آزادی یا ایک ڈیڑھ صدی پہلے کی بات کرتے ہیں، تو زمانہ اقبال پرستوں سے این او سی لئے بغیر اس مقام سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ مباحث بدل گئی ہیں۔ وہی ارسطو جس نے مغربی فکر کو آگے بڑھایا تھا، ایک دور میں مغرب کے فکری سفر میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ مغرب ارسطو سے آگے نہ نکلتا تو شاید آج ارسطو کا نام بھی مٹ چکا ہوتا۔  ہمارے ہاں یہی صورتِ حال اقبال کی ہے، ہم نے رکنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ؟ اگر ہم رک گئے تو اقبال کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوگا کیونکہ ہم ہیں تو اقبال ہے۔ اقبال اس صورت میں رہے گا جب ہم اقبال سے آگے بڑھیں گے۔

 جو آگے بڑھنے کی بات کررہے ہیں انہیں گستاخانِ اقبال کہا جارہا ہے۔ اقبال گستاخانِ اقبال کو بھی عزیز ہے، لیکن انہیں اقبال سے زیادہ عزیز وہ سچائیاں ہیں جن سے عصری سماجی و تنقیدی علوم نے پردہ اٹھایا ہے۔ اقبال محو حیرت تھے کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی کیونکہ زندگی پیہم رواں، ہردم رواں ہے۔ اقبال کے برعکس  اقبال پرست شاید واہمے کے اس بلبلے میں جی رہے ہیں کہ دنیا جم گئی ہے، زندگی کی نبض رُک گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).