انڈیا، پاکستان کشیدگی: ’لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتحال کا نقصان صرف کشمیریوں کو ہو رہا ہے‘


انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر پیش آئے حالیہ کشیدگی کے واقعات میں اب تک سرحد کے دونوں اطراف متعدد عام شہریوں اور فوجی جوانوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

حالیہ کشیدگی دونوں ممالک کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے عام شہریوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کر رہی ہے اور انھیں جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصانات کا بھی سامنا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صورتحال

صحافی ایم اے جرال کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ سنیچر کو رات گئے انڈین فوج نے ضلع نیلم کے علاقوں جورا، اشکوٹ ،شاہ کوٹ آٹھمقام، اسلام پورہ اور کنڈل شاہی جبکہ ضلع مظفرآباد کے علاقے نوسیری، پنجکوٹ اور کنور میں مقامی آبادی کو نشانہ بنایا۔

حکام کے مطابق گولہ باری سے سب سے زیادہ جانی نقصان ضلع مظفر آباد کی حدود میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان، انڈیا کشیدگی: پس پردہ سفارتی کاوشیں

’ضرورت پڑی تو ایل او سی پار بھی کر سکتے ہیں‘

ایل او سی پار کرنا ’انڈین بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنا‘ ہو گا

دارالحکومت مظفرآباد سے نوسیری تقریباً چالیس کلومیٹر دور ہے جس کے بعد تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر چہلانہ کراسنگ پوانٹ کا مقام آتا ہے۔

دریا نیلم کی ایک جانب چلہانہ گاؤں جبکہ دوسری جانب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کا گاؤں ٹیٹوال اور پھر عقبی جانب وادی لیپہ کا گاؤں ٹنگڈار آتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر مظفرآباد بدر منیر کے مطابق انڈین فوج کی گولہ باری سے نوسیری اور پنجکوٹ میں پانچ افراد ہلاک جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں تین افراد نوسیری جبکہ دو افراد پنجکوٹ میں ہلاک ہوئے۔

نوسیری میں ہلاک ہونے والے تین افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے جن میں ایک باپ، بیٹا بھی شامل ہیں۔ جبکہ پنجکوٹ میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے جو یہاں تعمیر ہونے والی ایک سڑک پر کام کر رہے تھے۔

نوسیری میں نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ کے لیے قائم ڈیم کے لیے بنائی جانے والی سرنگ کے قریب ہلاک ہونے والے حاجی اعظم کے بیٹے شجاع اعظم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اچانک نوسیری نوسدہ کی مقامی آبادی پر گولہ باری شروع ہوئی جس کی وجہ سے میرے خاندان والے محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لیے نوسیری ڈیم کی سرنگ میں جا رہے تھے۔‘

’میرے والد، بھائی اور ماموں خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مجھ سے آگے کچھ فاصلے پر پیدل چل رہے تھے کہ اچانک ایک گولہ ان کے پاس آ کر گرا جس کے نتیجے میں میرے والد، بھائی اور ماموں موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ میرے گھر کی تین خواتین زخمی ہوئیں۔’

حکام کے مطابق گذشتہ رات گولے باری کے بعد منصوبے پر کام کرنے والے 31 چائینیز اہلکاروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

ڈیم کی ٹنل پر گولہ لگنے سے ہلاک ہونے والے حاجی سرفراز کے بیٹے اسد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جب بھی کشیدگی ہوتی ہے تو اس طرف بھی کشمیری مرتے ہیں دوسری جانب بھی کشمیری مرتے ہیں اس سے کسی کا کچھ نہیں جاتا ہر طرف کشمیری مر رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ مسئلہ کیا ہے آرمی والے آرمی پر فائر کریں یہ تو سمجھ آتی ہے مگر مقامی آبادی پر فائر کرنا یہ کہاں کا قانون ہے۔’

نوسدہ سے تعلق رکھنے والی فرسٹ ایئر کی طالبہ اقرا عارف نے جبڑی بسناڑہ کے قریب بی بی سی کو بتایا کہ ‘جب رات کو ہم سو رہے تھے اس وقت مقامی آبادی پر انڈین فوج نے گولے داغے ہم سارے گھروں سے نکل کر ادھر ادھر بھاگے۔ سب لوگ چائنہ پروجیکٹ میں جو سرنگ بنی ہوئی ہے اس میں جا کر چھپے، رات ساری وہاں ہی گزاری صبح اپنے گھر نوسدہ واپس آ گئے اور اب ہم بہک جا رہے ہیں۔‘

یاد رہے بہک اس مقام کو کہتے ہیں جہا‍ں اس خطے کے لوگ گرمیوں میں اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ چند ماہ کے لیے عارضی طور پر قیام کرتے ہیں۔

نوسیدہ کے ایک اور رہائشی محمد عارف نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘رات کو جو فائر ہوا اس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہم بھی واپس اپنی بہکوں پر جا رہے ہیں۔‘

رات کی گولہ باری سے بہت سے افراد نقل مکانی کر کے یا تو دارالحکومت مظفرآباد جا چکے اور کچھ دیگر علاقوں یا پھر بہکوں پر واپس جا رہے ہیں۔

نوسیری ڈیم کے قریب ہونے والی گولہ باری سے ہلاک ہونے والے تین افراد کی میتوں کو بھی سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر نوسیری نوسدہ سے بلندی کی جانب دو گھنٹے کی گاڑی پر مسافت پر ان کی بہک جبڑی بسناڑہ میں لایا گیا جہاں ان کی نمازہ جنازہ ادا کرنے کے بعد سوگواروں کی موجودگی میں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔

سنیچر کے روز ہونے والی گولہ باری سب سے زیادہ مالی نقصان جورا کے علاقے میں ہوا۔ نوسیری سے جورا تک گاڑی کے ذریعے پہنچنے کے لیے کم از کم 45 منٹ لگتے ہیں۔

ضلع نیلم میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے افسر اختر ایوب کے مطابق گذشتہ روز جورا بازار میں رات دس بجے سے صبح چار بجے تک بھاری ہتھیاروں سے وقفے وقفے سے گولہ باری ہوئی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ پانچ افراد زخمی ہو گئے۔

انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق صوبہ بلوچستان سے تھا جو یہاں کاروبار کرتا تھا۔ گولہ باری سے جورا بازار میں کم سے کم 57 دکانی‍ں جزوی یا مکمل تباہ جبکہ جورا سمیت دیگر جگہوں پر 85 مکانات جزوی یا مکمل تباہ ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق لگ بھگ ایک درجن گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی تباہ ہوئیں ہیں۔

جورا بازار شاہراہ نیلم پر قائم ہے جس کی ایک جانب مقامی افراد کے رہائشی مکانات ہیں جبکہ اس بازار سے پہلے پاکستانی فوج کا ایک کیمپ بھی ہے۔

بازار کے دوسری جانب دریا نیلم گزرتا ہے جس کے ساتھ ایک بلند پہاڑ ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں صورتحال

نمائندہ بی بی سی ہندی سندیپ سونی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں نمائندہ بی بی سی ریاض مسرور سے بات کر کے وہاں کی صورتحال جانے کی کوشش کی ہے جس کی تفصیلات یہاں بتائی جا رہی ہیں۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ضلع کپواڑہ کے دو بارڈر سیکٹرز تتوال اور تنگدھار سب سے زیادہ حساس ہیں اور یہاں شیلنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

مقامی افراد اور پولیس کے مطابق اتوار کی صبح پانچ بجے تک لگاتار فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔ تتوال میں گولے گرنے کے باعث مقامی افراد کے مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

کشمیر

اسی علاقے میں گولہ باری کے باعث ایک 55 سالہ بزرگ شہری محمد صادق ہلاک ہوئے۔ محمد صادق کے بیٹے کی شادی پیر (آج) ہونا تھی۔

گولہ باری سے سات مکانات جل کر خاکستر ہو گئے جبکہ تین شہری زخمی ہوئے ہیں۔

انڈین فوج کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری میں تین انڈین فوجی ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔

ضلع کپواڑہ کی تحصیل کرنا میں بھی صورتحال خوفزدہ کر دینے والی اور تناؤ سے بھر پور ہے۔ کشیدہ صورتحال کے باعث بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں جبکہ چند دوسرے ادھر ہی قیام پذیر ہیں۔

مقامی حکام نے جموں کے سامبا اور ہرن نگر سیکٹرز کے رہائشیوں کے لیے بنکرز تعمیر کیے ہیں۔ تاہم تحصیل کرنا میں بنکرز کافی نہیں ہیں اور جب بھی فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو مقامی افراد یا تو قریب واقع پہاڑوں یا گھر میں بنائی گئی پناہ گاہوں کی جانب دوڑتے ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق طویل عرصے کے بعد انھوں نے اس شدید نوعیت کی گولہ باری دیکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خوف نے بڑے پیمانے پر شہریوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

یاد رہے کہ لائن آف کنٹرول 740 کلومیٹر طویل ہے اور لاکھوں افراد اس کی دونوں جانب آباد ہیں۔

کشمیر

ایک شہری محمد سعید نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ گولہ باری کے باعث بہت سے گھر جلے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں گھروں کی تعمیر اینٹ کے بجائے لکڑی سے ہوتی ہے۔

دونوں ممالک کی افواج کا مؤقف

بی بی سی ہندی کے مطابق انڈین آرمی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شہری علاقوں پر بلااشتعال فائرنگ کی ہے جس میں ایک عام شہری جبکہ تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

انڈین فوج کے مطابق تین افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سیزفائر کی خلاف ورزی اس وقت عمل میں آئی جب پاکستان کی جانب سے انڈیا میں مبینہ دراندازی کی کوشش کی گئی۔

اس کے جواب میں انڈین آرمی نے ردعمل دیتے ہوئے شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

انڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت نے میڈیا نمائندگان کو بتایا ہے کہ انڈین آرمی کے جوابی اقدام میں پاکستانی فوج کے چھ سے دس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شدت پسندوں کے تین کیمپس کو تباہ کیا گیا ہے۔

https://twitter.com/ANI/status/1185905388845195266?s=20

بپن راوت کے مطابق جوابی کارروائی میں بارڈر پار چھ سے دس شدت پسند بھی مارے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انڈین آرمی چیف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘انڈین آرمی چیف کا وہ بیان جس میں مبینہ طور پر تین کیمپس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ مایوس کن ہے کیونکہ وہ (آرمی چیف) ذمہ دار پوسٹ پر ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈین ایمبیسی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی میڈیا اور سفارت کاروں کو ساتھ لے جا کر ان مبینہ کیمپوں کی زمین پر موجودگی کو ثابت کریں۔

https://twitter.com/OfficialDGISPR/status/1185991716861612032?s=20

ترجمان کے مطابق بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ انڈیا کی جانب سے شروع کیا گیا جس کے درعمل میں کارروائی عمل میں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین فوج کے جھوٹے دعوے ان کے داخلی مفاد کے لیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانی کی جانب سے کی گئی جوابی کارروائی میں نو انڈین فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

رواں سال فروری میں بھی انڈیا نے بالا کوٹ اور سنہ دو ہزار سولہ میں لائن آف کنٹرول پر مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp