عمراں خان مولانا فضل الرحمان سے نہیں، لوگوں کی بھوک سے ڈریں


وزیر اعظم عمران خان نے متعدد ٹوئٹ پیغامات میں اپنی اقتصادی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال کی مدت میں ہی ملکی معیشت کو درست راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس طرح سابقہ حکومتوں کی غلط کاریوں کی اصلاح اور نئے پاکستان کی تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے۔

 اپنی حکومت کی شاندار معاشی کارکردگی پر شادمانی کے پھریرے لہراتے ہوئے عمران خان یہ بھول رہے ہیں کہ معاشی بے رہروی یا ناقص مالی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں اپنے ساتھی اور معتمد اسد عمر کو وزارت خزانہ سے علیحدہ کرکے معیشت سے متعلق سارے معاملات عالمی مالیاتی اداروں سے ’ادھار ‘لئے ہوئے ماہرین کے حوالے کرنے پڑے تھے۔ ان میں سے ایک مالی امور کے مشیر حفیظ شیخ ہیں جو اس وقت واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان بچت اور معاشی بہتری کے وہ سارے تیر بہدف نسخے پوری وفاداری سے استعمال کر رہا ہے جو اس کی بیماری کا علاج کرنے کی غرض سے تجویز کئے گئے ہیں۔ معاشی معاملات میں وزیر اعظم کے دوسرے دست راست رضا باقر ہیں جن کی نگرانی میں اسٹیٹ بنک کو خود مختار ادارہ بنانے کا یقین دلایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اس ہونہار معاون نے چند روز پہلے ہی ملک کے عوام کو ’خوش خبری ‘ سنائی ہے کہ وہ مزید مہنگائی کے لئے تیار رہیں۔

عمران خان نے سیاسی میدان میں 22 برس گزارے ہیں لیکن وہ سیاست میں بھی نعروں اور الزام تراشی کے ہنر کے علاوہ کوئی خاص استعداد حاصل نہیں کر سکے۔ اس لئے وہ جب بھی معیشت اور اقتصادی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اس موضوع سے براہ راست شناسائی کے بغیر اپنے مشیروں اور معاونین کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو پیش کرتے ہوئے خوشی اور کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسی لئے ان کی خوشی اور کامیابی کا دعویٰ بھی اسی قدر گمراہ کن ہوسکتا ہے جس قدر معاشی بہتری کے لئے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار گنجلک، ناقابل فہم اور مشکل ہوتے ہیں۔ اکثر صورتوں میں بہتری کے اشاریوں کو، ادا کی جانے والی قیمت سے علیحدہ کر کے سیاسی فائدے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس حد تک حکومت کی معاشی ٹیم خوب کامیاب ہے اور عمران خان کا اس پر اظہار مسرت بھی قابل فہم ہے۔

معیشت کی بہتری کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے البتہ عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک میں بڑھنے والی مہنگائی اور بیروزگاری بھی دراصل ان ہی اقدمات کی دین ہے۔ جوں جوں معیشت کی راہ متعین کرنے کے لئے معاشی سختی کی جائے گی، عوام کی سہولتیں کم اور ان پر بار میں اضافہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ حکومت اور حکمرانوں کی مقبولیت بھی متاثر ہوگی۔ حیرت انگیز طور پر معیشت کے بارے میں وزیر اعظم کے دل خوش کن ٹوئٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کہ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ میں صراحت سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصہ تک مالی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی ملک کی پیداواری صلاحیت کم رہے گی اور معیشت آبادی کے حجم کے مطابق روزگار فراہم نہیں کر سکے گی۔

اس کے برعکس جن مثبت اشاریوں کو ملکی معیشت کی بہتری کا نسخہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، ان کے نتیجے میں قومی پیداوار کا سست رو ہونا فطری امر ہے۔ پیداوار میں اضافہ کے بغیر روزگار کے مواقع کم ہوں گے۔ بلکہ جن صنعتوں یا شعبوں کو حکومتی پالیسی کی وجہ سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، وہاں کام کرنے والے لوگوں کو کام سے نکالا جائے گا۔ جیسے کہ اس وقت ملک کی آٹو انڈسٹری میں کم از کم 40 ہزار کارکنوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے اور اس شعبہ میں مزید لوگوں کو بھی کام سے نکالنے کی خبر دی جارہی ہے۔ اسی طرح ملک کے سب سے بڑا پیداواری شعبے یعنی ٹیکسٹائل سے وابستہ لوگوں کو بھی دگرگوں حالات کا سامنا ہے۔ اس کی ایک وجہ تاجروں اور صنعتکاروں پر لین دین کے لئے شناختی کارڈ فراہم کرنے کی شرط ہے اور دوسری وجہ حکومت کی طرف سے اس شعبہ کو مناسب سرپرستی فراہم نہ کرنے کی پالیسی ہے۔

ان حالات میں وزیر اعظم اور حکومت کی اگر یہ بات درست ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور وہ اس وقت گزشتہ چالیس ماہ کی کم ترین سطح پر ہے تو دوسری طرف یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ قومی پیداوار میں اضافہ بھی پانچ فیصد کی شرح سے کم ہو کر اڑھائی فیصد تک رہ گیا ہے۔ اسی طرح مہنگائی یا افراط زر کی شرح بارہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں اضافہ کا امکان ہے۔ عمران خان مدینہ ریاست کے فلاحی ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے جس عزم و جذبہ کا اظہار کرتے ہیں، عالمی اداروں کی نگرانی میں اختیار کی گئی مالی پالیسیوں کے تحت سب سے پہلے اسی مقصد کو ٹھیس لگے گی۔ لوگوں کو روزگار نہیں ملے گا اور عوام کی قوت خرید میں کمی واقع ہوگی۔ ملک کے ہر طبقہ میں یہ دباؤ اس وقت بھی محسوس کیا جارہا ہے لیکن اگر عالمی بنک کی رپورٹ اور حکومت کی مالی حکمت عملی پر نگاہ رکھی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس میں اضافہ ہوگا۔ ایسے میں مدینہ ریاست کے فلاحی نظام کو نافذ کرنے کا جذبہ تو شاید برقرار رہے لیکن اس جذبے پر عمل درآمد کے لئے وسائل فراہم نہیں ہوں گے۔ ایسی ہی حکومت احساس پروگرام کے تحت سرکاری خیراتی لنگر کو فلاحی منصوبہ قرار دینے کی بھونڈی کوشش کرتی ہے۔

