ضرورت ہے! بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک حسن نثار کی


پاکستان کی جو چیزیں بھارت والوں کو بہت پسند ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

یکم: خواتین کے لباس کا اسٹائل

دوم: یہ گلیاں یہ چوبارہ ٹائپ سیریئل

سوم: فواد خان اور ماہرہ خان ٹائپ فلمی ستارے

چہارم: حسن نثار

چونکہ شروع کی تین چیزوں کی ہمیں کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں اس لئے چوتھی چیز پر بات کئے لیتے ہیں۔ کبھی فرصت ہو تو دیکھئے گا کہ یو ٹیوپ پر حسن نثار کے ویڈیو لائک کرنے والوں میں کتنے بھارت والے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک نفسیاتی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستانی نظام پر ایک پاکستانی ہی کی زبانی بے رحم تنقید سننے میں مزہ آتا ہوگا لیکن شائد یہی اس کی اکلوتی وجہ نہیں ہے۔

برصغیر میں حسن نثار کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ان عناصر کو رگیدتے ہیں جن کے لئے ہمارے دلوں میں بھی غبار بھرا ہوا ہے۔ ہم اس غبار کو ڈھوئے پھرتے ہیں جبکہ حسن نثار اس غبار کو اس طرح نکالتے ہیں کہ ان عناصر کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو ہماری نیابت میں وہ کر رہا ہے جو ہم نہیں کر پائے۔

حسن نثار کی ساری باتیں بالکل درست ہوں ایسا بالکل نہیں ہے اور نہ ہی وہ انسانی کمزوریوں سے پوری طرح پاک ہیں۔ صرف حسن ظن کی بنیاد پر عمران خان کو انسانی بھیس میں فرشتہ مان لینا ان کی ایسی ہی کمزوری ہے۔ ان لغزشوں کے باوجود حسن نثار کی چیخ و دہاڑ کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

پچھلے دنوں میری کتاب مسلمان: حالات، وجوہات اور سوالات منظر عام پر آئی تو بہت سے دوستوں کے پیغامات ملے کہ کتاب میں مسلمان دشمن طاقتوں کی کارستانیاں کیوں درج نہیں ہیں؟. میں نے سب کو یہی سمجھایا کہ مسلم سماج میں اصلاح کے لئے کوئی کام اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ کم اَز کم ان مسائل کو حل کر لیا جائے جن کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ بیرونی طاقتوں کا رونا رو کر حاصل بھی کیا ہوگا اس لئے کہ ان پر ہمارا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ ہمارا اختیار اس پر ضرور ہے کہ ہم خود احتسابی کرکے اپنے اندرونی معاملات درست کریں۔

حسن نثار کا رونا بھی شاید یہی ہے کہ ہمیں دشمن کی سازش پر واویلا مچانے کے بجائے اس پر غور کرنا ہوگا کہ کون کون سے مسائل ہمارے بس میں ہیں؟۔ ہر چند کہ انٹر نیٹ کی دنیا نے زمینی حدود ختم کر دی ہیں اور حسن نثار بھارت کے گھروں میں بھی دراندازی کر چکے ہیں لیکن یقین مانئے بھارت کے مسلمانوں کو بھی ایک حسن نثار کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں میں اصلاح پسند آوازیں نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی یا مسلکی شناخت کی وجہہ سے محدود اثر ہی رکھتی ہیں۔

‌پچھلے دنوں کانپور کے ایک عالم دین کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے بھارت کے ایک مہنگے شاعر پر تنقید کی۔ مذکورہ شاعر کا کلام مسلم مخالف سمجھے جانے والے عناصر کو کوسنے سے عبارت رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ان صاحب کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہے کہ مشاعرے کی فیس لاکھوں میں طے ہوتی ہے۔ لوگ گالیاں کوسنے سننے دور دور سے چلے آتے ہیں۔ شاعر صاحب مہنگی گاڑی سے عین مشاعرے کے درمیان جلسہ گاہ میں کسی راک اسٹار کی طرح تشریف لاتے ہیں۔ مائیک پر آکر منظوم کوسنے، گالیاں اور دھمکیاں سنا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں پڑ کر کوئی معاشرہ آگے بڑھ ہی سکتا۔ اس سماج کو بھڑکانے والے نہیں جگانے والے کی ضرورت ہے جو تعلیمی اور سماجی پسماندگی جیسے اندرونی مسائل کے خاتمے پر اکسائے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter