کچھ باتیں سیکس ایجوکیشن کے بارے میں


سوشل میڈیا اور خبریں سنیں تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اسلام اور عریانی نظر آتا ہے، لیکن اگر اندرون شہر تھوڑا سا سفر کر لیں تو دیواروں پر موجود حکیموں اور دواخانوں کے اشتہتارات سے گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ جنسی کمزوری ہے جس کا حل صرف اور صرف متعلقہ حکیم صاحب کے پاس ہے جنہوں نے اشتہار دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ جنسی کمزوری کے بارے میں تو سرعام اظہار خیال کیا جاتا ہے لیکن جنسی تعلیم کو ممنوع سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں بات کرنا اخلاقیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

ایک امریکن ریسریچ کے مطابق 60 سے 70 فیصد لڑکے سیکس ایجوکشن اپنے کلاس فیلوز اور فرینڈز سے حاصل کرتے ہیں۔ 10 سے 15 فیصد سکول سے، 10 سے 12 فیصد والدین سے اور صرف 4 سے 6 فیصد بچے سیکس ایجوکیشن کسی ماہر کنسلٹنٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کے اس معلومات حاصل کرنے کی عمومی عمر 12 سے 16 سا ال ہوتی ہے اسی طرح 50 سے 60 فیصد لڑکیاں سیکس ایجوکشن اپنے کلاس فیلوز اور فرینڈز سے حاصل کرتے ہیں، 10 سے 14 فیصد سکول سے، 20 سے 5 2 فیصد والدین سے اور صرف 2 سے 4 فیصد سیکس ایجوکیشن کسی ماہر کنسلٹنٹ سے حاصل کرتی ہیں۔ اور ان کے یہ معلومات حاصل کرنے کی عمومی عمر 11 سے 15 سال ہوتی ہے۔

سیکس ایجوکیشن کے لیے بہتر عمر کونسی ہے؟

ایک امریکن رائٹر کے مطابق سیکس ایجوکیشن کے لیے مناسب عمر 8 سال ہوتی ہے۔ 8 سال کی عمر میں بچے میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ مختلف باتوں کی منطق کو سمجھ سکے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے، جس میں بچے کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں، جیسا کہ وہ سوالات یہ ہو سکتے ہیں کہ مرد اور عورت کے جسم کی جسمانی ساخت مختلف کیوں ہے، بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں، شادی کیا ہوتی ہے اور کیوں کرتے ہیں۔ والدین ایک کمرے میں اور بچے الگ کمرے میں کیوں سوتے ہیں۔

سیکس ایجوکیشن ہوتی کیا ہے؟

ہمارے معاشرے میں میں غلط نظریہ بنا ہوا ہے کہ شاید سیکس ایجوکیشن کا مطب یہ کہ بچوں کو یہ سکھانا کہ سیکس کیسے کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس کے اصل مقصد کو دیکھیں تو اس کا مقصد اور مطلب ہوتا ہے کہ بچے کو جنس کے بارے میں معلومات دی جائے نہ کہ صرف مباشرت (سیکس) کی۔ سکیس ایجوکیشن کا بنیادی مقصد بچے کو اس کے جنس کے مطلق اور مخالف جنس کے مطق آگاہی دینا ہوتا ہے، بچوں کو بتانا ہوتا ہے کہ مرد اور عورت جسمانی ساخت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔

عمر بڑھنے کر ساتھ ساتھ ان میں جسمانی اور ہارمونل تبدیلیاں بھی رو نما ہوں گے، ان کی جسمانی ساخت تبدیل ہو گی۔ اور ان میں جنس مخالف کو لے کر کشش پیدا ہو گی اور جنس مخالف سے تعلق بنانے کے خیلالات ذہن میں آ سکتے ہیں، یہ ایک عام انسانی رویہ ہے، یہ صرف آپ کو ہی محسوس نہیں ہوں گے، اس عمر میں سب انسانوں میں یہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سیکس ایجوکیشن دینے والا یہ بھی بتا سکتا ہے کہ اس عمر میں اس میں بھی ایسی ہی تبدییاں آئی تھیں اور اس سے ان کو کیسے ہینڈل کیا تھا۔ اس کے علاوہ بچے کے ذہن میں موجود سوالات بھی سن کر اس کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ اور بچے کے ذہن کے ابہام دور کیے جاتے ہیں۔

سیکس ایجوکیشن کے فوائد کیا ہو سکتے ہیں۔ ؟

ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر ہے کہ شاید سیکس ایجوکیشن کے بعد بچے سیکس کی طرف مائل ہوں گے اور ہم ان سب معلومات کے ذریعے بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسی باتیں ڈالیں گے۔ بچہ جیسے ہی 3 سال سے بڑا ہوتا ہے اس کے ذہن میں سوالات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، وہ سوالات ہر طرح کے ہو سکتے ہیں، ان میں سے کچھ سوالات جنس سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں، جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے، اس کی معلومات بھی بڑھتی جاتی ہے اور سوالات بھی۔

اگر صحیح عمر میں بچے کو سیکس ایجوکیشن دے دی جائے تو اس کی یہ کنفیوژن دور ہو جاتی ہے۔ ایک اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ جیسے جیسے بلوغیت کے مراحل میں آگے بڑھتا ہے، اس کو یہ چیزیں نئی نہیں لگتیں کیوں کہ اس کے پاس ان احساسات اور تبدیلیوں سے متعلق معلومات ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنے جنسی احساسات اور خیالات کو لے کر کسی احساس گناہ کا شکار نہیں ہوتا۔

سیکس ایجوکیشن نہ ہونے کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟

سیکس ایجوکیشن نہ ہونے سے بچے کے ذہن میں بہت سارے سوالات ادھورے رہ جائیں گے، ان ادھورے سوالات کے جواب وہ اپنے نا تجربہ دوستوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جو اسے اپنی سمجھ کے مطابق جواب دیں گے، بچہ ان سوالات کے جواب انٹرنیٹ سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، وہاں بھی زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ ا س کی عمر اور سوالات سے ہٹ کر اس کے پاس معلومات آ جائیں جو اس کے لئے اور مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ بچہ جب بالغ ہو گا، اس کے پاس معلامات ہوں یا نہ ہوں اس میں جسمانی تبدیلیاں بھی آئیں گی اور مخالف جنس کی طرف جنسی خیالات بھی۔ یہ چیزیں بچے کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ بچہ اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق ایسے خیالات کو غلط بھی سمجھے گا لیکن یہ خیالات مسلسل بھی آئیں گے اور اس کو جبلی طور پر اچھا بھی محسوس ہوگا مخالف جنس کے متعلق سوچ کر، اس صورتحال میں بچہ ذہنی کشمکش کا شکار ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کا ایک نقصان اور بھی ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرے جو ساجی لحاظ سے غلط ہو۔ سیکس ایجوکیشن نہ ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ ساری عمر وہ اپنے جنسی عمل سے متعلق ابہام کا شکار رہے کہ اس کو کوئی جنسی کمزوری تو نہیں۔

سیکس ایجوکیشن کون دے سکتا ہے؟

سیکس ایجوکیشن وہی دے سکتا ہے جس کے پاس اس سے متعلق علم ہو۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو سیکس ایجوکیشن سائیکالوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیچر بھی دے سکتے ہیں اگر ان کے پاس اس کا علم ہو، اور والدین بھی، لیکن والدین کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ کسی ماہر سے اس بارے میں رہنمائی لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).