ایک اور ’لشکر‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو!


7 مارچ 1977 ء کی شام پھیلتے اندھیرے میں ہمارے گھر کے پاس والے پولنگ سٹیشن پر انتخابی نتیجے کا اعلان ہوا تو خرم دستگیر کے والد خان غلام دستگیر خان، پی این اے کی ٹکٹ پر فاتح قرار پائے۔ نتیجہ سنتے ہی ایک منڈھی مونچھوں اور لمبی داڑھی والا شخص بازو فضا میں لہرا کر دھاڑا، ’ہن ساریاں شراباں تے سینمے بند، ملک وچ اسلامی نظام آئے گا۔ ‘ (اب یہاں شراب نوشی ممنوع اور سارے سینما گھر بند ہوجائیں گے کیونکہ ملک میں اسلامی نظام آ رہا ہے )۔

معاملات کا پورا ادراک نہ ہونے کے باوجو د اس شخص کا حلیہ اور لہجہ میرے لاشعور سے چپک کر رہ گیا ہے۔ اگلے روز متحدہ اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا۔ انتخابی دھاندلی کے نام پر برپا تحریک کا مطالبہ جلد ہی نعرۂ نظامِ مصطفٰی میں بدل گیا۔ سڑکوں پر مار دھاڑ اور کچھ خونریزی کے بعد ملک میں ماشل لا نافذ ہو گیا۔ ’شراب نوشی‘ پر پابندی کا اعلان تو بھٹو صاحب کر گئے تھے مگر سینماؤں کی بربادی سمیت ’اسلامی نظام‘ کا نفاذ جنرل ضیا الحق نے کر دیا۔

1980 ء کی دہائی میں افغان جنگ کے ہنگام جہاں پوری دنیا سے جہادی پاکستان وارد ہوئے، وہیں ہمارے اپنے معاشرے میں بھی متشدد روّیے در آئے۔ دو اطراف سے برسنے والی غیرملکی مالی امداد سے اپنے اپنے مسلکی لشکروں کی آبیاری جاری تھی کہ ایک مخصوص مسلک کو سرکاری تائید بھی میسر آ گئی۔ پاکستان خطے میں جنونی جتھوں کے آگ اور خون کے وحشیانہ کھیل کے لئے بین الا قوامی کالوسییم (Colosseum) یعنی اکھاڑہ بن کر رہ گیا۔ روسی فوج کے انخلا اور امریکی دلچسپی و امداد کے سوتے خشک ہونے پر جب افغان مجاہدین ایک دوسرے پر پل پڑے تو خلا کو طالبان نے پر کیا جو انہی مخصوص مدرسوں کی پیداوار تھے جنہیں بوجوہ ریاست کی خاموش تائید حاصل رہی تھی۔

افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں جاری تھیں تو پاکستانی معاشرہ بھی مسلسل انتشار اور توڑ پھوڑ کے زیر اثر تھا۔ جا بجا جہادی مدارس کھمبیوں کی طرح اُگ رہے تھے۔ مسجدیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بدل رہی تھیں۔ مسلح جتھے دندناتے پھرتے اور سر بازار بھتہ وصول کرتے۔ 1995 ء کے دوران لاہور کینٹ کے ایک گھر میں ہونے والی ڈاکہ زنی میں حاضر سروس بریگیڈئیر کے اہلِ خانہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ قاتلوں کا گروہ کہ جو ایک فرقہ ورانہ تنظیم کے زیرِ سرپرستی پایا گیا تھا، اپنے سہولت کاروں کی مدد سے افغانستان فرار ہو چکا تھا۔ بتایا گیا کہ کہ مجرموں کی گرفتاری ایک مذہبی سیاسی پارٹی کے سربراہ کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ مسلح جہادی جتھے انہی کی پارٹی کے زیرِ اثر تھے۔ ریاست میں مگر استطاعت نہ تھی کہ ’مولانا‘ پر ہاتھ ڈالتی۔