فلاحی ریاست کی بنیاد خواہ اسے اسکنڈے نیویا کے ویلفئیرماڈل کا نام دیا جائے یا مدینہ ریاست کا فلاحی ماڈل کہا جائے، خیرات پر نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور ملک میں پیداواری صلاحیت اور فنی شعبہ جاتی مہارت میں اضافہ سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اقتدار میں آنے سے پہلے جب آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا اعلان کرتی تھی تو دراصل اس کا یہی مقصد تھا کہ ملک کو عالمی اداروں کی معاشی جکڑ بندی سے نجات دلائی جائے گی۔ لیکن گزشتہ ایک سال میں حکومت نے جو سب سے بڑا ڈرامائی اقدام کیا ہے، وہ اس وعدے سے انحراف ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لیا گیا ہے بلکہ ملک کی معیشت کے نگران بھی عالمی اداروں سے ہی حاصل کئے گئے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کو کسی ملک کے عوام کی بہبود اور سہولت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان کا مقصد اپنے سرمایے کو منافع و سود سمیت واپس وصول کرنا ہوتا۔ اس کی قیمت عام طور سے کسی بھی ملک کے عوام اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام آج کل اسی دور سے گزر رہے ہیں۔

عمران خان نے آج معیشت کی بہتری کی خبر دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ درآمدات میں کمی کے علاوہ گزشتہ ایک برس میں ملک میں غیرملکی سرکاری سرمایہ کاری میں 111 فیصد، نجی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 194 فیصد اضافہ ہؤا ہے جبکہ تارکین وطن کی ترسیلات زر میں ساڑھے سترہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان معلومات و اعداد و شمار کو متبادل معاشی اشاریوں کی کسوٹی پر پرکھے بغیر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس سرمایہ کاری اور زرمبادلہ میں اضافہ کی وجہ سے ملکی معیشت میں تحرک پیدا ہورہا ہے، لوگوں کو روزگار میسر آ رہا ہے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہے یا یہ سارا سرمایہ اقتصادی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں ہی کہیں گم ہورہا ہے اور محض معاشی زائچوں کی زیبائش کے کام آ رہا ہے۔

حکومت اس وقت جس معاشی منصوبے پر کام کر رہی ہے، اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ غربت میں اضافہ ہوگا اور عام شہریوں کی قوت خرید مزید کم ہوجائے گی۔ اس وقت ملک کی ایک چوتھائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ موجودہ معاشی منصوبہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تو کم کرے گا لیکن غریبوں کی تعداد میں اضافہ اور ان کی حالت زار کو ابتر کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ ان پالیسیوں کی تہ میں چھپا یہی وہ دھماکہ خیز مواد ہے جس سے حکومت وقت کو ڈرنا چاہئے۔ کسی بھی ملک کی معاشی پالیسی کو اس وقت تک متوازن اور کامیاب نہیں کہا جاسکتا جب تک وہ عوام کو مصروف رکھنے اور ان کا پیٹ بھرنے کا اہتمام نہ کرسکے۔ ملکی معاشی پالیسی کو عالمی اداروں کے طے شدہ چوخانہ میں فٹ کرنے سے لوگوں کی تکلیف اور پریشانی میں کمی نہیں ہوگی۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں یہ پریشانی لنگر خانے کھول کر دور نہیں کی جا سکتی۔

معیشت میں سال رواں کا نوبل انعام جیتنے والے ماہرین میں بھارت کے ابھیجیت بینر جی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈوفلو اور امریکی ماہر مائیکل کریمر شامل ہیں۔ ان تینوں نے غربت کے خاتمہ کے روایتی طریقوں پر ہی تحقیق کی ہے اور 18 ملکوں کے لوگوں کے رہن سہن اور حالات کار کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غربت میں اضافہ کی وجہ وسائل میں کمی یا تاریخی واقعات کی بجائے لوگوں کی جہالت،نظریات اور ان سے متعلقہ عوامل ہوتے ہیں۔ ان سے نمٹے بغیر کسی ملک میں غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں مذہبی نعروں کو سیاسی کامیابی کی سیڑھی بنا کر عوام کو حقائق سے نابلد رکھنے کا کام پوری تندہی سے کیا جاتا ہے۔ بار بار مدینہ ریاست کا ذکر کر کے عمران خان تواتر سے یہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلوگن کے ذریعے لوگوں کو جذباتی طور سے اپنے ساتھ ملانا مقصود ہوتا ہے لیکن جس معاشی بہبود اور سماجی انصاف کے لئے یہ نعرہ لگایا جارہا ہے، اسے فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات اور وسائل میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہرین کی تحقیق ہے کہ اس کے لئے عوام کو جذباتی تصورات اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت اس وقت مولانا فضل الرحمان کو آزادی مارچ سے باز رکھنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کو جاننا چاہئے کہ یہ مارچ تو شاید ٹل جائے یا اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن انہیں اس دن سے ڈرنا چاہئے جب اس ملک کے بھوکے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali