جھوٹ کے پاؤں نہیں، زبان تو ہوتی ہے


جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن جھوٹ کی زبان ہوتی ہے۔ جھوٹ کی زبان کا اس وقت پاکستان بری طرح شکار ہے۔ جھوٹ کی ان فتنہ انگیزیوں سے قلب و ذہن مسخر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جھوٹ کی ان فسوں کاریوں سے ایک سحر طاری کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس میں سچ کا گزر تک نہیں۔ جھوٹ کی شر انگیزیوں کی دست برد سے شاید ہی اب کوئی محفوظ ہو۔ زبانوں پر جاری و ساری جھوٹ نے ملک کو درماندہ، سیاست کو آلودہ اور سیاسی کرداروں کو اخلاقی برتری سے محروم کر رکھا ہے۔

جھوٹ نے فقط میدان سیاست کو ہی تختہ مشق نہیں بنا رکھا۔ فکر و دانش کے دعویداروں اور متضاد نظریات کے حاملین بھی جھوٹ کی وجہ سے اس طرح پراگندگی فکر کا شکار ہیں کہ ان کا ماضی و حال ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتا۔ ان دنوں ملک میں آزادی مارچ کا شورو غوغا برپا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے طبل جنگ بجا دیا ہے جس کے تحت ملک بھر سے قافلے مارچ کرتے ہوئے عازم اسلام آباد ہو کر حکومت وقت کا دھڑن تختہ کریں گے۔ مولانا کے آزادی مارچ جس کے اختتام پر اسلام آباد میں دھرنے کا منصوبہ ابھی تک واضح نہیں ہو پایا سیاسی منظر پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ یہ آزادی مارچ ہو پائے گا یا نہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت وقت اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہو جائے گی یا نہیں؟اس پر فقط قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے۔

حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمان کا احتجاج ان کا جمہوری حق اور انہیں کسی صورت اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کا اسلحہ خانہ تو ویسے بھی اخلاقی جواز و برتری کے کسی ہتھیار سے محروم ہے کہ جس سے وہ مولانا کے منصوبے کو ڈھیر کر سکے۔ ایک سو چھبیس دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں ن لیگ کی حکومت کے خلاف دھرنا دے کر تحریک انصاف مخالفین کو کسی صورت میں مارچ اور دھرنے کی سیاست کے ملک اور اس کی معیشت پر مضمر نتائج و عواقب سے آگاہ کر کے انہیں اس سے باز رہنے کی تلقین اور تادیب کے حربے آزمانے کے قابل نہیں رہی۔

دھرنے کی سیاست کے موجد عمران خان اور ان کی جماعت تو نہیں لیکن اسے بام عروج تک پہنچانے میں ان کے کردار کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ حکومتی جماعت تو محاوراتی گونگوں پر مشتمل ہونی چاہیے کہ حزب اختلاف کی کڑوی کسیلی باتوں پر بھی مسکرا اٹھیں اور اگر اس ظرف سے خالی ہیں تو کم از کم چپ ہی سادھ لیں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے کہ حکومتی جماعت کے اراکین عقابوں کی طرح ہر لمحہ جھپٹنے کے لیے مستعد اور ان کی زبانیں طنز، طعن و تشنیع اور تضحیک آمیز الفاظ اگلنے کو تیار۔

اس پر مستزاد جھوٹ کے ایسے طومار باندھے جا رہے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ کسی حکومتی جماعت کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد کے قول و فعل میں ایسا تضاد شاید ہی چشم فلک نے کبھی دیکھا ہو گا۔ کہاں دعوؤں اور وعدوں کے رنگین و دلفریب محل اور کہاں عمل کی بھدی و بدبودار میں لپٹی جھونپڑیاں۔ تحریک انصاف حکومت کی تمام تر خامیاں اور ناکامیاں تاہم کسی کو یہ جواز فراہم نہیں کر سکتیں کہ وہ جتھوں کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں دھونس، دھمکی اور قوت سے ایک حکومت کا خاتمہ کر دیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا اگر ناجائز تھا تو انصاف و اخلاقیات کے کس ترازو میں تول کر نواز لیگ مولانا فضل الرحمان کی اسلام آباد میں لشکر کشی کو سند فراہم کر رہی ہے۔ جو دھرنا نواز لیگ کے دور میں ملک اور اس کے مستقبل کے خلاف اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز سے عاری تھا وہ آج تحریک انصاف کے خلاف کیونکر جمہوریت پسندی کا مظہر ٹھہرتا ہے، اس بابت نواز لیگ کی زبانیں بھی جھوٹ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں گرج برس کر تحریک انصاف کے دھرنے کو ہدف تنقید بناتے تھے اور اسے یہود کی سازش کی کڑی سمجھتے تھے لیکن آج وہ مارچ اور دھرنے کے فضائل و کمالات کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔ ماضی و حال کی ان متضاد کیفیات کو ہم کچھ نام دیں، اس سے بہتر ہے کہ مولانا اپنی اداؤں پر آپ غور فرما لیں۔ پاکستان کا بزعم خود دانشور طبقہ بھی مخصمے کا شکار ہے۔ عمران خان کے حمایتی اہل دانش و اہل صحافت نواز لیگ کے خلاف دھرنے کو ملک و قوم کی قسمت بدلنے کا نسخہ کیمیا قرار دیتے رہے۔ دن رات دھرنے کی خوبیوں پر انہوں نے قوم کی ایسی سمع خراشی فرمائی کہ آج بھی اس کی بازگشت سے ذہن آلودہ ہونے لگتے ہیں۔ آج یہی صاحبانِ فکر و نظر فضل الرحمان کے مارچ و دھرنے کے ذکر سے ہلکان ہو رہے ہیں۔

اس کے بالمقابل وہ نام نہار ترقی پسند و لبرل جو جمہوریت پر مارچ و دھرنے کے ذریعے شب خون مارنے کے مضمرات سے ڈرا ڈرا کر قوم کی راتوں کی نیند اور دن کو سکون غارت کرتے رہتے تھے آج تحریک انصاف سے مخالفت میں ان کی سوچ و فکر نے ایک ایسا یو ٹرن لیا ہے کہ انسان انگشت بدنداں رہ جائے۔ جو کل تک مارچ و دھرنے کو جمہوریت کے لیے زہر سمجتھے تھے اب جا کر ان پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ تو جمہوریت کے لیے تریاق ہے۔ ایسی ژولیدہ فکری کو صحافیانہ اور نظریاتی بد دیانتی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔

انسانی معاشروں میں کچھ اصول طے شدہ ہوتے ہیں جو وقت و حالات بدلنے سے بدل نہیں جایا کرتے۔ ذاتی و نظریاتی مخالفت اور پسند و نا پسند کی بناء پر ان اصولوں سے انحراف افراد اور گروہوں کی خود ساختہ اصول پسندی کا چہرہ بے نقاب کر دیتا ہے اور ان چہروں میں موجود منہ کے اندر پائی جانے والی زبانیں جھوٹ کا سہارا لیتی ہیں۔ اس کے بارے میں یوسف تقی نے کہہ رکھا ہے

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے

صرف

پاؤں ہی نہیں

کوئی بھی عضو نہیں ہوتا

سوائے زبان کے

جو بڑی ڈھٹائی

بے شرمی اور بے حیائی سے

 چلتی ہے

ایوان بالا کے اندر اور باہر

منچوں میں

یا ٹی وی کے مذاکروں

اخبار کی سرخیوں اور

انٹرویووں میں

تا کہ معصوم

امن پسند

سادہ لوح انسانوں کو

ورغلا کر

ہلاکت میں ڈال دیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).