ریلوے کا وزیر اور نواز شریف کی بہادری


شیخ رشید ریلوے کے وزیر ہیں، مگر ساتھ ساتھ وہ وزیراعظم کے سیاسی مفادات کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ریلوے کو سنبھالتے ہیں تو وزارت عظمیٰ ڈوبتی ہے اور اگر وزیراعظم کے سیاسی مفادات کو سنبھالتے ہیں تو ریلوے ڈوبتی ہے۔ موصوف روزانہ اپنے سوتیلے بالوں کو کالا کولا لگا کر کسی نہ کسی چینل پر پیش گوئیاں فرما رہے ہوتے ہیں۔ ریلوے کے افسران خاصے پریشان ہیں کہ وہ اللہ اللہ کرکے جو دوچار روپے منافع کماتے ہیں۔ وہ شیخ رشید کی ہفتہ وار پریس کانفرنس پر خرچ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو پریس کانفرنس کے اخراجات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انجن سے تیل یا پرزہ چرا کے اخراجات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ ابھی کل شیخ رشید فرما رہے تھے دوچار اور لوگ بھی گرفتار ہونے والے ہیں۔ ریلوے کے وزیر کے منہ سے ایسی بات سنتے ہوئے درحقیقت حکومت کی بدنیتی اور قانونی غنڈہ گردی بالکل سامنے نظر آنے لگ جاتی ہے اور انسان سوچتا ہے، ریلوے کے وزیر کا داخلہ امور سے کیا تعلق۔

موصوف نوازشریف اور شہبازشریف کے بارے میں خاصے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ چند سال قبل انہوں نے کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح نوازشریف کو منا لیا جائے،پاؤں پکڑنے تک کو تیار تھے، مگر نوازشریف آمادہ نہ ہوئے۔ نوازشریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ”ضدی“ آدمی ہیں، مگر اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف ضدی ہی نہیں دلیر آدمی بھی ہیں، جس بات پر اڑ جائیں اڑ جاتے ہیں، گزشتہ روز عدالت کے روبرو وہ ایک دلیر آدمی کی طرح کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے سیدھے الفاظ میں کہا کہ اگر، مگر سے کام نہیں چلے گا وہ اپنے بیانیے ووٹ کو عزت دو کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس پر سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ نوازشریف نے کہا، میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ وہ تسلیم کرتے نظر آئے کہ مولانا فضل الرحمن درست موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہمیں چاہیے تھا کہ ہم دھاندلی زدہ الیکشن کے حوالے سے اس وقت مولانا کے موقف کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور اگر کھڑے ہو جاتے تو آج ایک نالائق حکومت کا وجود ہی نہ ہوتا۔

نوازشریف نے چند لمحوں کے لئے ایک نئے کیس کے سلسلے میں عدالت جاتے ہوئے اپنی سیاسی موجودگی کو ایک بار پھر ثابت کیا ہے۔ انہوں نے پارٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ مولانا کے قدم کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے آگے بڑھیں۔ نوازشریف کے اس اعلان کے حوالے سے ایک رائے تو یہ ہے کہ وہ فوج کے خلاف آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا سوچنے والے درحقیقت فوج کے خیر خواہ نہیں ہیں، کیونکہ عمران خان کے خلاف کسی بھی سطح پر مخالفانہ تحریک کسی ادارے کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک جمہوری حق تو ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت سے چھینا نہیں جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن ہو یا نوازشریف وہ حکومت کے خلاف باہر نکل رہے ہیں اور ان کے اس عمل کے پیچھے ان کے کروڑوں ساتھی ان کے ساتھ ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی فوج کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور کسی بھی سطح پر اپنی فوج کے خلاف جانا تو دور کی بات سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ کسی بھی مخالف سیاسی تحریک کو اس انداز سے دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں درحقیقت وہ لوگ اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان تصادم کو ہوا دی جائے،خود حکومت وقت بھی اس ”تاثر“ کو آگے بڑھاتی ہے۔ مثال کے طور پر وزیرداخلہ نے گزشتہ روز بیان دیا…… اگر نوازشریف ”بات“ مان لیتے تو وہ اب بھی وزیراعظم ہوتے، وزیر داخلہ کے اس بیان کا کیا مطلب ہے؟

