جنسی ہراسانی۔۔۔ اور کتنی جانیں لو گے؟


پروفیسر شریف المجاہد اور ان کے شاگرد رشید پروفیسر زکریا ساجد بڑے زیرک لوگ ہیں۔ ان بزرگوں نے جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ قائم کیا تو اس کے ساتھ ہی کچھ اصول بھی طے کیے۔ پہلا اور بنیادی اصول یہ تھا کہ اساتذہ ہوں یا طلبہ، شعبے کے تمام تر وابستگان اپنی توانائیاں شعبے کی تعمیر و ترقی پر صرف کریں گے اوران کے درمیان اختلاف کی نوعیت محض علمی ہوگی شخصی یا ذاتی نہیں۔ ایک اصول یہ بھی تھا کہ اساتذہ اپنے دفاتر کے دروازے کھلے رکھا کریں گے، خاص طور پر اس وقت جب طالبات اِن کے دفتر میں ہوں۔ یہ اصول جیسے بھی تھے، روشن خیالی کے جدید تقاضوں پر پورے اترتے تھے یا نہیں لیکن ان کی برکت سے یہ شعبہ ہمیشہ کسی بڑے مسئلے، تنازعے، لڑائی جھگڑے اور خاص طور پر صنفی بنیاد پر اٹھنے والی بدمزگی سے محفوظ رہا۔ جامعہ کراچی کے بعض شعبوں سے گاہے الٹی سیدھی خبریں سننے کو مل جاتی تھیں لیکن اس شعبے نے جامعہ کی نیک نامی میں ہمیشہ اضافہ ہی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب کچھ عرصہ قبل جب ذرائع ابلاغ کے واسطے سے اس شعبے کے استاتذہ پر کسی طالبہ کے جنسی استحصال کی خبر عام ہوئی تو ایک جھٹکا سا لگا اور دل یہ ماننے پر آمادہ ہی نہ ہوسکا کہ ہمارے شعبے میں کچھ ایسا بھی ہوسکتا ہے لیکن آج کا دور ایسا ہے کہ منہ سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ الزامات کی بوچھاڑ اتنی شدید تھی کہ لوگ باگ سوچنے پر مجبور ہوگئے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ یہ انحطاط کا زمانہ ہے، ممکن ہے، کسی سے کوئی غلطی ہو ہی گئی ہو۔

یہ امید برآئی جیسے جیسے اس واقعے کی تحقیقات آگے بڑھی، معاملہ صاف ہوتا چلا گیا۔ مثلاً جامعہ کی انضباطی کمیٹی نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کیں تو معاملہ یہاں آن رکا کہ متعلقہ اساتذہ اور طالبات کے موبائل فون کے فرانزک آڈٹ ہونے ضروری ہیں۔ کمیٹی کی ہدایت پر اساتذہ یعنی ’ملزمان‘ تو اس معائنے پر تیار ہوگئے لیکن الزام لگانے والی طالبات نے اپنے فون کا آڈٹ کرانے سے انکار کردیا۔ کمیٹی نے انھیں اپنے رو برو پیش ہوکر بیان دینے کی ہدایت کی تو وہ اس پر بھی تیار نہ ہوئیں۔ اصولی طور پر یہاں معاملہ ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن یہ معاملہ یہاں رکا نہیں، معاملات ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئے اور بات کا اتنا بتنگڑ بنا کہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر اس دنیا سے کوچ کر گئے جو اپنے طور پر ایک بڑا سانحہ اور اس واقعے کے پس منظر میں زیادہ تشویش ناک بات ہے جب اس طرح کی اطلاعات سامنے آئیں تو فطری طور پر تجسس ہوا، چناں چہ تحقیقات کے نتیجے میں ایک اور پٹاری کھل گئی۔