ستمبر 2001 ء کے بعد دہشت گردی کی آگ نے ہمارے قبائلی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی حملوں کے مفرور، خطے میں امارتِ اسلامیہ کے قیام کے عزم کے ساتھ ہمارے شہروں اور بستیوں پر ٹوٹ پڑے۔ اس نام نہاد جہاد میں جہاں مساجد، چرچ، اور امام بارگاہیں تک زیر عتاب تھیں تو وہیں دین کو بدعات اور مشرکانہ رسومات سے پاک کرنے کے لئے ملک کے طول و عرض میں اولیاء کرام کے مزارات پر حملے خطے کی صدیوں پر محیط تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملے۔

مینگورہ کے خونی چوک کے بیچ ایک پیر صاحب کی لاش کئی روز تک لٹکتی رہی۔ مریدین بے بسی سے تکتے رہے مگر ہمت نہ تھی کہ قریب پھٹکتے۔ ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے والے علمائے دین کو بلا تفریق شہیدکیا گیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں ان دہشت گردوں کے سہولت کار، یرغمال ٹی وی چینلز پرسرشام دہشت گردوں کی وکالت اور ان سے برسر پیکار افواج پر تازیانے برسانے چلے آتے۔ نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے پاک فوج کے شہداء کے جنازے پڑھنا ناجائز قرار دے دیا۔ جھوٹ اور نفرت کو مذہب کے سنہری پنوں میں لپیٹ کر اس عیاری سے بیچا جا رہا تھا کہ عوام کی اکثریت بے یقینی اور نظریاتی الجھن کا شکارہو کر رہ چکی تھی۔

بہت کاتنے، اور بار بار اُدھیڑنے کے بعد فوجی آپریشن کامل یکسوئی کے ساتھ شروع ہوا تو پاکستانی فوج کے نوجوان افسروں اور ماؤں کے سجیلے جوانوں نے خون آشام وادیوں میں چھپے درندوں کو چن چن کر مارنا شروع کیا اور اپنے خون سے ایک نئی صبح کی داغ بیل ڈالی۔ روشنی ہوئی تو میڈیا کے اوسان بھی بحال ہوئے۔ ہر گزرتے دن بربریت کا پردہ چاک اور عوام پر ان خارجیوں کے عزائم کھلتے چلے گئے۔ پھر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ لال مسجد کے سامنے چند نہتے پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا۔

دیکھتے دیکھتے قافلہ بڑھتا گیا۔ ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستانیوں نے تاریکی کی قوتوں کو سرحد پار دھکیل دیا۔ ’مولانا‘ بھی اس دوران انتہا پسندوں سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اب امریکیوں سے پینگیں بڑھانیں میں مصروف تھے۔ آرمی پبلک سکول پر بہیمانہ حملے کے بعد متعدد اہم فیصلوں کے علاوہ ریاست اس نتیجے پر بھی پہنچی کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے مدرسوں میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ کسی قسم کی نجی لشکر سازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ادھر برسوں کی خون ریزی کے بعد افغانستان سے ابھرنے والے عفریت کا سایہ ہماری سر زمین سے سمٹ رہا تھا تو وطنِ عزیز کو ابھی ایک اور دریا کا سامنا کرنا تھا۔ اکثریتی مسلک کی رہبری کے خود ساختہ دعویٰ دارجواب تک دم سادھے بیٹھے تھے ان کو راتوں رات دین کی حرمت ستانے لگی۔ کل تک جن کے رنگ طالبان کے نام پر زرد پڑتے اور جسم خشک پتوں کی طرح لرزتے تھے اب جنات ان کے حجروں میں حاضریاں دینے لگے۔ پہلے دھرنے میں تحریک انصاف نے ان فسادیوں کا کاندھا تھپتھپایا۔