نوازشریف نے کس کی بات نہیں مانی۔ اس طرح کی گفتگو سے پھر سوال جنم لیتے ہیں اور پھر وہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے، جس سے فاصلے بڑھتے، اصولی طور پر وزیرداخلہ سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ ان کے انٹرویو میں اس بیان کا کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کس کے بارے میں کہا ہے؟ مگر بدقسمتی سے نہ تو کسی نے ان سے پوچھا اور نہ انٹرویو لینے والے نے پوچھا، مگر یہاں ایک بات مزید دلچسپ ہے۔ مثال کے طور پر ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف ایک بے ایمان، گاڈ فادر اور وطن دشمن ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف اگر بات مان لیتے تو وزیراعظم ہوتے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوازشریف پر کرپشن اور وطن دشمنی کے سارے الزامات غلط ہیں۔ نوازشریف اگر واقعی کرپٹ اور وطن دشمن ہیں تو پھر انہیں ”کوئی“ کسی بھی قسم کی چھوٹ کیسے دے سکتا ہے۔

ایک مختلف جرائم میں ملوث شخص چوتھی بار وزیراعظم کیسے بن سکتا یا بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب لوگ مانگتے ہیں۔ مزید سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ موجودہ حکومت درحقیقت نوازشریف کی ”ضد“ میں آئی ہے۔ وہ اگر ”ہاں“ کر دیتے تو موجودہ حکومت کبھی نہ بن سکتی۔ اب اگر وزیرداخلہ کا بیان درست ہے اور وہ سچائی سے کام لے رہے ہیں تو پھر نوازشریف، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن اگر حکومت گرانے نکلتے ہیں یا گرانا چاہتے ہیں تو پھر اس پر اعتراض کس بات کا ہے؟ یعنی ایک ایسی حکومت جو وزیرداخلہ کے بیان کی روشنی میں عوامی طاقت سے نہیں، کسی دوسرے یا تیسرے طریقہ سے وجود میں آئی ہے اس کی موجودگی تو ویسے بھی غیر جمہوری ہے اور اپوزیشن کی تحریک یا دھرنا بلاجواز نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف کی ”نرمی“ کے باوجود نوازشریف سیاسی طور پر ”گرمی“ دکھا رہے ہیں اور اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ سے باہر نکل آئے ہیں۔ سو اب کہا جا رہا ہے کہ شہبازشریف اور نوازشریف کی سوچ میں فرق ہے۔

شہبازشریف جہاں کھڑے ہیں۔ اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے، جبکہ نوازشریف آگے بڑھنا چاہتے ہیں، سو اس اختلاف کو بنیاد بنا کر دونوں بھائیوں کے راستے ”جدا“ کرنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ دونوں بھائیوں کے درمیان ”جدائی“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں بھائیوں کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ باپ کی قبر ہے۔ جس پر خاندان کے سب چھوٹے بڑے روزانہ حاضر ہوتے ہیں اور بالکل اس ادب کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں، جیسے ہم میں سے اکثر لوگ ”داتا دربار“ یا ”بی بی پاک دامن“ کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں۔ اس قبر نے دونوں بھائیوں کو خاندانی ہی نہیں روحانی طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور پھر دونوں کی ماں ابھی تک زندہ ہے۔ باوجود اس کے یہ خاتون چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ بزرگی ان پر غالب ہے، مگر اپنے خاندان کے لئے وہ اب بھی ”بڑی اماں“ ہیں اور پورا خاندان ”بڑی اماں“ کے فرمان کے تابع ہے۔ وہ خاندان کے ہر فرد پر گہری نظر رکھتی ہیں اور خاندان کے ہر فرد کی آنکھوں میں ان کا بہت حیا ہے۔

بہت احترام ہے اور خوف بھی ہے۔ سو یہ ممکن نہیں ہے کہ دونوں بھائی باپ کی قبر اور ماں کے فرمان کے الٹ چل سکیں۔ سو شہبازشریف کو نوازشریف کے تابع چلنا پڑے گا…… کیوں ……؟ اس لئے کہ نوازشریف مسلم لیگ (ن) کے رہبر ہی نہیں، نوازشریف خاندان کے بھی ”رہبر“ ہیں۔ موجودہ خاندان میں ان کی وہی حیثیت ہے جو کسی زمانے میں ”میاں شریف“ کی تھی۔ البتہ شیخ رشید جیسے لوگ اب بھی اس ”تاڑ“ میں ہیں کہ خاندان ٹوٹ جائے اور ان کی پیش گوئی پوری ہو جائے، مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ شیخ رشید یہ حسرت دل میں لئے ”وزارت“ سے سدھاریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).