سیاست میں علماء کا پہلا قدم: گاندھی جی کا کردار کیا تھا؟


ہر طرف فضل الرحمن صاحب کے دھرنے کا چرچا ہے۔ اس وقت جو بحثیں چل رہی ہیں، ان میں ایک تاریخی حقیقت بالکل نظر انداز کی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ فضل الرحمن صاحب کا یہ ‘ملین مارچ’ اور دھرنا ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے جب برصغیر کی تاریخ میں بہت سے اہم واقعات کو پورے سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ آج سے پورے سو سال پہلے ہندوستان کے علماء نے بڑے پیمانے پر سیاست میں قدم رکھا اور مذہبی سیاست کا آغاز ہوا۔

 پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران تو مسلمان تقریباََ مکمل طور پر برطانیہ کے ساتھ رہے۔ ہندوستان کے ہزاروں مسلمانوں نے برطانوی فوج میں شامل ہو کر ترک فوجیوں پر گولیاں چلائیں۔ اس جنگ کے دوران علماء کا ایک بڑا وفد وزیر ِ ہند سے ملا اور علماء نے انہیں یقین دلایا کہ سلطنت ِ برطانیہ جو کچھ کر رہی ہے معدلت پروری اور عدل پروری اور رعایا کے بہبود کے لئے ہی کر رہی ہے اور یہ سلطنت انہی خوبیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ (اہلحدیث 30 نومبر 1917)

جب جنگ ختم ہوئی تو ترکی بھی جرمنی کی طرف شکست خوردہ ممالک میں کھڑا تھا۔ اور فاتح اقوام اُس کی قسمت کا فیصلہ کر رہی تھیں۔ ترکی کی سلطنت ِ عثمانیہ عرب ممالک کے علاوہ یورپ اور وسطی ایشیا کے کئی علاقوں کی مالک تھی۔ فاتح چھری لے کر اس لاش سے اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے تھے۔ ایسی صورت ِ حال میں لازمی بات تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ترک قوم سے ہمدردی پیدا ہوتی اور وہ ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے اورایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ 1919 کے آخر میں خلافت کمیٹی قائم کی گئی اور علی برادران شروع سے اس کے روح ِ رواں تھے۔ لیکن جب مطالبات پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کمیٹی نے یہ موقف پیش کیا کہ ترکی کے سلطان تمام مسلمانوں کے مذہبی خلیفہ ہیں اور شریعت کی رو سے ان کی مدد اور اطاعت فرض ہے۔

حقیقت یہ تھی کہ صرف شیعہ احباب ہی نہیں بلکہ دوسرے کئی گروہ بھی ترکی کے بادشاہ کو اپنا واجب الاطاعت مذہبی خلیفہ نہیں سمجھتے تھے۔ اور یہ دعویٰ ان کو دور کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ وقت کے ساتھ اس تحریک کا مذہبی رنگ شدید سے شدید تر ہوتا گیا۔ اس کے علاوہ خلافت کمیٹی نے برطانوی حکومت کے سا منے یہ مطالبہ پیش کیا کہ ترکی کے سلطان ہمارے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسیع علاقے پر قابض ہو، اس لئے ضروری ہے کہ عرب ممالک اُن کے قبضہ میں رہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عرب ممالک اُس وقت آزاد ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے اور وہ ترکی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ یہ بات اصولی طور پر غلط تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اُن کے معاملات میں اس طرح دخل دیتے۔

ایک طرف تو یہ دعویٰ تھا کہ خلافت مسلمانوں کا اندرونی مذہبی معاملہ ہے اور وہ مغربی طاقتوں کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے اور دوسری طرف یہ بوالعجبی ظاہر ہوئی کہ گاندھی جی یکلخت اس تحریک کے ایک اہم قائد کے طور پر سامنے آ گئے۔ مسجد میں خلافت کا جلسہ ہو رہا ہے تو گاندھی جی کی صدارت میں ہو رہا ہے۔ دہلی میں آل انڈیا خلافت کانفرنس ہو رہی ہے تو خواجہ حسن نظامی صاحب، مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب اور مولانا فاخر الہ آبادی جیسے علماء اور سجادہ نشینوں کی موجودگی میں گاندھی جی کی صدارت میں ہو رہی ہے۔ خلافت کمیٹی غور و خوص کر رہی ہے تو گاندھی جی وہاں راہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ کلکتہ میں مسلمانوں کے مذہبی مدرسہ کا افتتاح ہو رہا ہے تو گاندھی جی یہ افتتاح کر رہے ہیں۔ بات گاندھی جی تک محدود نہیں رہی۔ آریہ سماج مسلمانوں اور اسلام کی دشمنی میں مشہور تھے۔ ان کے لیڈروں یعنی سوامی شردھانند اور لالہ لاجپت رائے کو جامع مسجد دہلی میں بلا کر تقاریر کرائی گئیں اور انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ چار سال بعد ہی شردھانند صاحب مسلمانوں کو ہندو بنانے کی منظم تحریک ‘شدھی’ چلاتے نظر آ رہے تھے۔

