علامہ ضمیر اختر نقوی سے خصوصی گفتگو


علامہ ضمیر اختر نقوی کی بنیادی شناخت عالم دین کی ہے لیکن وہ زباں داں اور ادیب بھی ہیں۔ ان کے کتب خانے میں ہزاروں کتابیں اور مخطوطے ہیں۔ ممتاز مرثیہ نگار اور محقق ڈاکٹر ہلال نقوی کا خیال ہے کہ علامہ صاحب سے زیادہ مراثی کا ذخیرہ کسی کے ذاتی خزانے میں نہیں ہوگا۔

علامہ صاحب گزشتہ دنوں واشنگٹن آئے تو ہم نے مرثیے پر ان کے کام سے متعلق گفتگو کی۔

سوال: آپ ہر سال کئی کتابیں مرتب کرکے شائع کرتے ہیں۔ آج کل کس موضوع پر کام کررہے ہیں؟

ضمیر اختر: چونکہ مرثیوں کا بہت ذخیرہ میرے کتب خانے میں جمع ہوگیا ہے، جن میں بہت پرانے مرثیے بھی ہیں، اور خدشہ ہوا کہ قلمی نسخے خراب ہوسکتے ہیں، تو میں نے تاریخ مرثیہ نگاری ترتیب دی ہے۔ یہ بیس ہزار صفحات کی پندرہ سترہ جلدیں بن گئی ہیں۔ میں نے ان جلدوں کو مختلف ادوار اور موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔

سوال: کیا یہ صرف اردو مرثیے کی تاریخ ہے؟

ضمیر اختر: نہیں، اس میں تمام زبانوں کے مرثیے شامل ہیں۔ پہلی جلد عربی مرثیہ نگاروں پر ہے۔ شبلی نعمانی نے موازنہ انیس و دبیر میں لکھ دیا تھا کہ عرب میں امام حسین پر مرثیے نہیں لکھے گئے۔ تو بتانا ضروری تھا کہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں مرثیے لکھے گئے۔ ایران میں آیت اللہ عبدالعزیز طباطبائی مرحوم نے مجھے شعرائے طف کے نام سے عربی مرثیے کی آٹھ جلدیں دیں۔ میں نے تلخیص کرکے شعرا کے حالات لکھے اور عربی مرثیوں کا ترجمہ بھی شامل کردیا۔ یہ ایک خاصے کی چیز ہوگی جو اردو میں پہلے نہیں چھپی۔

سوال: عربی کے مقابلے میں فارسی میں بہت زیادہ مرثیے کہے گئے ہوں گے؟

ضمیر اختر: جی ہاں، دوسری جلد فارسی مرثیے پر ہے۔ قدیم ایران سے لے کر مشہور مرثیہ نگار محتشم کاشی اور آخری دور کے شعرا تک، جتنے بھی مرثیے مل سکے، وہ اس میں شامل ہیں۔ پاکستان ہندوستان میں کہے گئے فارسی مرثیے بھی اس میں جمع کرلیے ہیں۔ دبیر اور ان کے استاد میر ضمیر نے بھی فارسی میں مرثیہ لکھا۔ ہمارے دور میں رئیس امروہوی اور نسیم امروہوی نے فارسی میں مرثیے کہے۔

سندھ میں، خصوصاً ٹھٹھے اور خیرپور کے شعرا نے فارسی میں بے شمار مرثیے کہے تھے۔ لیکن میں نے سندھ میں مرثیہ نگاری کی جلد الگ کردی ہے کیونکہ وہ کام پہلے ہوا ہی نہیں تھا۔ سندھی مرثیہ نگاروں نے تین زبانوں میں مرثیے کہے۔ سندھی ، اردو اور فارسی میں بھی۔ نواب خیرپور کے عہد تک کے سندھی اور اردو مرثیے اس جلد میں شامل ہوں گے۔