ان واقعات کی ابتدا اس سال اپریل میں ہوئی جب شعبے سے ملنے والی معلومات کے مطابق تہماس نامی ایک طالب علم نے شعبے کے نیک نام استاد ڈاکٹر اسامہ شفیق پر دباؤ ڈالا کہ اسے ان تین پرچوں میں پاس کردیا جائے جن میں وہ گزشتہ امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔ یہ دباؤ جب کام نہ آیا تو وہ سوشل میڈیا کی طاقت کو کام میں لایا اور اس نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ ڈاکٹر اسامہ شفیق طلبہ کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایم فل میں داخلے دیتے ہیں، شام کی کلاسز کے انچارج کی حیثیت سے اسی بنیاد پر جزوقتی بنیادوں پر اساتذہ کو پڑھانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عہد میں اس وڈیو نے جیسا کہ تصور کیا جا سکتا ہے، ماحول کو بڑے پیمانے پر پراگندہ کیا۔ ڈاکٹر اسامہ شفیق نے اس وڈیو کے خلاف جامعہ کی انضباطی کمیٹی میں شکایت کر دی۔ یہ صورت حال ظاہر ہے کہ تہماس کے لیے پریشان کن تھی جس پر اس نے ان نے ڈاکٹر اسامہ اور ایک اور استاد نعمان انصاری طالبات کو ہراساں کرنے کے الزامات لگا دیے اور اپنی حمایت میں چند طالبات کو بھی تیار کرلیا۔ سندھ اسمبلی کے ایک رکن بھی اس صورت حال میں کود پڑے، یوں معاملات پیچیدہ ہو گئے۔ اس کے بعد صورت حال مزید کشیدہ ہوگئی۔ یہی دباؤ تھا جس کے سبب وائس چانسلر کے اعصاب چٹخ گئے۔ ایک تعلیمی ادارے کے نظم و ضبط کے معاملے میں سیاسی لوگوں کی مداخلت اور اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا کی اس میں مداخلت سے معاملہ مزید کشیدہ ہو گیا۔ ڈاکٹر اسامہ شفیق کو براہ راست نشانہ بنا لیا گیا اور جامعہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ان کے تقرر کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جانے لگے جسے ایک ٹیلی ویژن چینل نے نمایاں طور پر نشر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہم کے پس منظر میں ایک طرف یہ تنازع تھا اور دوسری طرف کچھ ایسے صحافی بھی تھے جو جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں پڑھانے کے خواہش مند تھے لیکن معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث انھیں یہ موقع میسر نہ آ سکا۔

اس واقعے کے تیسرے پہلو کا تعلق پیمرا سے ہے جہاں ان واقعات سے متعلق خبروں سے متعلق شکایت کا فیصلہ متعلقہ فریق کے حق میں آیا۔ اسی طرح انضباطی کمیٹی نے بھی طویل تحقیقات کے بعد تہماس کو قصور وار قرار دیتے ہوئے اس کے جامعہ سے اخراج کا فیصلہ کر دیا۔ یہ سب درست ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران میں متعلقہ اساتذہ اور ان کے خاندانوں پر جو گزر گئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اتنا کافی ہے کہ چند ماہ کے بعد جب حقائق واضح ہو جائیں تو سب کچھ اپنی جگہ پر آ جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں اپنی جگہ پر تو کچھ بھی نہیں آتا۔ لوگ جان سے چلے جاتے ہیں جیسے ایم اے او کالج کے استاد افضل جان سے گئے جن پر کسی طالبہ نے اسی قسم کا الزام لگایا جس سے ان کی خاندانی زندگی تباہ ہوگئی۔ تحقیقات میں وہ بھی بے گناہ ثابت ہوئے لیکن کالج کی بیوروکریسی انھیں اس کا ثبوت دینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل جان سے گئے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاندانوں پر جو کچھ بیت گئی، وہ الگ۔

ان تلخ تجربات کے بعد اگر یہ مطالبہ کیا جائے کہ خواتین کے تحفظ کے قوانین ختم کر دیے جائیں، یہ تو ہرگز مناسب نہ ہوگا لیکن یہ مطالبہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کی بامعنی تدابیر کی جائیں تاکہ معاشرے میں انتشار کی کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ کام کے مقامات پر جنسی استحصال کے خلاف قوانین کچھ ایسا لگتا ہے کہ یک طرفہ انداز فکر کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران مجھے ایوان صدر میں وفاقی محتسب برائے تحفظ خواتین کے خواتین کے حق میں آنے والے فیصلوں کے خلاف درخواستوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے۔ کچھ مقدمات کے فیصلے تو واقعی میرٹ پر کیے جاتے ہیں جن سے خواتین کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے لیکن بہت سے فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے کئی خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس تباہی کو متعلقہ قانون تقویت پہنچاتا ہے جس کے فوری تدارک کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو ایک بڑے فساد سے بچایا جا سکے۔

جنسی ہراسانی کے قانون کی اصلاح کے ساتھ ہی ساتھ ذرائع ابلاغ پر اس طرح کی خبریں پھیلانے کی آزادی پر بھی قدغن کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض ایک معذرت سے نہیں ہوگا۔ کسی کی عزت اچھال کر معذرت کے بول سے شرپسندوں اور مفاد پرستوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوسکتی۔ اس طرح کے دو حالیہ واقعات میں دو جانیں تو جا چکی ہیں، اس سے پہلے کہ مزید نقصان ہو جائے، معاشرے اور اہل حکم کو کسی مناسب فیصلے پر پہنچ جانا چاہئے۔

میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جھوٹی خبروں کی اشاعت نیز جنسی ہراسانی کے معاملات کو اچھال کے مواقع ختم کرنے کے متعلقہ قوانین کو حقیقت پسندانہ بنایا جائے۔ دوسری صورت میں اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہیں گے اور ہمارا معاشرہ بے چینی کا شکار ہوتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).