اپنے ملک کی معیشت کی فکر کر نادان!


چھ عرصے سے وزیر ِاعظم عمران خان کی چین اور سعودی عرب کی طرف بہت”آنیا ں جانیاں“ دیکھنے میں آئی ہیں۔ ہنڈولے کی اس اُڑان میں اُنھوں نے اب امریکہ اور ایران کو بھی شامل کرلیا ہے۔ ان دوروں کا کیا مقصد ہے؟کیا بہتر نہیں کہ وہ اس اچھل کود کی بجائے ملک میں رہتے ہوئے معیشت اور سیاسی امور پر توجہ دیں؟

چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار، اور سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔ تزویراتی طور پر اس وقت یہ پاکستان کا واحد دفاعی اور سیاسی اتحادی ہے۔ حالیہ دنوں چینی دوستوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سے اُن میں کام کی رفتار سست ہوچکی ہے۔ یہ سست روی چار وجوہات سے منسوب کی جاتی ہے: پی ٹی آئی حکومت کی پی ایم ایل (ن) حکومت کے دوران چینی کمپنیوں کو دیے گئے ٹھیکوں میں مبینہ ”بدعنوانی“ کی تحقیقات؛ بجٹ کی تنگی کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کی چینی منصوبوں کے لیے پاکستان کے حصے کی رقم ادا کرنے میں ناکامی؛ آئی ایم ایف کا ان منصوبوں کی انسپکشن پر اصرار، جبکہ ماضی میں ا نہیں رازداری میں رکھا جاتا تھا؛ آئی ایم ایف کی چین سے مزید قرضے نہ لینے کی ہدایت کیونکہ پاکستان مغربی ایجنسیوں سے امداد لیے بغیر اُنہیں واپس نہیں کرسکے گا؛ نیز سی پیک پر فیصلہ سازی میں سویلین بیوروکریسی کے ساتھ فوجی اسٹبلمشنٹ کی شراکت داری کا اصرار، لیکن اس کے لیے طریق کار کی عدم موجودگی کا مسئلہ موجود۔ یقینا بہت سے معاملات میں سدھار کی ضرورت ہے۔ یہ معاملات داخلی طور پر بھی ہیں اور چینی حکومت کے ساتھ بھی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اپنے دیرینہ اتحادی، اچھے برے وقت کے ساتھی اور دوست ملک کے ساتھ تمام غلط فہمیوں کو رفع کیا جائے اور معاہدوں کی پاسداری کی جائے۔

سعودی عرب بھی پاکستان کے نزدیک انتہائی اہم حیثیت رکھتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کسی بھی حالات میں اس کی ناراضی یا سرد مہری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی 2.6 ملین افرادی قوت سعودی عرب میں کام کرکے پانچ بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ کا زرِمبادلہ بھیج رہی ہے۔ یہ بیرونی ممالک سے بھیجی گئی کل رقوم کا پچیس فیصد ہے۔ سعودی بھائی کئی بلین ڈالر مالیت کا تیل تاخیری ادائیگی پر فراہم کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے حال ہی میں پاکستان کے زر ِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے اس میں تین بلین ڈالر رکھوائے۔ اس کے علاوہ 70,000 پاکستانی سروس مین سعودی عرب کے فوجی اور دفاعی انفراسٹرکچر میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

حال ہی میں سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان نے ذاتی طور پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان نے طالبان کو امریکہ کے ساتھ بات چیت پر راضی کرنے کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کے بعد ہی امریکہ افغانستان سے انخلا کرسکتا ہے۔ اس کے بدلے میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیر ِاعظم نریندر مودی کو پاکستان کے خلاف جارحانہ نعرہ بازی اور اپنے ہمسائے سے فوجی تناؤ بڑھانے سے گریز کرنے اور مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے کا مشورہ دیا۔ پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف سے پیکج حاصل کرنے کے لیے امریکی صدر کی حمایت بہت اہم ہوتی ہے۔ نیز پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے بھی امریکی صدر کی خوشنودی درکار ہے۔ بلیک لسٹ میں جانے کا مطلب معیشت کی تباہی ہے۔