سوال: ہندوستان کے کون کون سے علاقوں میں مرثیے کہے گئے؟

ضمیر اختر: یہ پوچھیں کہ کون سے علاقے میں مرثیے نہیں کہے گئے۔ تین جلدیں صرف دکنی مرثیے کی ہیں۔ دکن میں مدراس، بنگلور اور پرانی ریاستیں گولکنڈہ، بیجاپور، بیدر، یہ تمام مرثیہ نگاری کے مراکز تھے۔ حیدرآباد بہت بعد میں قلی قطب شاہ آباد کیا تھا۔ اس سے پہلے ادبی مرکز گولکنڈہ تھا۔ میں نے گولکنڈے کے مرثیہ نگار ایک جلد میں کردیے اور بیجاپور کے دوسری جلد میں۔ کیونکہ دونوں ریاستیں الگ الگ تھیں۔ علی عادل شاہ بیجاپور کے بادشاہ تھے اور قطب شاہی گولکنڈے کے۔

اس کے بعد حیدرآباد کی مرثیہ نگاری آتی ہے۔ قدیم زمانے سے جدید دور تک وہ ادبی مرکز تھا۔ دہلی اور لکھنئو کی حکومتیں اجڑنے کے بعد نظام دکن کی حکومت باقی تھی اس لیے زیادہ مرثیہ نگار ان کے پاس چلے گئے۔ انیس اور دبیر نے دکن کا دورہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کے بعد دکن میں ان کے رنگ کے مرثیے لکھے جانے لگے اور قدیم دکنی زبان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

سوال: کیا یہ تمام مرثیے اہل تشیع نے لکھے؟

ضمیر اختر: مرثیے سب نے لکھے۔ بہار میں پھلواری شریف تصوف کا گڑھ تھا۔ وہاں پر صوفی شعرا کی تعداد کئی سو کے قریب ہے اور وہ سب اہل سنت مرثیہ نگار تھے۔ وہاں کے مرثیے کا رنگ الگ ہے۔ لیکن جب انیس اور دبیر پٹنے گئے تو وہاں بھی مرثیے کا انداز تبدیل ہوگیا۔ صفیر بلگرامی اور شاد عظیم آبادی نے انیس و دبیر کا رنگ اپنا لیا۔ 1857 کے بعد پٹنے بھی مرثیہ نگاری کا جو دور شروع ہوا، وہ سلسلہ جمیل مظہری تک آجاتا ہے۔

سوال: غالب کو بڑا شاعر کہا جاتا ہے لیکن انھوں نے مرثیہ نہیں کہا۔

ضمیر اختر: غالب نے فارسی میں مرثیے کہے ہیں۔ اردو میں انھوں نے نہیں لکھا۔ چار بند لکھ کے چھوڑ دیے تھے۔ ان کا ایک سلام بھی موجود ہے۔ لیکن انھوں نے فارسی میں نوحے اور مرثیے کہے۔ وہ سب میں نے دلی کی جلد میں شامل کیے ہیں۔

لیکن اس حصے کا آغاز دلی میں قدیم دور کے مرثیہ نگاروں سے ہوتا ہے۔ ان کے قدیم قلمی نسخے میرے پاس ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو ان شعرا کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ اورنگزیب کے دور کے مرثیے، ولی دکنی کا دلی آنا اور شاعری کا رنگ بدلنا، پھر پرانے شعرا کے مرثیے۔ بعض کے مرثیے نہیں بھی ملے لیکن ان کا ذکر کر دیا ہے۔ اس کے بعد میر تقی میر اور سودا کا عہد ہے۔ ان کے ہم عصر میر سوز وغیرہ اور پھر غالب اور غالب کے بعد تک، یعنی داغ کے بھی سلام اس میں شامل کرلیے ہیں۔

ایک علیحدہ جلد صرف غالب کے شاگردوں کی ہے جنھوں نے مرثیے کہے۔حالانکہ غالب کے شاگرد غزل کے تھے لیکن انھوں نے لکھنئو کے زیر اثر غزل کے ساتھ مرثیہ بھی کہا۔

