خوشیاں آپ کی مٹھی میں



’’تتھا گت، کیا شانتی اور آنند ستیہ ہیں‘‘؟
آنند کا سوال سن کے مہا آتما بدھ نے، پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑے پتوں سے مٹھی بھری۔
’’اے آنند، کیا سارے پتے میری مٹھی میں آ گئے ہیں‘‘؟
آنند جھجکا، ’’تتھا گت، یہ رُت پت جھڑ کی ہے، جنگل میں اتنے پتے جھڑے ہیں، کہ ان کی گنتی نہیں ہو سکتی‘‘۔
’’تو نے سچ کہا۔ اے آنند، اپت جھڑ کے ان اَن گنت پتوں میں سے، بس میں مٹھی بھر سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، میں نے ان کا پرچار کیا۔ پر سچائیاں ان گنت ہیں، پت جھڑ کے پتوں کے سمان‘‘۔

خوشیاں سچائی ہیں، تو ہمارے اردگرد ہی بکھری پڑی ہیں، بالکل ایسے جیسے پت جھڑ کے موسم میں اپنی ٹہنیوں سے ٹوٹے ہوئے پتے۔ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے، اور ہماری زندگی کا بیش تر حصہ اُن خوشیوں کے تعاقب میں کٹ جاتا ہے، جو پہلے ہی سے ہمارے گرد موجود ہیں، لیکن ہم انہیں پہچاننے میں دیر کر دیتے ہیں۔ اگر خوشی کا تعلق صرف حصول لذات سے جوڑ دیا جائے، تو خواہشات کی کوئی حد نہیں۔ اس سفر کا پہلا سنگِ میل مثبت سوچ ہے۔ کیا قلیل زندگی کی قلیل مہلت میں، ہم ان تمام خوشیوں کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں؟

ہر ایک کے لیے خوشی کے معنی مختلف ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سمجھیے کہ خوشی ہے کیا! کچھ دولت پا کر خوش ہوتے ہیں، کچھ کے لیے خوشی کا پیمانہ، معاشرے میں اعلی رتبے کا حصول اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لیے دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا، خوشی کے احساس کو چھونا ہے۔ خوشی کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ یہ انسان کے اپنے اندر سے پھوٹنے والا ایک جذبہ ہے جس کے محرکات مختلف ہو سکتے ہیں اور اس کا تعلق ہمارے گرد و پیش کے حالات پر ہے۔

خوشی تکمیل کا ایک احساس ہے، جو قلب کو سکون سے بھر دے۔ کیا تکمیل کا یہ احساس، تبھی ممکن ہے کہ جو کچھ نظر میں ہے، وہ دست رس میں بھی ہو؟ یقیناً نہیں۔ پھر کوئی خوش کیوں کر رہ سکتا ہے؟ ایک چیز جو کسی خاص وقت میں، بہت خوشی دیتی ہو، لازمی نہیں کہ دوسری بار ملنے پر بھی، دل کے تاروں کو بالکل پہلے کی طرح ہی گدگدائے۔

خوش رہنے کے لیے سب سے پہلا قدم اپنی نگاہوں میں اپنی قدر پیدا کرنا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش ضروری ہے کہ آپ کی ذات کی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں؟ یہ جاننا کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جو آپ کو خوش رکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو وقت دینا، خوش رہنے کا ابتدائی قدم ہے اور اس کے لیے اپنے اردگرد ایک متوازن فضا قائم رکھنا ضروری ہے۔ فکر و عمل کا آپسی تعلق بہت گہرا ہے۔ معاشرے کے روائتی انداز سے ہٹ کر ایک تخلیقی سوچ اور سرگرمی مزاج پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔

جو موجود ہے اس پر شکر کر، جو دست رس میں ہے، مگر دست یاب نہیں، اُس کے لیے کوشش اور جو دائرہ دست رس سے باہر ہے، اس پر قناعت۔ ہر انسان خوش رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ تگ و دو کی ضرورت بھی نہیں۔ انسان کو اگر کچھ چاہیے، تو اپنے اندازِ فکر میں تھوڑی سی تبدیلی۔

زندگی ایک پیکج کی طرح ہے، جس میں تلخ اور خوش گوار واقعات ہاہم مل کر ہماری یادوں کے خزانے کو جنم دیتے ہیں۔ ماضی کی تلخ یادوں یا حال کی سختیوں میں گزرے وقت میں دست یاب سہاروں کی یادیں، ایک نرگسیت کا سا سماں باندھ دیتی ہیں۔ اپنے زمانہ حال کو بہتر بنانے کی سعی کرتے رہیں، کہ یہی زمانہ حال، آیندہ کل ماضی میں تبدیل ہو گا۔ خوشیاں ہمارے اردگرد ہی بکھری پڑی ہیں۔ خیال رہے، آنند گوتم کے ساتھ تھا۔ اس آنند کو پہچاننے میں تاخیر، کہیں خوشی کی تلاش میں تاخیر نہ کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).