1818 میں گاندھی جی نے حکومت کے خلاف پُر امن مزاحمت ستیہ گرہ کی تحریک چلا کر جلد ہی ختم کر دی تھی۔ لیکن اب تحریک ِ خلافت اور پنجاب میں لگائے جانے والے مارشل لاء کے دوران حکومت کے بے سروپا مظالم نے راہ ہموار کر دی تھی۔ انہوں نے دوبارہ ستیہ گرہ، ترک ِ موالات اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔

maulana muhammad ali and Dr ansari

یہ ایک سیاسی مہم ہونی چاہیے تھی جو جلد مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ علماء سیاسی منظر پر نمایاں ہونے لگے۔ چنانچہ نومبر 1919میں خلافت کانفرنس کے بعد علماء مل کر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ پہلے تو سیاسی کام مسلم لیگ کر رہی تھی لیکن اب خلافت جیسا اہم مذہبی مسئلہ درپیش ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ علماء اپنی سیاسی تنظیم بنا کر راہنمائی کریں۔ اسی وقت جمیعت العلماء ہند کی بنیاد رکھی گئی اور اس تنظیم کا پہلا فتویٰ کیا تھا؟ یہ فتویٰ جس پر پانچ سو علماء کے دستخط تھے گاندھی جی کی ترک ِ موالات کے حق میں تھا۔ یہی قرارداد کانگرس کے اجلاس میں منظور ہوئی اور وہاں مسلمانوں میں صرف محمد علی جناح اس کی مخالفت کرتے رہے۔

اب یہ تحریک ایک مذہبی تحریک کے طور پر زور پکڑ رہی تھی۔ گاندھی جی تو مہاتما کے روپ میں سامنے آ رہے تھے۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کا ‘امام ‘ کون ہوگا؟ مولانا ابوالکلام آزاد رہا ہوکر فروری 1920 میں کلکتہ کی خلافت کانفرنس میں پہنچے اور یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک امام ہونا ضروری ہے جس کی سب اطاعت کریں اور یہ امام ہندوئوں سے معاہدہ کرے اور دونوں مل کر انگریزوں کے خلاف جہاد کریں۔ مولانا کی بیعت کا خفیہ سلسلہ شروع بھی ہوا لیکن ہم مسلک احباب کی طرف سے ہی ایسی مخالفت سامنے آئی کہ یہ سلسلہ روکنا پڑا۔

ابھی یہ قضیہ ختم نہیں ہوا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے ‘ہجرت’ کا فتویٰ دے دیا [اہلحدیث 2 اگست 1920]۔ اس کے مطابق اب ہندوستان میں حالات ایسے تھے کہ یہاں سے ہجرت فرض ہو چکی تھی۔ اور مسلمانوں پر لازم تھا کہ افغانستان سے ہجرت کر جائیں۔ ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچیں اور افغانستان چلے گئے اور کئی راستہ میں مر گئے، باقی افغان مہمان نوازی کے مظالم سہہ کر آخر کار واپس ہندوستان آگئے۔

ایک تو مسلمان تعلیم میں پسماندہ تھے۔ اس پر ظلم یہ کہ تحریک ِ خلافت کے لیڈر سرکاری امداد یافتہ کالجوں میں جا کر تحریک کرتے تھے کہ یہاں اپنی تعلیم ترک کر دو۔ اور تو اور علی گڑھ کالج کو بھی نہ بخشا۔ وہاں پر بھی طلباء کو کالج چھوڑنے پر آمادہ کرنا شروع کیا۔ قائد ِ اعظم نے 1920 میں ناگپور میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی جی کو مسٹر گاندھی کہا تو مسلمانوں سمیت سب نے شور مچادیا کہ ‘مہاتما ‘ کہو۔ اور تقریر بھی مکمل نہ کرنے دی۔

یہ تھا ہندوستان میں مذہبی سیاست کا آغاز۔ چند سال میں انجام یہ ہوا کہ چوراچوری مقام پر کئی پولیس والے قتل کردیئے گئے تو گاندھی جی نے اپنی تحریک ختم کردی۔ کانگرس نے بھی جلد سول نافرمانی ختم کی۔ ترکی میں کمال اتا ترک نے خلافت ختم کردی۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ اب آپ فضل الرحمن صاحب کے دھرنے کی تیاری کریں۔

(تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں تحریک ِ خلافت مصنفہ قاضی عدیل عباسی، تحریک ِ خلافت مصنفہ میم کمال اوکے)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).