سوال: لیکن اردو مرثیے کو عروج پر لکھنئو کے شعرا نے پہنچایا۔

ضمیر اختر: لکھنئو سے پہلے فیض آباد میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ شجاع الدولہ کا دور تھا۔ دلی سے ہجرت کرنے والے شعرا فیض آباد آگئے تھے۔ ان میں میر حسن کا خاندان تھا، ان کے والد میر ضاحک تھے۔ میر سوز، سودا، میر یہ سب ہجرت کرکے وہاں آگئے۔ ان کی وجہ سے مرثیہ نگاری شروع ہوئی اور آصف الدولہ کی والدہ بہو بیگم کی عزاداری کی وجہ سے مرثیے کا عروج ہوا۔ اس کے بعد آصف الدولہ نے لکھنئو کو دارالحکومت بنایا تو تمام شعرا لکھنئو چلے گئے۔ آصف الدولہ بھی مرثیے کہتے تھے۔ اس دور میں مصحفی، سعادت یار خان رنگین اور سب سے زیادہ جرات نے مرثیے لکھے ہیں۔

سوال: ان سب کے مرثیے آپ کو کہاں سے ملے؟

ضمیر اختر: جرات کے مرثیے انڈیا آفس لندن میں تھے۔ سعادت یار خان رنگین کا مرثیہ بھی لندن میوزیم سے ملا۔ میں نے ہندوستان، پاکستان، لندن، سب جگہ سے مرثیے جمع کیے ہیں۔

سوال: اس کے بعد انیس اور دبیر کا دور آیا۔

ضمیر اختر: جی ہاں پھر انیس و دبیر اور سنہرا دور آیا۔ ان کے اثرات پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ خاندان انیس کے شعرا میں ان کے بھائی انس اور مونس ہیں۔ ان کے تینوں بیٹے نفیس، جلیس اور سلیس ہیں۔ پوتے دولہا صاحب عروج، پروتے لڈن صاحب محمد حسن فائز، بھانجے بھتیجے، اور میر نفیس کی بیٹیوں کے بیٹے اور انیس کے بھی نواسے۔ بیٹوں کےبھی نواسے میر عارف وغیرہ۔

اس کی وجہ سے یہ ہوا کہ خاندان اجتہاد کے مجتہدین کی خطابت نہ چلی تو انھوں نے بھی مرثیے لکھنے شروع کردیے۔ ایک جلد خاندان اجتہاد کے ان مرثیہ نگاروں کی بن جاتی ہے جو عالم دین تھے، فقہ پڑھے ہوئے، شریعت کے لوگ تھے لیکن وہ مرثیہ لکھنے اور پڑھنے پر مجبور ہوگئے۔ ان میں ماہر ہیں، جاوید ہیں، فاخر ہیں، ذاخر ہیں۔ یہ تمام شعرا خاندان اجتہاد کے ہوگئے۔

انیس و دبیر کے دور میں کئی اور خاندان ابھرے۔ اس میں عشق اور تعشق کا خاندان ہے۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہوگئیں۔ میر انیس کی ایک بیٹی میر عشق کے بھائی صابر کو بیاہ گئیں۔ ان کے بیٹے پیارے صاحب رشید فراق گورکھپوری اور یاس یگانہ چنگیزی کے استاد ہیں۔ اس دور کے بڑے غزل گو شعرا پیارے صاحب رشید کے زیر اثر ہیں تو غزل اور رباعی میں بھی کربلا نظر آتی ہے۔

انیس و دبیر کے پٹنہ اور حیدرآباد دکن جانے کے بعد وہاں کا ماحول تبدیل ہوا۔ ہندوستان میں جگہ جگہ شعرا نے تمام اصناف چھوڑ کے مرثیہ نگاری پر زور دیا۔ کہنے کو بہت سی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں لیکن ایک ایک بستی میں تیس تیس چالیس چالیس مرثیہ نگار ہیں۔ مثلاً جون پور، زیدپور اور سیتاپور۔

لکھنئو 1857 کے بعد اجڑا تو تمام شعرا رام پور چلے گئے کیونکہ وہاں انگریزوں کا قبضہ نہیں ہوا۔ وہاں رضا علی خان سے پہلے تک تمام نوابین اہل سنت عقیدت مند تھے۔ رضا علی خاں کے دور سے بہت بڑی عزاداری شروع ہوئی اور رام پور میں بہت سے اہل سنت شعرا نے مرثیے کہے۔ ایک جلد رام پور کی مرثیہ نگاری پر ہے۔

سوال: آپ نے نواب آصف الدولہ کا ذکر کیا۔ واجد علی شاہ نے بھی تو شاعری کی تھی؟

ضمیر اختر: واجد علی شاہ مرثیہ نگار تھے۔ ان جیسے بادشاہوں نے مرثیہ نگاری اپنائی تو پورے ہندوستان کے نوابین اور راجے مہارجے مرثیہ نگار ہوگئے۔ مثلاً علی گڑھ کی طرف ایک جگہ ہے پنڈ راول۔ وہاں کے راجہ وہ شمیم تخلص کرتے تھے۔ وہ بھی مرثیہ کہنے لگے۔ مہاراجا محمودآباد کی تین نسلوں سے مرثیہ نگاری ہوئی۔ امیر الدولہ سے لے کر راجا صاحب محمودآباد تک اور ان کے بھائی مہاراج کمار بھی مرثیے کہتے تھے۔ اس طرح ایک جلد میں امام حسین کو بادشاہوں کا خراج عقیدت شامل ہے۔

سوال: یہ سب اردو کا ذکر ہوا۔ کیا ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مرثیے بھی ملے؟

ضمیر اختر: ہندوستانی زبانوں کے مرثیوں کی ایک مکمل جلد ہے۔ بنگال کے بڑے شاعر قاضی نذراسلام نے بنگالی میں مرثیہ کہا۔ بنگالی، مراٹھی، بوڑیا، گورمکھی، ہندی، جتنی بھی زبانیں رائج ہیں ان سب میں مرثیے کہے گئے ہیں۔ کشمیری زبان میں، پہاڑی زبان ہمالہ پہاڑ کی طرف کی۔ ہماچل پردیش کی زبان میں۔ بوڑ قوم آریاؤں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں آباد تھی۔ ان کی زبان میں مرثیے ہیں۔ جے پوری زبان میں بھی ہیں۔ پھر بھرت پور ہے، پہرسر ہے، بیانہ ہے، آگرہ ہے۔ یہاں ہندو بادشاہوں نے مرثیہ نگاری کی سرپرستی کی۔

سوال: آپ قلمی نسخوں کے کتنے ٹکڑے کتاب میں شامل کریں گے؟ کیونکہ پورے پورے مرثیے تو شامل نہیں کیے جا سکتے۔

ضمیر اختر: نہیں، پورے پورے قلمی مرثیے دے دیے ہیں۔ اس لیے کہ اگر ٹکڑے دیتے تو پھر وہ نسخے غائب ہو جاتے اور مٹ جاتے۔ اگر سو بند ہیں تو سب دے دیے۔ پانچ بند ہیں تو پانچ دے دیے۔ دو دو مرثیے سب کے ہیں۔ اگر کسی کا ایک ہی ملا تو ایک ہی مرثیہ دے دیا۔

سوال: مرثیے میں دلچسپی کی وجہ سے آپ کی بہت سے مرثیہ نگاروں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہوں گی؟

ضمیر اختر: بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک جلد لکھنئو کے ان مرثیہ نگاروں کی ہے جن کو میں نے دیکھا، جن سے میں ملا، جن سے میں نے باتیں کیں۔ مذہب لکھنوی صاحب ہیں، خبیر لکھنوی صاحب ہیں، یعنی بچپن سے لے کر جوانی تک جن کو سنا یہ پانچ سات سو صفحے کی کتاب ہے۔

سوال: یہ سلسلہ کہاں جاکر رکتا ہے؟ کیا پاکستانی شعرا کے مرثیے بھی آپ نے مرتب کررہے ہیں؟

ضمیر اختر: پاکستان میں اردو مرثیہ تو میں پہلے ہی لکھ چکا تھا۔ وہ میری چھپی ہوئی کتاب ہے۔ اس سلسلے میں اسے آخری جلد بنادیں گے۔ باقی سارا ٹائپ ہوگیا ہے۔ بعض جلدوں کی پروف ریڈنگ بھی ہوگئی ہے۔ اب بس دو دو تین تین جلدیں کرکے انھیں شائع کرنا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi