آدمی کی ذات، ہجر کا غم اور شاہد بھائی کا چکن سوپ


کوئی کہے کہ زندگی بڑی بے رنگ ہے، اس میں لاکھوں دکھ ہیں، پریشانیاں اور تباہیاں ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود کمبخت حسین ہے۔ اس قدر سفاک حسین کہ یہاں تو کبھی کبھی دکھے ہوئے دل سے اٹھنے والے دھویں کا رنگ بھی جمالیاتی سطح پر اتنا منفرد ہوتا ہے کہ دیکھنے والی آنکھ ہو تو اپنے ہی غموں پہ واری جائے۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میں چپ نہیں بیٹھتا، لوگ بیٹھتے ہیں، دلوں میں باتیں دبائے۔ خاموش، پریشان، اپنے ہی اندر گھلتے ہوئے۔

اپنا تو معاملہ یہ ہے کہ تو یا ہو میں، جس سے جیسی بات کہنی ہے، کہہ کر ہی رہیں گے۔ کیاکریں، مزاج میں کچھ ایسی ہی فرانسیسی صندلیت پائی ہے، جس کی شاخیں ستاں دال کی روح سے جاملتی ہیں۔ حقیقت نگاری کا ایسا چسکا لگا ہے کہ لگتا ہے اگر حشر کا میدان کہیں ہوا بھی تو فرشتوں کو ہمارے نامہ اعمال پر اپنی رپورٹ کا شبہ ہوجائے گا۔

تو ہوا یوں کہ شام کو من بغل میں منہ دبائے مسکرائے جارہا تھا۔ ادھر ایک ایسی عورت سے رابطہ ہوا ہے، جس کے راج سنگھاسن حسن اور ذہانت دونوں ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ دولت نے بھی اس کا گھر دیکھ رکھا ہے، نہ انکساری نہ غرور۔ آدمی ذات نرالی۔ کسی طرح کا اوڑھا ہوا ادبی چوغہ یا فنکارانہ لباس اسے پسند نہیں۔ پسند ہے تو وہ رہنا جو ہم ہیں۔ غصہ کرنا، لڑنا، ہنسنا، بولنا اور تکلفات سے دور رہنا۔ پچھلے دنوں اسے معلوم ہوا کہ میں اس بات پر حیران و پریشان ہوں کہ میری زندگی میں آنے والے ایسے ایسے لوگ اپنا چہرہ بدل رہے ہیں کہ جی دنیا سے اچاٹ ہوچلا ہے، ایک شاعرانہ بے بسی اور اداسی تن پر لپیٹے میں خلا میں گھور رہا ہوں، اکتاہٹ بھری باتیں کررہا ہوں اور خود کو سزا دے کر، اپنے آپ کو مظلومیت کا اچار چٹا کر بے حد خوش ہوں۔

اس نے مجھ سے کہا کہ انسان بدلتے ہیں، بدلنا لوگوں کی ضرورت ہے اور مجبوری بھی۔ تم بھی بدل گئے ہوگے، غور کرو، مثالیں ڈھونڈو۔ تبدیلی بری چیز نہیں، تبدیلی کو قبول نہ کرنا بری چیز ہے۔ تبدیلی کو محسوس کرکے پرانی حالت پر اصرار کرنا بے وقوفی ہے۔ مگر بے وقوفی بھی ضروری ہے۔ زندگی کا کھیل دوستوئفسکی یا گستاؤ فلوبیر کی لکھی کہانیوں کی طرح پیچ در پیچ انوکھا ہے، اس میں تم نے جو زخم کھایا ہے، وہی زخم تم نے لگایا بھی ہے۔ مگر اپنا زخم زیادہ ہرا اور دوسرے کا کم لال محسوس ہوتا ہے۔ یہ باتیں ایسی انوکھی ہیں، کہ آئنہ دکھاتی ہیں اور ایسی آئنہ دکھاتی ہوئی باتیں کرتی ہوئی عورت، آدمیوں کی دھرتی پر مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں۔

میں نے اس کے بعد اپنی حالت پر غور کیا۔ میں پچھلے ڈیڑھ مہینے سے ایک ہجر منارہا ہوں۔ اب احساس ہورہا ہے کہ واقعی میں بدل گیا ہوں۔ میں توقعات کو پیچھے رکھ کر انسانی رشتوں کو صرف لمحوں اور دنوں کی لطافت کے ساتھ جینے کا قائل تھا۔ مگر توقعات آگے نکل گئیں، رشتے پیچھے چھوٹ گئے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ میں اپنا ہی منکر بنتا چلا گیا۔ جو مزاج میرا نہیں، جس نظام کے میں خلاف تھا۔ جن باتوں سے مجھے کوفت ہوتی تھی، وہ باتیں میری ذات کا حصہ بن گئیں، میں دلدل کو چھانٹتے چھانٹتے کب دلدل میں پھنس گیا، مجھے معلوم ہی نہیں ہوا۔ مگر اس ہجر کے غم کو منانا، کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے لطف کی بات کیجیے تو ایک منظر بنانا پڑتا ہے۔

آدمی بستر پر لیٹا ہے، میر کے شعر دوہرا رہا ہے، تصویریں دیکھ رہا ہے۔ جیسے دنیا کے سارے کام ختم ہوگئے ہوں، ایک انسان اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہو کہ اپنی ہی اہمیت بھلا دی گئی ہو۔ اور اس ہجر گزاری میں اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کو بھی پریشان کیا جارہا ہو۔ لگاتار، باربار۔ تاکہ اسے بھی چرکے لگا کر ایک نفسیاتی تسکین حاصل کی جائے۔ کچھ نہیں تو اسے غم ہی دکھایا جارہا ہے، الٹی سیدھی نظمیں لکھ کر اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے وقت بے وقت روٹھا جارہا ہے، اسے الٹے سیدھے پیغامات بھیجے جارہے ہیں، دماغ ماؤف کیا جارہا ہے، پڑھنا لکھنا بھلا دیا جارہا ہے، عورتوں، لڑکیوں کے جلو میں بیٹھ کر اپنی انا کو تسکین دی جارہی ہے۔

مگر یہ سب بے رنگ نہیں، اس کا اپنا سکھ ہے۔ اس جلن اور کڑھن کا، اس تکلیف اور درد کا۔ یہ تو ایسا نشہ ہے کہ اس سے ملنے والے لطف کا پتہ کبھی کبھی عمریں بیت جانے پر بھی نہیں لگتا۔ کیونکہ لوگ اس نشے کے دھوکے کو عشق سے حاصل ہونے والا غم سمجھ کر اس کا گھول روزانہ صبح شام پیتے رہتے ہیں، نہ خود کو اس درد سے آزاد کرتے ہیں، نہ دوسرے کو ہی چین سے جینے دیتے ہیں۔ مگر آنکھیں کھولنا ضروری ہے۔ دنیا ہے یار! اور بھی چہرے ہیں، اور بھی لوگ ہیں، اتنی فرصت نہیں کہ فرہاد جیسا عشق کیا جاسکے یا مجنوں جیسا ہجر منایا جاسکے۔

اپنے مزے کو دوسرے کا احساس گناہ بناکر جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ کتنی ہی باکمال کیوں نہ سہی، مگر ایک حد سے زیادہ کریہہ، بدصورت اور بے کار ہے۔ زیادہ ضروری ہے کہ اگر دو لوگوں میں سے کوئی ایک الگ ہونا چاہتا ہے، وقت لینا چاہتا ہے، دور جانا چاہتا ہے تو اسے جانے دیا جائے۔ میں نے اس عورت سے پوچھا کہ تحریریں کبھی کبھی اتنی آئیڈیل کیسے ہوجاتی ہیں، ہم جو لکھتے ہیں، کیا ہمیں اس پر خود بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، غور کرو تو ہم جو لکھتے ہیں، وہ ہم جی رہے ہوتے ہیں، اسی لیے ہم اپنا احتساب کرپاتے ہیں، ورنہ لوگ کبھی اکیلے میں لیٹ کر اپنے اور دوسرے کے بارے میں کیا واقعی کبھی اس طرح غور کرتے ہیں، جیسے کوئی مصنف یا مصور کرتا ہے؟ میرا بھی ماننا ہے کہ خود کو دھوکا کیوں دیا جائے، جس پل میں آپ جیسے ہیں، خود کو ویسا قبول کرلینا عقلمندی ہے۔ زندگی آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے، ایسا ہجر کا غم جو وقت روک دے، ہاتھ روک دے۔ اس پر طنز اور حقارت کا جرمانہ لگانا خود ہمارا فرض ہے۔

ایک دکھ کے بعد ایک سکھ ہے۔ پشکن کی کہانی ’حکم کی رانی‘ میں نوے سالہ عورت کا بھوت ایک انسان کا ذاتی احساس گناہ بن کر ابھرتا ہے۔ میرے لیے میرا ماضی قریب، نوے سال کا نہ سہی، مگر ایسا ہی کوئی بھوت ہے، پھر بھی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس بھوت سے چھٹکارے کے ہزار راستے ہیں۔ دنیا میں عورتیں ہیں، ذہین عورتیں ہیں۔ اور جب تک وہ ہیں، تب تک میں ڈیڑھ مہینے سے زیادہ نراش نہیں رہ سکتا۔

اب آخری بات چکن سوپ کی۔ ہمارے گھر سے تھوڑی دور ایک صاحب سردیوں میں چکن سوپ کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔ چکن سوپ کی دستیابی کا علم ہوتے ہی آج میں سمجھ گیا کہ سردی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ کالی داڑھی۔ محمد شاہد نام۔ سوپ میں پرانی دلی کے کچھ ایسے مصالحے کہ نزلہ، زکام، بخار اور کسی بھی طرح کے ڈپریشن کو ایک پیالی میں دور کرسکتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس کا نسخہ کیا ہے۔ کہنے لگے، ہیں جی؟ ہمارے استاد مرحوم کا بتایا ہوا ہے، بتا نہیں سکتے، پلاسکتے ہیں۔

گرمیوں میں یہی صاحب شکرنجی بیچتے ہیں اور پینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی دوسری دنیاؤں سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ پتہ نہیں ان کے سوپ میں کیا بات ہے کہ من چہکنے لگتا ہے، آدمی مجھ جیسا ہو تو طبیعت پر نکھار ہی آجائے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب وہاں سے ہوکر میں اپنے دوستوں کے پاس کمیونٹی سنٹر پر پہنچا تو چائے پی گئی۔ لیوسا، مارکیز، فلوبیر، نابوکوف کی باتیں کرتے کرتے ہم ایک جگہ پہنچے، جہاں دیوالی کی وجہ سے کرسمس کا سا سماں بندھا ہوا تھا۔

جھاڑیوں پر لائٹنگ کی گئی تھی۔ Pavementپر بیٹھے کچھ نوجوان بالی ووڈ کے ہجریہ گانے گارہے تھے۔ ہمیں جب کہیں جگہ نہ ملی تو ہمارا ایک دوست اسامہ فرش پر ہی بیٹھ گیا، اس کی دیکھا دیکھی علی نے بھی پلوتھی مار لی، ارشاد بھی ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے آیا اور دو لوگوں کو دیکھ کراس نے بھی دھونی رمالی۔ میں کھڑا رہا تو علی اٹھ کر ایک اونچا پتھر میرے پاس لے آیا اور میں اس پر بیٹھ گیا، اسامہ نے پوچھا کہ زمین پر کیوں نہیں بیٹھ رہے ہو؟

میں نے جواب دیا کہ اس وقت تو لوگ دیکھ بھی نہیں رہے، اور جو دیکھ رہے ہیں، وہ جانتے بھی نہیں کہ میں کوئی شاعر ہوں۔ اس لیے یہاں کسی بھی طرح کی انکساری کا کیا فائدہ؟ جس کے کوئی مارکس ہی نہیں ملیں گے اور ٹراؤزر گندی ہوگی سو الگ۔ اس پر دوستوں نے قہقہہ لگایا اور ہم چاروں پھر سے اپنی گفتگو میں ڈوب گئے۔ چکن سوپ کا مزہ ابھی بھی تالو کی چھت سے لپٹا چٹاخے لے رہا تھا اور آسمان میں ختنگے چھوٹ رہے تھے۔ میری دائیں طرف درختوں سے جھانکتی ہوئی ایک گول سفید لائٹ ہرے پتوں کے درمیان ایسی دکھ رہی تھی، جیسے کسی یونانی دیوتا کا چمکدار تاج ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).