تاہم حالیہ برسوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ دیکھنے میں آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ دینے کے لیے یمن کی جنگ میں فوجی دستے بھیجنے، یا مشرق ِوسطیٰ کی کشمکش میں اس کا ایران کے خلاف کھل کر ساتھ دینے سے انکا ر کردیا تھا۔ درحقیقت سعودی دوستوں کویہ بات بہت ناگوار گزری جب عمران خان نے حالیہ دورے کے دوران نیویارک میں کہا کہ اُنہیں شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کرانے کے لیے کہا ہے۔ محترم شہزادے نے ایسی کوئی درخواست کرنے کی فوری تردید کردی۔ اب ثالثی کا بھوت اترنے کے بعد عمران خان بھاگم بھاگ ریاض جا کر اس کی ناراضی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

گزشتہ سال وزیر ِاعظم بننے کے بعد عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ غیر ملکی امداد لینے کی بجائے بدعنوانی کو روکنے (گویا بھاری رقم بچانے)، اور لوٹ کر سمندر پار اکاؤنٹس میں چھپائے گئے کئی سو بلین ڈالر واپس لانے، اور بیرونی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو ”نئے پاکستان“ میں دل کھول کر سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیں گے۔ نیز وہ ٹیکس چوروں اور غیر ملکی قرضے ہڑپ کرجانے والوں کو بھی پکڑیں گے۔

اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد بھی وہ ان میں سے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس دوران بیرونی قرضے بڑھ چکے ہیں۔ اُنھوں نے آتے ہی ٹیکس ایمنسٹی سکیم شروع کردی۔ ابھی تک نیب نے بدعنوانی کے جنگل سے چند ایک بوٹے ہی اکھاڑے ہیں، اور وہ بھی بھاری قیمت ادا کرتے ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے سول بیوروکریسی کو کم و بیش غیر فعال کردیا ہے؛ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے خائف ہیں۔ تارکین ِوطن ”نئے پاکستان“ کے مستقبل کے بارے میں پرامید نہیں، اور نہ ہی وہ موجودہ حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہوشربا افراط ِزر، مہنگائی، معاشی جموداور بے روزگاری نے معیشت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانیوں کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پی ایم ایل (ن) کی مقبولیت میں اضافہ، جبکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی کا رجحان واضح ہے۔ پاکستانی یہ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے اقتدار پر پہنچنے کے لیے عمران خان کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اس ضمن میں اگر کوئی ابہام باقی تھا تو اب تک دور ہو چکا ہے۔

عمران خان نے معاشی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں بہت سا وقت اور توانائی ضائع کردی۔ ایک دن کوئی پالیسی بنتی ہے، اگلے دن اُس پر لکیر پھیر کر کوئی اور مورچہ سر کرنے کا غلغلہ سنائی دیتا ہے۔ ہمہ وقت تبدیلی سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا۔ کسی کو اُنہیں سمجھانا چاہیے کہ ”نادان دوست، یہ معیشت ہے۔“ معیشت جیسے امور محض حکم صادر کرنے یا اچھی امید رکھنے سے نہیں طے پاتے۔ خوش فہمی کی ندی میں نرگس کے پھول کھل سکتے ہیں، موتی نہیں ملتے۔ سیاسی محاذ آرائی کا طوفان برپا کر کے معیشت نہیں سدھاری جا سکتی۔ گڈ گورننس کا سیاسی استحکام اور معاشی یقینی پن سے گہرا تعلق ہے۔ آئی ایم ایف کا حالیہ بیان سنگین صورت ِحال کی غمازی کرتا ہے کہ اگلے سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.4 فیصد رہے گی۔ وفاقی وزیر، فواد چوہدری کا بیان کہ لوگ ملازمتوں کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں، پی ٹی آئی کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).