تسلسل کے ساتھ مخاصمانہ حکومتی چالوں سے اکتائے ہوئے ادارے بھی دوسری طرف دیکھتے رہے۔ تاآنکہ حکومت نے بے بسی کے عالم میں دل پر پتھر رکھ کر بالآخر انہی اداروں سے معاملہ نمٹانے کو کہا۔ دھرنے کے دوران جب مسلم لیگی وزراء پر قاتلانہ اور خود میاں نواز شریف پر جوتا پھینکے جانے جیسے ناگوار حملے شروع ہوئے تو ہر ذی شعور نے ان متشدد روّیوں سے برآت کا اظہار کیا۔ خود جناب احسن اقبال نے ایک خصوصی ویڈیو پیغام کے ذریعے کفر کے فتوے جاری کرنے کی روایت اور مذہب کے نام پر معاشرے میں فروغ پذیر انتہا پسند رویوں کی بیخ کنی پر زور دیا۔ سر پر پٹّی باندھے مضروب میاں جاوید لطیف نے بھی ٹی وی پر آ کر کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔

انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو شہرت کے نشے میں دھت خادم حسین رضوی نے ناموس رسالتؐ کے مقدس نعرے کی اَوٹ میں ایک بار پھر خلفشار برپا کرنے کا سوچا۔ موقع پا کر ’مولانا‘ نے بھی شورشیوں کی حمایت میں احتجاج کے لئے نکلنے کا اعلان کر دیا۔ تحریکِ لبیک سے مگر اس بار اندازے کی غلطی ہوئی تھی۔ عشروں سے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں ستائی ہوئی ریاست اس بار زعم پارسائی کی بیماری میں مبتلا تاریکی کی قوتوں سے نمٹنے کے لئے پر عزم تھی۔ چندہی روز میں آندھی کی طرح اٹھنے والی خلفشار کی تحریک بگولے کی طرح فضا میں تحلیل ہوگئی۔ ’مولانا‘ جہاں تھے وہیں پر اکیلے کھڑے رہ گئے۔

اب کہ ایک برس بیت چکا، اس اکتوبر میں اپنے مولانا مگر اکیلے نہیں۔ ناموسِ رسالت کے نام پر جے یو آئی کے زیرِ اثر مدرسوں کے طلباء، اور خاکی وردیوں میں ملبوس لٹھ بردار جتھے اپنے کمانداروں کو سلامیاں پیش کرتے ہوئے ریاستی دارالحکومت پر حملہ آور ہونے کو پرعز م ہیں۔ مولانا کو خراج ِ عقیدت پیش کرتے جنگی ترانے سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ حکومت مذاکرات کے لئے کوشاں اور مولانا انکاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ وہ دھرنے میں مذہب کارڈ کے استعمال کے خلاف ہے، تاہم اس کے نتیجے میں حکومت گر جائے توکوئی مضائقہ نہیں۔

ن لیگ کی حمایت بھی اب مولانا کو دستیاب ہے جس کے حصول میں احسن اقبال اور میاں جاوید لطیف جیسے ن لیگی صفِ اوّل میں پائے گئے۔ ابھی کل ہی ہمارے اِن دو دانا رہبروں نے خود پر مذہبی انتہا پسندوں کے حملوں کے بعد بالتر تیب بازو اور سر پر پٹّی باندھے، ہما شما کو انتہا پسند روّیوں سے دور رہنے کی نصیحت بخشی تھی۔ کل ہی کی بات ہے کہ نواز شریف بھی سرل المیڈہ کو ملتان میں کھانے کی میز پر بیٹھے بتا رہے تھے کہ آج کی دنیا میں پرائیویٹ لشکروں کی کوئی گنجائش نہیں۔

سیاستدانوں کی قلا بازیوں پر مجھے قطعاَ حیرانی نہیں۔ کل تحریکِ انصاف تھی تو آج دوسرے ہیں۔ مجھے افسوس مگر ان بائیں بازو کے دانشوروں اور جمہوری لبرلز پر ہے جو انتہا پسند جتھوں کی پشت پناہی کے لئے سلامتی کے اداروں کو معطون ٹھہراتے نہیں تھکتے تھے۔ آج مگر سب مولانا فضل الرحمٰن کو ہنومان کے اَوتار میں پیش کرتے ہوئے ڈنڈہ بردار لشکروں سے اسلام آباد ڈھائے جانے کی امیدیں وابستہکیے ، سانس روکے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).